رسول مکرم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی قانون سازی کی امتیازی خصوصیات

رسول کریم ﷺ شبھات کی بناء پر حدود کو ہٹا دیتے تھے۔ گویا آپﷺ مجرم کے لئے سزا سے بچنے کی کوئی صورت دیکھتے تو حدود کو ساقط فرمادیتے اور جہاں تک ممکن ہو سکے مجرم کی پردہ پوشی فرماتے آپ ﷺکا ارشاد مبارک ہے۔
ادرؤا الحد ود عن المسلمین ما استطعتم(۱)
شبھات کی وجہ سے حدود کو ہٹا دو اور اگر اس (ملزم) کے لئے بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہو تو اس کا راستہ چھوڑو۔ حاکم معاف کرنے میں غلطی کرے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرے۔
رسول کریم ﷺ لوگوں کے عیب تلاش کرنے ان کے چھپے عیبوں کو گرہ لگانے اور ان کی پردہ دری کرنے سے منع کرتے تھے۔ جو جرائم پوشیدہ ہوں ان پر حد نافذ کرنے، ان کو ثابت کرنے کے طریقے تلاش کرنے اور ان کی تشہیر کا دروازہ کھولنے میں جو ضرور ہے اور اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو حد نافذ کرنے میں ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد مبارک ہے:
عن ابن عمر ؓ قال صَعِدَ رسول اللّٰہ ﷺ المنبر فنادیٰ بِصَوتٍ رَفِیع یا معشر مَن أسلَمَ بِلِسانہ ولم یُفضِ الایمان الی قلبہ لا تُؤذو المسلمین ولا تُعَیِّرُوہُم ولا تَتِّبِعُوا عَوراتِہِم فانّہ من تَتَبَّعَ عَورَۃَ أخِیہِ المسلم تَتَبَّعَ اللّٰہُ عَورَتَہُ وَمَن تَتَبَّعَ اللّٰہُ عَورَتَہُ یَفضَحہ ولو في جَوفِ رَحلِہ(۲)
مسلمانوں کے پوشیدہ عیوب کی جستجو اور ٹوہ میں مت رہو۔ جو کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی کے پوشیدہ عیب کی ٹوہ میں لگتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے عیوب کی ٹوہ میں لگتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کو رسوا کر دے گا اگرچہ اس نے گھر کے بیچ میں کوئی گناہ کیا ہو۔
رسول اﷲ ﷺ دینی امور و احکام میں سے جو آسان تر ہو اسے ہی اختیار کرتے تھے۔ صحابہ کرام کو بھی مشکل میں ڈالنے سے گریز کرتے تھے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیَجعَلَ عَلَیکُم مِن حَرَجٍ(۳)
’’اﷲ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا‘‘۔
لہذا رسول کریم ﷺجو رحمۃ للعالمین کے لقب سے متصف تھے۔ لوگوں سے پرانے رسم و رواج کے طوق اتارنے والے تھے۔ اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والے تھے۔ اور ان کے لئے نرم خو تھے۔ حضرت عائشہ ؒ سے روایت ہے:
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا أنّہاقالت:ماخُیِّرَ رسولُ اللّٰہ ﷺ بَینَ الأمرَینِ الّا َ أخَذأیسَرَہُما ما لم یکن اثماً فان کانَ اثماً کان أبعَدَ النَّاسِ مِنہُ وماانتقَمَ رسول اللّٰہِ ﷺ لِنَفسِہ الَّا أن تُنتَہَکَ حُرمَۃُ اللّٰہِ فیَنتَقِمُ لِلّٰہِ بِہا(۴)
’’جب بھی رسول اﷲ ﷺ کو دو کاموں میں اختیار کرنا ہو تا تو آپ ﷺان دو میں سے جو آسان کام ہوتا اسے اختیار کرلیتے جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو‘‘۔
رسول کریمﷺ کسی بھی حکم کے لئے تدریج کا اصول پیش نظر رکھتے تھے۔ طبیعتوں کے میلان پر آپ ﷺکی نگاہ ہوتی تھی اور احوال و ظروف کی مناسبت کا خیال بھی رکھتے تھے۔ جیسا کہ ربیع بن سبرۃ الجہنی کی حدیث ہے وہ اپنے باپ سبرۃ سے بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نبی ﷺ کے ساتھ فتح مکہ والے سال مکہ کی طرف نکلے اور وہاں پندرہ دن قیام کیا۔ صحابہ کرام نے کہا اے اﷲ کے رسول تجرد کی زندگی ہمارے لئے مشکل ہو گئی ہے تو رسول ﷺ نے ہمیں متعہ کی اجازت دے دی (اور فرمایا) ان عورتوں کے ساتھ متعہ کر سکتے ہو۔ ہم عورتوں کے ساتھ چلے گئے تو انہوں نے ہمارے ساتھ نکاح کرنے سے انکار کر دیا سوائے اس صورت کے کہ ہم ان کے اور اپنے درمیان کوئی مدت مقرر کر لیں صحابہ کرام نے یہ معاملہ نبی کریمﷺ کے گوش گزار کیا۔ پھر اس کے تین دن بعد ہی نبی کریم ﷺ نے متعہ کو حرام قرار دے دیا اور فرمایا:
