ہم محبت نہیں کر سکتے کیا؟

بھارت سرکار نے ایک دھماکے کا الزام پاکستان پر لگایا کہ دھماکے کرنے والے پاکستانی تھے۔جس پر پاکستان کی حکومت نے بہت اچھا جواب دیا کہ ثبوت دیا جائے ہم کارروائی کریں گے۔مگر بھارت کی سرکار نے ثبوت دینے کی بجائے جنگ کا ماحول پیدا کردیا ۔باقی تمام کہانی سے سب واقف ہیں ۔پاکستان کی سرکار نے ایک قدم اور بڑھ کر امن کی بات کرتے ہوئے گرفتار بھارتی پائلٹ کو رہا کردیا اوربا عزت طریقے سے بارڈر پار بھارتی حکام کے حوالے کردیا۔امن کے خواہاں حلقوں، باشعور پاکستانیوں سمیت دنیا بھر نے پاکستانی سرکار کے اس عمل کو دادتحسین دی اورسراہاہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تدبر ،دانش مندی اور صلح جوئی کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔مگر اس کے برعکس پاکستان کے عوام کی اکثریت نے جنگ کے شعلے بھڑکائے رکھنے کی خواہش کا برملا اظہار کرتے ہوئے امن کی بجائے جنگ کو ترجیح دی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے اقدام کو مسترد کیا ہے۔ایسا کیوں ہے۔ہم امن کی بجائے جنگ کے دلدادہ کیوں ہیں۔نفرت،گالی گلوچ ،لعنت بھیجنے ،کافر ،غدار،مرتد قرار دینے میں ذرا تامل نہیں کرتے ہیں ۔دلیل،منظق سے بات نہیں کرتے ہیں ۔پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ عمومی طور رویہ مناسب نہیں ہے۔ مسلمانوں کے فرقے احمدیت کو عقیدے کی بنیاد پر ریاست نے قانونی طور پر اقلیت قرار دے رکھا ہے۔اس کے باوجود احمدیوں کا پاکستانی اور انسانی حق تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔شدید نفرت کا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔باقاعدہ طور پر کچھ تنظیمیں احمدیوں سے نفرت کی تبلیغ کرتی ہیں۔ایسا کیوں ہے۔یہ سوال تمام پاکستانیوں کیلئے انتہائی اہم ہیں ۔سوالوں کے جواب تو شاید بہت سارے دینے کیلئے تیارہوں گے۔مگر صرف جواب کی ضرورت نہیں رہی اب ۔حل کی ضرورت ہے۔پہلا فرض وزراعظم اور ریاست کا ہے کہ تمام سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے حل کرے۔ریاست ہی کی اولین ذمہ داری ہے کہ عوام کی سمت درست کرے ۔تعلیمی اداروں میں انتہاپسندی جیسے خیالات پنپنے سے روکے۔سیاسی جماعتوں کیلئے ضابطہ اخلاق بنایا جائے۔عوامی سطح پر تقریر اور نشریات و اشاعت پر ہیجان انگیزی،جنونیت پھیلانے اور ورغلانے جیسے اقدام کو فوری ممنوع قرار دیا جائے۔ٹی وی چینلز پر میزبان کیلئے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ طے کردہ اخلاقیات کا خیال رکھے۔جس طرح باقی معاملات کے لئے حکومت نے ٹاسک فورسز تشکیل دے رکھی ہیں ۔اس کام کیلئے بھی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔دوسرا فریضہ وزیراعظم کی برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے اندر یہ سوال رکھے اور اس کو حل کرنے کیلئے حکمت عملی اپنائے ۔سیاسی تنظیمی تربیت کی جائے ۔سٹڈی سرکل کا کلچر پیدا کرکے سوال حل کیے جا سکتے ہیں۔حقیقی فریضہ سیاسی جماعتوں کا ہی ہے ۔پاکستانی عوام میں جنگی جنون،جذباتیت اور عدم برداشت جیسے رجحانات کا پیدا ہونا سیاسی جماعتوں کی اپنے فرائض سے غافل ہوکر محض اقتدار کی جنگ لڑنے کے باعث ہے ۔عوام کی راہنمائی کی بجائے عوام کو اقتدار کی سیڑھی سمجھنے والے خود ساختہ لیڈروں کے باعث آج یہ سوال کھڑے ہوئے ہیں۔خود ساختہ لیڈروں سے مراد جو سیاسی اور تنظیمی اصول بالائے طاق رکھتے ہوئے تنظیمی کسوٹی کی بجائے دھن دولت کے بل بوتے پر خود رو طریقے اور براہ راست پارٹی کے کلیدی عہدوں سمیت حکومت کے وزیر اور مشیر بن جاتے ہیں۔اس امر پر مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو مناسب لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نفرت کا کاروبار ہی کرتے رہیں گے ۔ہم محبت نہیں کرسکتے کیا۔ہم محبت کر سکتے ہیں بشرط کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی راہنما اس کا آغاز کریں ۔سیاسی جماعتوں کا نظم کس قسم کا مرتب کیا جائے کہ نفرت کے خیالات اور سوچ اس نظم سے خود بخود باہر ہوجائے اور صرف سیاسی خیالات،سیاسی نظریات ،برداشت،دلیل ،منطق،ہم آہنگی،انسانی اخلاقیات ،امن و آشتی جیسے پاکیزہ آدرش ہی کی آبیاری ہو سکے ۔
 

Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 103675 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More