فاتح ِ کون جنگی جنون یا امن کی خواہش !

فیصلے صحیح ہوتے ہیں یاصحیح نہیں ہوتے،وزیراعظم عمران خان کے فیصلہ پر اہل ِرائے کی اکثریت متفق نظرآئی،پھربھی ایک خاص طبقہ اگر مگر کاسہارلے کر حمایت اورمخالفت کا ملاجلاتائثر دینے کی کوشش میں برسرِپیکاردکھائی دے رہا ہے، حکومت کا اچھااقدام مگر ، عمران خان نے کشیدگی کم کرنے کے لئے ِدانشمندانہ اقدام کیا مگر،مجموعی طورپربہترین فیصلہ تھا مگراتنی جلدی کیاتھی،فیصلہ صحیح ہے مگروقت صحیح نہیں۔درست اقدام مگرامن کی خواہش کا یکطرفہ اظہاراوراس پراصرارصحیح نہیں۔

جوش،جذبہ مگرتدبیراورحکمت کے بغیرسب حماقت اورناکامی کاموجب۔ذمہ دارانہ فیصلہ کرناآسان نہیں وہ بھی دباؤ کی حالت میں اورپھر ہمارے معاشرے میں جس کی رائے دودھاری تلوار حضرت یوں بھی چلے اوریوں بھی، حوالہ جات وہی بس پسند نا پسند کے پس منظرمیں حق اورمخالفت میں رائے سازی کاہنرہمارے سوا شاید ہی دُنیامیں کہیں اورپایا جاتاہو۔ایک دن ہم جس ایشوکی مخالفت میں جودلائل دے رہے ہوتے ہیں،دوسرے دن وہی دلائل اُس ایشوکے حق میں دیتے نظرآتے ہیں۔آج ہم جس فیصلہ کی مخالفت کررہے ہیں، اس میں تاخیر کے نتیجہ میں خدانخوستہ کچھ خلاف توقع ہوجاتاتوبھی اس کی وجہ سے پیداہونے حالات پرایسا تبصرہ کرتے کہ اگرضدکی بجائے بروقت فیصلہ کیا جاتاتوان حالات سے ملک وقوم کوبچایا جاسکتاتھا،اس کی پوری ذمہ داری فیصلہ سازقیادت پرڈالنے میں تاخیرنہ کرتے۔ زبان اورقلم وقت آنے پر جدھر دل چاہے،جدھرمرضی آئے موڑلئے جاتے ہیں۔

پچھلے دوہفتوں کے دوران واقعات میں پاکستان نے جنگ سے بچنے اورامن کی بھرپورکوشش کی،جس کا اعتراف پوری دینا میں کیا جارہا ہے ۔ پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کوقابل ستائش قراردیا جارہاہے۔عمران خان ایک سمجھدار راہنماء کے طورپرسامنے آئے ،انہیں امن کی سوچ رکھنے والے لیڈرکے طورپرعالمی میڈیامیں پذیرائی ملی۔ جب کہ ہندوستان میں پاکستان کے خلاف لڑائی کے معاملے پر اختلاف اور تقسیم ، ہندوستانی حکومت،ہندوستانی فوج اورمیڈیاکے جھوٹ دنیاکے سامنے آئے رہے ہیں،یہ سب پاکستان کی مدبرانہ اورامن کی خواہش کانتیجہ ہی تو ہے۔

قوم کاجوش وجذبہ،ہرمحاذپردُشمن کی ذلت ورسوائی،افواج پاکستان کی واضح برتری اورملکی سطح کی سیاسی قیادت کی جانب سے حکومت ،عسکری قیادت کی مکمل حمایت اوراپنی افواج پربھرپوراعتماد کے باوجودجوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی انتہاکسی بھی وقت خطرناک رخ اختیارکر سکتی تھی،جوبالآخرنہ صرف ان دوممالک بلکہ پورے خطہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان کاذریعہ بنتی۔ ان اعصاب شکن، کڑے اورنازک حالات میں ایسافیصلہ کرناجس سے مزیدخرابی سے بچنے کی راہ نکلنے کے امکانات ہوں،صرف امن کی خاطربغیرکسی شرط کے پکڑے گئے پائلٹ کی واپسی بے شک بہت بڑااقدام تھا۔جسے دُنیابھرمیں خوب سراہاگیااورپاکستان کوپورے عالم میں برتری حاصل ہوئی اورذلت و رسوائی ایک بار پھر سے پاکستان کے بدخواہ اورازلی دُشمن کامقدرٹھہری۔ بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ جب کسی ملک و قوم کی بہتری چاہتا ہے تووہ بدترین دُشمن کی تمام تر طاقت وصلاحیت اورسازشی چالوں کے باوجود تمہاری کامیابی پرقدرت رکھتاہے۔