عن الرّبیع بن سبرۃ أنَّ أباہ غَزَا مع رسول اللّٰہِ ﷺ فتح مکۃ قال:(( فأقمنا بہا خمس عشرۃ ثلاثین بین لیلۃٍ ویَومٍ فأذنَ لَنَا رسول اللّٰہ ﷺ في متعۃ النساء فخرجتُ أنا ورجل’‘ مِن قَومی ولی علیہ فضل’‘ في الجمال وہو قریب’‘ من الدِّمامۃ مع کلِّ واحدٍ منّا برد’‘ فبردی خَلَق’‘ وأمّا بُردابنُ عَمِّی فبرد جَدِید’‘ غَضّ’‘ حتّی اذا کُنّا بأسفل مکّۃ أو بأعلاہا فتلَقَّینَا فَتَاۃ’‘ مِثلَ البکرۃ العنطنطنۃِ فقلنا ہل لکَ أن یستمتع منک أحدنا قالت وماذا تَبذُلانِ فَنَشَرَ کلّ واحدٍ منّابردہ فجعلت تنظر الی الرّجلین ویراہا صاحبی تنظر الی عطفہا فقال انَّ بُرد ہذا خلق’‘ وبُردی جَدِید’‘ غَضّ’‘فتقول برد ہذا لا بأس’‘ بہ ثلاث مرارٍ أو مرَّتین ثُمَّ استمتعتُ منہا فلم أخرج حتّی حرّمہا رسول اللّٰہ ﷺ(۵)
’’لوگو !میں نے تمہیں عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ آگاہ رہو اب اﷲ تعالیٰ نے اسے حرام کر دیا ہے۔ اور یہ حرمت تمہارے آج کے دن سے لے کر قیامت تک کے لئے ہے۔ اس لئے اب جس کے پاس ایسی کوئی عورت ہے وہ اس کا راستہ چھوڑ دے۔ اسی طرح قرآن مجید میں شراب اور جوئے کے احکامات تدریجاً نازل ہوئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں تدریج کا پہلو بھی ہے اور حالات اور لوگوں کی طبیعتوں کو بھی پیش نظر ررکھاجاتا ہے‘‘۔
سنت کی آئینی حیثیت اور تعامل خلفاء راشدین
خلافت راشدہ کا تعامل بھی سنت کی آئینی حیثیت کو واضح کرتا ہے ۔دارمیؒ نے میمون بن مہران کے واسطہ سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کاطرز عمل ان الفاظ مین نقل کیا ہے :
اذاورد الخصم في کتاب اللّٰہ فان وجد فیہ ما یقضیٰ بہ بینہم فقضیٰ بینہم وان لم یکن في الکتاب وعلم من رسول ﷺ في ذلک الأمر سنۃ فقضیٰ بہا فان اعیاہ خرج فسأل المسلمین وقال أتانی کذا وکذا فہل علمتم ان رسول اللّٰہ ﷺ قضیٰ في ذلک بقضاء فربما اجتمع علیہ الخیر کلہم یذکر عن رسول اللّٰہ ﷺ فیہ قضاء فیقول أبوبکر الحمد للّٰہ الذی جعل فینا من یحفظ علینا دیننا(۶)
’’جب ان کے سامنے کوئی اختلافی مسئلہ آتا تو اس کا فیصلہ کرنے کیلئے سب سے پہلے کتابُ اﷲ میں غور کرتے اگر کتاب اﷲ میں حکم مل جاتا تو اسی کے مطابق فریقین کے درمیان فیصلہ کرتے اگر کتابُ اﷲ میں اس کا کوئی حکم نہیں ملتا اور سنت نبوی ﷺ میں مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے ۔اگر کتاب وسنت دونوں میں اس کا حکم نہ ملتا تو ادھر ادھر جاکر مسلمانوں سے دریافت کرتے کہ اگر کسی کو اس طرح کے معاملہ میں نبی ﷺ کے کسی فیصلہ کا علم ہو تو بتائے چنانچہ بسااوقات متعدد آدمی آکر اس بارے میں سنت نبوی ﷺ کی اطلاع دیتے تو آپ یہ فیصلہ پاکر فرماتے تھے کہ خداکا شکر ہے کہ اس نے ہم میں ایسے آدمی پیدا کر دئیے ہیں جو ہمارے لئے ہمارے دین کو محفوظ کئے ہوئے ہیں ‘‘۔
حضرت صدیق اکبر ؓ کی خدمت میں ایک عورت آئی جو اپنے پوتے کے ترکہ سے حصہ چاہتی تھی آپ ؓ نے اس سے کہا کہ کتاب اﷲ میں تیری وراثت کا ذکر نہیں ہے نہ میرے علم میں نبی ﷺ کا کوئی اسوہ ہے جس سے پتہ چلے کہ آپﷺنے دادی کو پوتے کے ترکہ سے حصہ دیا ہو تم اس وقت جاؤ میں دوسرے اصحاب نبی ﷺ سے دریافت کروں گا ۔ چنانچہ آپ ؓنے پوتے کے ترکہ سے دادی کو ۴؍۱میراث دی تھی ۔حضرت صدیق اکبرؓ نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ کسی اورشخص کو بھی اس کا علم ہے محمد بن مسلمہ انصاریؓ نے مغیرۃ بن شعبہؓ کی تائید کی تو حضرت صدیق ؓ نے اس سنت نبوی ﷺ کے مطابق اس عورت کو میراث دلوائی ۔
حضرت أبوبکر صدیقؓ کا دور خلافت نہ صرف تاریخی لحاظ سے زمانہ رسالت کے قریب تھا بلکہ بعینہ دور رسالت ﷺکامکمل نقشہ اور نمونہ تھا اس لئے اسلامی ریاست میں قانون سازی سے متعلق یہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے یہی اسلامی تصور قانون سازی ہے کہ اولین طور پر کتاب الٰہی کی طرف رجوع کیا جائے ۔اس کی ایک روشن مثال حضرت عمرؓ کے اس مبارک کارنامہ سے ملتی ہے جو آپ ؓ نے قاضی شریح کو لکھا تھا اس میں پہلی بات یہ تھی :
اذا حضرک أمر’‘ لابدّّ منہ فانظر ما في کتاب اللّٰہ فاقض بہ فان لم یکن فبما قضی بہ الرّسول ﷺفان لم یکن فبما قضی بہ الصالحون وأئمۃ العدل فان لم یکن فاجتہد برأیک(۷)
’’جب تمہارے سامنے کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس میں رائے دینا ضروری ہوتوسب سے پہلے کتاب اﷲ میں اس کا حکم تلاش کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرو ۔کتاب اﷲ میں کوئی حکم نہ ملے تو پھر سنت نبوی ﷺکے مطابق فیصلہ کرو اگر سنت نبوی ﷺ بھی خاموش ہو تو صلحاء اور ائمۃ عدل نے اس طرح کے معاملہ میں جو فیصلہ کیا ہو اس کو سامنے رکھو اگر یہ بھی نہ ہو پھر غور وفکر کرکے اجتہاد کرو ‘‘۔
اس سے زیادہ مفصل ہدایت حضرت عمرؓ ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو روانہ فرمائی تھیں جو اس وقت عراق کے امیر تھے یہ ہدایت نامہ اتنا جامع ہے کہ اس سے فقہاء نے سینکڑوں احکام کا استنباط کیا ہے اس کا پورا متن ماخذ شریعت کے سلسلہ میں ہم اوپر نقل کرآئے ہیں ۔ایک بار کچھ لوگ حدیث نبوی ﷺکاتذکرہ کررہے تھے کہ ایک شخص نے کہا کہ یہ تذکرہ چھوڑو کتاب اﷲ کا ذکر کرو ۔حضرت عمر ؓ نے سنا تو بہت برہم ہو گئے اور فرمایا کہ احمق حدیث نبوی ﷺ تو قرآن مجید کی تفسیر ہے۔
اس کو چھوڑنے کا کیاجواز ہے:
ان القرآن أحکم والسنۃ تفسرہ
’’قرآن اصول دیتا ہے اور سنت نبوی ﷺ اس کی تفسیرکرتی ہے ‘‘۔
حضرت عمر ؓ نے ایک بار فرمایا کہ اگر میں اپنی رائے کے مقابلہ میں نبی کریم ﷺ کی رائے کو رد کر سکتا تو صلح حدیبیہ کے دن رد کردیتا جب ایک طرف کفار مکہ کی قیدسے گردن چھڑاکر أبوجندل نے پابہ زنجیر رسول ﷺ کی خدمت میں آکر پناہ کی درخواست کی مگر کفار مکہ نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا اور آپ ﷺ انہیں واپس کررہے تھے۔ دوسری طرف کفار مکہ کا مطالبہ یہ تھا کہ معاہدہ کے سرنامہ پرمیں اس سے متفق نہیں تھا مگر آپﷺ نے جب یہ فرمایا کہ جب میں راضی ہوں تو تم کو اس کی مخالفت نہ کرنی چاہیے تو پھر میں نے آپ ﷺ کے ارشاد کے سامنے گردن نیاز جھکا دی ۔
حضرت عمر ؓ نے ایک دیت کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ دیت مقتول کے قریبی ورثاء کو ملے گی بیوی کو اس میں سے حصہ نہیں ملے گا لیکن جب ایک صحابی ضحاک بن سفیان کلابی نے آپؓ کو مطلع کیا کہ نبی کریم ﷺ نے الشیم ضیابی کی عورت کو شوہر کی دیت سے حصہ دیا تھا تو آپ ؓ نے فوراً رجوع کرلیا ۔