اس سے پہلے عالمی سطح پر بھی کشمیریوں سے روارکھاجانے والاغیرانسانی سلوک اوران پرڈھائے جانے والے مظالم کے باب میں مسلسل بے حسی اور مسئلہ کشمیرکو اہمیت نہیں دی جا رہی تھی۔ مگرہندوستانی جارحیت کے بروقت جواب سے وقتی طورپرجوکشیدگی میں اضافہ ہوا ،اس سے دوجوہری طاقتوں کے درمیان سلگتا مسئلہ کشمیرہے ،یہ احساس اقوام عالم میں جاگ اُٹھا ہے اوراب دُنیا کی طرف سے کشمیریوں کے حق میں دلائل اورقردادیں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ کشمیرمیں نہتے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے بے پناہ مظالم اورہرروزبڑھتے ہوئے انسانیت سوز واقعات پربھارت دُنیا کے سامنے بے نقاب ہورہاہے۔

پلوامہ واقعہ کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے پرامن رہنے کی خواہش کو کمزوری سمجھتے ہوئے ،جنگ مسلط کرنے کی دھمکیوں، فضائی حدود کی خلاف ورزی کے جواب میں افواج پاکستان نے کامیاب کارروائی کرکے بھارت کوجہاں یہ پیغام دیا،کہ ہم کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ منہ توڑجواب کے لئے مستعد اورتیار ہیں۔وہیں دُنیامسئلہ کشمیرکے متعلق اب مختلف زوایہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی ہے۔

موجودہ حالات میں مذہبی وسیاسی جماعتوں کا آپس کی تمام رنجشیں اوراختلاف بھلا کردفاع وطن کے لئے متحدہوناکسی نعمت سے کم نہیں۔ جہاں وزیراعظم پاکستان عمران خان داد وتحسین کے مستحق ہیں وہیں پاکستان کی تمام قومی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے راہنماء جنہوں نے جنگی جنون کے بجائے اپنے ملک و قوم کی خیرخواہی سمیت پورے خطہ کے امن و سلامتی اور ترقی کی خواہش کوہرچیزسے مقدم سمجھاقابل ِتعریف ہے۔جواس بات کا ثبوت ہے،کہ پاکستان میں قومی سطح کے سیاستدان جارحیت اور انتہاپسندی، جنگ کے ذریعہ تباہی وبربادی کے برے نتائج سے آگاہ ہیں۔ہماری متفقہ قومی رائے ہے کہ جنگی جنون کوہوادینے کے بجائے خطہ کی بہتری اسی بات میں ہے کہ ہرممکن حدتک جنگ سے اجتناب کیاجائے اورایسے حالات پیداہی نہ ہونے دیئے جائیں جوخطہ کوناقابل تلافی نقصان کی طرف لے جائیں،لیکن اگردُشمن کی طرف سے دوبارہ جارحیت کی گئی توپھراس صورت میں کسی قسم کے خوف کے بغیر منہ توڑجواب دیاجائے گا۔

اس ضمن میں پاکستان کے الیکڑانک و پرنٹ اورسوشل میڈیاکا کرداربھی سراہے جانے کے قابل ہے کہ اس نازک وقت میں جذبات کی رو میں بہنے اوربہکنے کی بجائے ہوشمندی کے ساتھ اول ترجیح امن رہی اورامن میں ہی سلامتی اورترقی کے پیغام کے ذریعہ عوام کی ذہنی تربیت اورمثبت رائے سازی میں اہم کرداراداکیا۔ جس سے پاکستان کاتشخص جودُشمن کے مسلسل پروپیگنڈہ اورہماری کچھ سطحی غلطیوں کے سبب دہشت گرداورانتہاپسندمعاشرہ کے طورپربن چکا تھا،اس میں بہتری کے لئے مددگارثابت ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان موجودہ حالات کے دوران جنگی جنون کی بجائے، فتح امن کی خواہش ہی کی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے مدبرانہ فیصلہ کے بعدانہیں امن پسند راہنما جبکہ مودی کوشرپسند،تنگ نظراورامن کادُشمن کے طورپردیکھاجارہاہے۔لہذٰاآخری اورابدی فتح بھی ان شاء اﷲ امن اورامن کی خواہش رکھنے والوں کی ہوگی۔
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92468 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.