اسی طرح ایک مرتبہ جنین کے ضائع کرنے کا مسئلہ آیا آپؓ نے لوگوں سے اس کے بارے میں سنت نبوی ﷺ دریافت کی ایک صحابی مالک بن نابغہ نے اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا کہ میری دو بیویاں تھیں جن میں ایک سے ایک حاملہ تھیں دوسری بیوی نے کسی بات پر حاملہ بیوی کو ایک چھڑی ماری جس سے جنین ضائع ہو گیا جب یہ معاملہ خدمت نبوی ﷺ میں گیاتو آپﷺ نے دوسری بیوی سے اس کا تاوان دلایا حضرت عمر ؓ نے جب یہ فیصلہ سنا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ :
ان کدنا نقضی فیہ برأینا
’’اگر ہم یہ فیصلہ نہ سنتے تو قریب تھا کہ اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالتے ‘‘۔
بخاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابتدائے خلافت میں مجوسیوں پر جزیہ عائد نہیں کیا تھا لیکن جب ان کو علم ہوا کہ رسول ﷺنے ہجر کے مجوسیوں پر جزیہ لگایا تھا تو اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور جزیہ عائد کر دیا ۔
اسی طرح غسل جنابت ‘تکبیر جنازہ اور استلام حجراسودوغیرہ میں اپنی رائے کے مقابلہ میں سنت نبوی ﷺ کو ترجیح دی جو لوگ کتاب وسنت سے بے پرواہ ہو کر محض اپنے اجتہاد اور قیاس سے دینی مسائل میں رائے دیتے ہیں ان کے بارے میں ارشاد ہے :
أصحاب الرائے أعداد السنن واعیتہم الأحادیث أن یحفظوہا وقفلت منہم أن یعوہا واستحیو حین سُئلوا أن یقولوالانعلم فعارضوا السنن برأیہم فایاکم وایاہم
’’اپنی رائے پر عمل کرنے والے سنتوں کے دشمن ہیں اوراحادیث نبوی ﷺ کی حفاظت سے بھی عاجز رہے اور وہ ان کے احاطہ علم میں بھی نہ آسکیں تو جب ان سے کوئی سوال کیا جاتا تو ان کو شرم محسوس ہوتی کہ یہ کیسے کہیں کہ ہم کو اس کا علم نہیں ۔اس لئے سنت کے بارے میں اپنی رائے سے اٹکل پچو بات کہہ دی تو تم اس بات سے بچو اور ان کو اس سے بچنا چاہیے ‘‘۔
غور کیجئے کہ جس نے زندگی بھر خود ہر معاملہ میں کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ کی پیروی کی ہو اور انکے مقابلہ میں اپنی سینکڑوں راویوں اور اجتہاد کو بدل دیاہو اور پوری امت کو اس صراط مستقیم پر چلانے کی کوشش کی ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کتنی بڑی جسارت ہے کہ اس کے بعض فیصلے کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ کے خلاف ہیں ۔حضرت فاروق اعظم ؓ نے جن معاملات میں کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ کے مقابلہ میں اپنے فیصلے بدلے ہیں وہ محض عقائد و عبادات ہی سے متعلق نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر سیاست ومعیشت اور معاشرت سے متعلق ہیں جن کے بارے میں جدیدمجتہدین کا ارشاد ہے کہ زندگی کے یہ شعبے تو خالص دنیاوی یا غیر تعبدی ہیں اس لئے ان میں ہمیں کتاب وسنت کی پیروی ضروری نہیں ہے ان میں کتاب وسنت کی ہدایات حکم کا درجہ نہیں بلکہ محض مشورہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔بعض اجتہادی مسائل میں بعض صحابہ کرام ؓ حضرت عثمانؓ سے اختلاف رکھتے تھے مگروہ چونکہ کتاب وسنت کے موافق سمجھتے تھے اس لئے ان پر آخر وقت تک عمل کرتے رہے ۔حضرت عثمانؓ اس شخص کو سزا دیتے تھے جوعدت کی حالت میں کسی عورت سے نکاح کر لیتا تھا وہ فرماتے تھے کہ جب قرآن میں عدت کی حالت میں نکاح کی ممانعت آئی ہے تو پھر اس کی مخالفت کرنے والے کو سزا دی جانی چاہیے ۔حضرت عثمان ؓ کی نگاہ اس پہلو پر تھی کہ اگر کتاب وسنت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزانہ دی جائے تو پھر اس کے تمام احکامات تمسخر بن کر رہ جائیں گے اگر قرآن کا یہ حکم محض مشورہ کی حیثیت رکھتا ہو تو حضرت عثمانؓ کبھی اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا نہ دیتے ۔
ایک بار حج کے موقع پر کسی نے رکن یمانی کوبوسہ دیا حضرت عثمان ؓ نے دیکھا تو فرمایا کہ تم نے نبی کریم ﷺ کو اس کا بوسہ دیتے دیکھا ہے بولا نہیں فرمایا پھر آپ ہی کی اقتداء کرو ۔کتاب وسنت کے بارے میں حضرت علیؓ کی شدت ضرب المثل ہے ان کا مشہور مقولہ ہے کہ :
لوکان الدین بالرّأی لکان باطن القدمین أحق بالمسح من ظاہر ہما وقد مسح النبی ﷺ علی ظاہر خفیہ ‘‘ـ
’’اگر دین کا دارومدار محض رائے و قیاس پر ہوتا تو پیر کے اوپر والے حصے کی بجائے نیچے کا حصہ مسح کیلئے ضروری ہوتا کیونکہ گردوغبار اور گندگی زیادہ تر نچلے حصے میں لگتی ہے مگر چونکہ نبی اکرم ﷺ نے موزہ کے اوپر کے حصہ پر مسح کیا ہے اس لئے اوپر ہی کرنا ضروری ہے ‘‘۔
فرماتے تھے کہ اگر کسی حدیث نبوی ﷺ کے الفاظ سے متعدد معنی نکلتے ہوں تو اسی پہلو کو اختیار کیا جائے جو ہدایت اور تقویٰ کے قریب ہو ۔
حجیت سنت کی عقلی دلیل
تمام پیغمبر ایک ہی دین لے کر آتے رہے اس دین کا نام اسلام ہے وہ دین جب دین محمد ﷺ کے روپ میں ظاہر ہوا تو کمال تک پہنچ گیا گویا ہر وحی جو رسول ﷺ پر نازل ہوئی آخر کار قرآن کی صورت میں اتمام سے ہمکنار ہوئی تمام رسولوں کی سیرتیں ‘سیرت محمدﷺکے جلوے میں پروان چڑھیں اور یوں انہوں نے معراج ومنتہا کو پا لیا اب تا قیامت دینِ محمد ﷺ یعنی اسلام کامل بنوآدم کا ضابطہ حیات رہے گا اس ضابطۂ حیات کا مصدر آخری لفظی وحی یعنی قرآن ہے اور آخری عملی معیار نبی اکرم ﷺکی سیرت ہے ۔حیات ایک مسلسل حقیقت ہے اس تسلسل میں کہیں انقطاع نہیں حضرت علامہ اقبال کے نزدیک پوری کائنات ایک وجود نامی orginismہے جب سے یہاں آدمؑ کا ظہور عمل میں آیا ہے سیرت آدمؑ کا تکمیلی سفر محمد ﷺ کے رخ رہا اور تا قیامت سیرت آدمؑ کا یہ سفر جاری رہے گا اس لئے کہ تکمیل سیرت آدم کا نقطہ آخرین حضور ﷺ ہی کی ذات مقدسی صفات ہے آپ ﷺ ہی کا اسوہ حسنہ ہے اور اسی اسوے کو اپناکر بنو آدم اپنی ذات کی تکمیل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔مجیب اﷲ ندوی نے لکھا ہے:
’’آنحضور ﷺ کی بیان کردہ قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر کے مقابلہ میں امت کے کسی فرد کی تشریح کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی ۔چنانچہ امت کے افراد کو یہ حکم دیا گیا کہ :
ومااٰتاکُم الرَّسُولُ فخُذُوہ ومانہاکُم عنہ فانتہوا(۸)
’’رسول کریم ﷺ جو تمہیں حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس سے روکیں ان سے رک جاؤ‘‘۔
کتاب اﷲ کی منشاء کے سلسلہ میں آپ نے جو قولی یا عملی تفسیر و توضیح کی ہے یا اس کی روشنی میں جو فیصلے کئے ہیں امت کو اپنے اجتماعی معاملات میں ان کو بھی ماخذ ومنبع قرار دینا ضروری ہے اگر اہل ایمان نے اجتماعی معاملات میں ان کو ماخذ ومنبع نہ بنایا تو یہ بات ان کے ایکمان کے منافی ہو گی ۔
فلاوَرَبِّکَ لا یُؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثمَّ لا یَجِدُوا في أنفسہم حرجاً مِمّا قضیت ویسلموا تسلیماً(۹)
’’تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے فیصلوں میں تمہیں حکم نہ مان لیں اور آپ ﷺ جو فیصلہ کردیں اس کے بارے میں ااپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں ‘‘۔
قرآن مجید کی انہی آیات کی تشریحات کی روشنی میں امت مسلمہ نے کتاب اﷲ کے بعد سنت رسول ﷺ کو بھی ماخذ ومنبع احکام قرار دیا ہے ۔
ڈاکٹر حمیداﷲ صاحب لکھتے ہیں :
’’اگر پیغمبر کی زندگی میں پیغمبر سے ہی ہم کوئی حکم سنیں تو اس کا درجہ قرآن مجید کے بالکل برابر ہو گا مثلاً اگر عہدنبوی ﷺ میں رسول اﷲ ﷺ سے کوئی شخص یہ کہتا کہ یہ قرآن ہے اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے میں اس کی تعمیل کرتا ہوں اور یہ آپ کا انسانی حکم ہے میں اس کی تعمیل نہیں کرتا ظاہر ہے ایسے شخص کو فوراً ہی ملت سے خارج کر دیا جاتا‘‘(۱۰)
یہ امر بھی لائق ذکر ہے کہ مسلمانوں نے صرف احادیث کی تدوین کو ہی یقینی نہیں بنایا بلکہ موضوع ضعیف اور غلط احادیث کی پہچان اصول اور طریقے بھی وضع کئے ہیں اس کے متعلق ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
’’حدیثوں کی صحت معلوم کرنے کیلئے بہت سے وسائل ہیں ہمارے اسلاف نے بہت سے اصول مدون ومرتب کرکے ہمیں حدیثوں کے جانچنے کا معیار دیا ہے کہ کون سی حدیث قابل اعتماد ہے اگر دو حدیثوں میں اختلاف ہے تو کس کو ترجیح دی جائے گی واضح رہے کہ میرایہ منشاء ہرگز نہیں کہ حدیثوں پر اعتماد نہ کیا جائے کیونکہ صحاح ستہ جیسی حدیث کی کتابوں کے متعلق ہمیں یہ اطمینان ہے کہ ان کی تدوین انسانی حد تک صحت کے تمام اصولوں ااور شرائط کے مطابق ہیں لہذا حدیث کی کم ترین درجے کی کتاب کو بھی میں پورے اعتماد کے ساتھ دوسری قوموں کی مستند ترین کتب پر ترجیح دوں گا مثال کے طور پر انجیل کو ہی لیجیے جو آج کل چارانجیلوں کی شکل میں ہم تک پہنچی ہے اس کے متعلق خود عیسائی مورخ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے دنیا میں سے تشریف لے جانے کے تین سو سال بعد پہلی مرتبہ اس کا ذکر ملتا ہے (۱۱)
محدثین کرام عظام نے حفاظت حدیث اور تحقیق حدیث کیلئے جو بے مثال اور لافانی کاوش کی وہ اعجاز حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ حفاظت دین کا بھی ذریعہ ہے اسلامی قانون کا ماخذ احادیث مبارکہ ہیں اس لئے احادیث کا ضیاع دراصل قانون اسلامی کا ضیاع ہے ۔
رسولِ کریم ﷺ کیلئے قانون سازی کا اختیار
اﷲ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو وحی الٰہی کی روشنی میں قانون سازی کا اختیار دیا ہے ․سورۃ اعراف میں ارشاد خداوندی ہے:
یأمرہم بالمعروف ویَنہٰہم عن المنکر ویُحِلُّ لَہُم الطّیِّبٰت ویُحَرِّمُ علَیہم الخبٰئث ویَضَعُ عنہُم اصرَہَم والأغلال الَّتی کانَت علیہم(۱۲)
’’وہ نبی کریم ﷺ ان کو نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے منع کرتے ہیں اور ان پر پاک چیزیں حلال ٹھہراتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جوبوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں‘‘۔
یہ آیت مبارکہ بھی اس امر کی وضاحت کیلئے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ ﷺ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معتبر ہے جس کی تفصیلات محمد رسول ﷺ نے بیان فرمائی ہیں اور آپ ﷺ کی ذات با برکات ایک نبی ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قانون ساز اور شارع بھی ہے اس امر کی مزیدوضاحت کیلئے سورۃ نحل میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وأَنزَلنا الیکَ الذِّکرَ لِتُبَیّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ الیہِم (۱۳)
’’اور ہم نے آپ ﷺ کیطرف ذکر اتارا ہے تاکہ آپ اس چیز کو کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف نازل ہوئی ہے‘‘۔
اس کے بارے میں آپ ﷺسے ارشاد بھی منقول ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قال عُمر بن الخطاب سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقول ((ترکتُ فِیکُم أمرین لن تَضِلُّوا ما تمسکتم بہما کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیِّہ(۱۴)
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے جب تک ان دونوں چیزوں کو تھامے رکھو گے وہ اﷲ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی سنت ہے ‘‘۔
ائمہ محدثین ان دلائل وبراہین کی بنیاد پر سنت رسول ﷺ کو قرآن کریم کے بعد قانون سازی کیلئے دوسرا ماخذ تسلیم کرتے ہیں وہ کہتے ہیں نبی کریم ﷺ کی اتباع اورر اقتداء اور قرآن مجید پر عمل کے لحاظ سے أصحاب رسول ﷺ کی حالت تو یہ تھی کہ کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ ہی صحابہ کرام کے مراجع تھے اوور یہی دو چیزیں عہد رسالت میں قانون سازی کا ذریعہ تھیں۔قرآن کے بعد دوسرا ماخذ قانون سنت رسول ﷺ ہے کیونکہ قرآن مجید میں جہاں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے وہیں اﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
یٰأیہا الّذین اٰمَنُوا أطیعوااللّٰہ وأطیعواالرّسول وَلا تُبطِلُوا أعمَالکُم(۱۵)
’’اے ایمان والو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع مت کرو ‘‘۔
سورۃ نحل میں آپ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک شارح قرآن کی حیثیت دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد ہے :
وأنزلنا الیک الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ الیہِم(۱۶)
’’اور ہم نے تیری طرف قرآن مجید نازل کیا تاکہ تو لوگوں کیلئے کھول کر بیان کرے جو ان پر نازل کیا گیا ہے ‘‘۔
اسی طرح قرآن کریم آپ ﷺ کو ایک شارع یعنی قانون ساز کے طور پر پیش کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ :
ویُحِلُّ لَکُم الطَّیِّبٰتُ ویُحَرِّمُ عَلَیکُم الخبٰئثَ(۱۷)
’’یہ نبی ﷺ تمہارے لئے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں ‘‘۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ:
وَمَا اٰ تاکُم الرَّسُولُ فَخُذُوہُ ومَا نَہَاکُم عَنہُ فانتہوُا (۱۸)
’’جو کچھ تمہیں رسول ﷺ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ‘‘۔
بطور ایک قاضی کے قرآن مجید آپ ﷺ کی حیثیت بیان کرتا ہے:
انَّا أنزَلنَا الیکَ الکِتَابَ بِالحقّ لِتَحکُمَ بَینَ النَّاسِ بِما أراکَ اللّٰہُ (۱۹)
’’اے نبیﷺ ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ ﷺ لوگوں کے درمیان اﷲ کی دکھائی ہوئی روشنی میں فیصلہ کریں ‘‘۔
قرآن کریم میں رسول اکرم ﷺ کو بطور مربی کے اس طرح بیان کیا گیا ہے:
ویُعلِّمُہُم الکتَابَ َوالحِکمَۃَ ویُزَکِّیہِم(۲۰)
’’ان لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے ‘‘ ۔
قرآن مجید میں رسول اﷲ ﷺ کو بطور ایک راہنما اور پیشوا قرار دیا گیا ہے ارشاد ہے :
لَقَد کانَ لَکُم في رَسُولِ اللّٰہِ أسوۃ’‘ حسنۃ(۲۱)
’’بے شک تمہارے لئے نبی اکرم ﷺ کی زندگی مین ایک نمونہ موجود ہے ‘‘۔
حضور اقدس ﷺ کا سنت کے بارے میں ارشاد ہے کہ:
ترکتُ فیکُم أمرَینِ لَن تَضِلُواماتمسکتُم بہما کِتاب اللّٰہ وسنۃ نبیّہ(۲۲)
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہون جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے ایک کتاب اﷲ اور دوسری سنت رسول ﷺ‘‘۔
قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ سنت رسول ﷺ بھی قانون سازی کیلئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے جیساکہمولانا مودودیؒ ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
’’جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ آغاز اسلام سے آج تک بالاتفاق ہر زمانے میں اور تمام دنیا میں محمد ﷺ کو نمونہ واجب الاتباع اور ان کے امر ونہی کو واجب الاطاعت مانتے ہیں اور اسی بناء پر اسلام کے قانون نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے‘‘۔(۲۳)
مذکورہ بالا قرآنی دلائل سے یہ بات وٍاضح ہوتی ہے کہ رسول ﷺ کی حیثیت ایک شارع ‘معلم ‘ قاضی ایک شارح‘ایک حاکم اور قانون ساز کی ہے۔یہی حیثیت آپ ﷺ کو بالاجماع صحابہ کرامؓ کے دور سے لیکر آج تک حاصل رہی ہے جیسا کہ مولانا مودودی کہتے ہیں :
’’اور حضور ﷺ کے تمام مناصب ا س کتاب پاک کی رو سے منصب رسالت کے اجزائے لا ینفک ہیں ۔کلام الٰہی کی یہی تصریحات ہیں جن کی بناء پر صحابہ کرام کے دور سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں نے بالاتفاق یہ مانا ہے کہ مذکورہ بالا تمام حیثیات میں حضور اکرم ﷺ نے جو کام کیا ہے وہ قرآن کے بعد دوسرا ماخذ قانون ہے‘‘۔(۲۴)
رسول کریم ﷺ حیات انسانی کے ہر شعبہ میں قانو نی راہنمائی عطا کی جیسا کہ عبد الحئی الکتانی اپنی تالیف ’’التراتیب الاداریہ‘‘ میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
في أحکامہ ﷺ في النکاح والطلاق والخلع والرجعۃ والایلاء واللعان والحاق الولد وأحکامہ في الوصایا والفرائض(۲۵)
’’آپ ﷺ کے فرامین جو نکاح وطلاق ‘خلع ‘رجوع ‘ایلاء ‘لعان اور الحاق ولدیت کے بارے میں ہیں اور آپ ﷺ کے احکام جو وصیتون اور فرائض کے بارے میں ہیں ‘‘۔
اسی طرح عبدالحئی الکتانی نے دوسرے بہت سے معاملات کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اﷲ کے نبی ﷺ نے روشنی ڈالی ہے اور قوانین وضع کئے ہیں وہ کہتے ہیں:
أحکامہ علیہ السلام وأقضیتہ في الجنایات والقصاص والدّیات والجراحات وفي الکسب والمعاش وفي البیوع والمعاملات وفي الصید والذبائح وفي الأشربہ وما یحل منہا وما یحرم(۲۶)
’’آپ ﷺ کے احکامات اور فیصلے جو جرائم ‘قصاص ‘دیتوں ‘زخموں کے بارے میں ہیں اور اس کے علاوہ کسب ومعاش خرید وفروخت ‘معاملات کے بارے میں ہیں علاوہ ازیں شکار ‘ذبیحے ‘مشروبات کے بارے میں اور حلال اور حرام اشیاء کے بارے میں آپ ﷺ کے احکامات ہیں‘‘۔

حواشی
۱۔ أبو داؤد،کتاب الصلوٰۃ،حدیث :۱۱۴
۲۔ ترمذی،محمد بن عیسیٰ، ابو عیسیٰ ، امام، السنن الترمذی ،الکتاب البر والصلۃ ،الباب ماجاء في تعظیم المؤمن،
حدیث:۱۹۵۵
۳۔ المائدۃ:۶ ـ
۴۔ بخاری،محمد بن اسماعیل،امام، صحیح بخاری ،کتاب المناقب ،الباب صفۃ النبی ﷺ ،حدیث :۳۲۹۶
۵۔ صحیح مسلم ،حدیث :۲۵۱۳ ـ
۶۔ الدارمی ‘عبداﷲ بن عبدالرحمٰن ،سنن دارمی ،دارالمعارف ،مصر ،۱۹۹۱ء ،ص۳۹
۷۔ غالب،الدکتور ،اولیات الفاروق،دارالفکر، بیروت، (س۔ن)، ص۹۸
۸۔ الحشر:۷
۹۔ النساء:۶۵
۱۰۔ حمید اﷲ ،ڈاکٹر، خطبات بہاولپور ،طبع اسلامیہ یونیورسٹی ،بہاولپور،۱۹۹۷ء،ص۷۵
۱۱۔ ایضاً،ص۷۷
۱۲۔ الأعراف:۱۵۷ ـ
۱۳۔ النحل:۴۴
۱۴۔ مالک بن انس،امام، مؤطا امام مالک،باب النہی عن القول بالقدر،حدیث:۱۳۹۵
۱۵۔ محمد :۳۳
۱۶۔ النحل:۴۴
۱۷۔ الأعراف:۱۵۷
۱۸۔ الحشر:۷
۱۹۔ النساء:۱۰۵
۲۰۔ البقرۃ :۱۳۲
۲۱۔ الأحزاب:۲۱
۲۲۔ مؤطا امام مالک ،حدیث:۱۳۹۵
۲۳۔ مودودی،أبوالأعلیٰ، سنت کی آئینی حیثیت ،اداراہ ترجمان القرآن ، لاہور، (س۔ن)،ص۳۳
۲۴۔ سنت کی آئینی حیثیت،ص۸۵
۲۵۔ عبدالحی، الکتانی ،التراتیب الاداریہ مصر (س۔ن)،ص:۴۲
۲۶۔ ایضاً،ص:۴۳
 

Mirza Hafeez Aoj
About the Author: Mirza Hafeez Aoj Read More Articles by Mirza Hafeez Aoj: 6 Articles with 29157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.