جی نہیں یہ کسی پاگل مجنوں
دیوانے عاشق کی صدا نہیں ہے۔ جس کی محبوبہ اسے چھوڑ کر جا چکی ہو اور اسے
جیل میں رہنا پسند ہو، یہ کسی سنکی پروفیسر کا فلسفہ بھی نہیں ہے جو جیل کو
باہر کی دنیا پر فوقیت دیتا ہے۔ یہ کسی مظلوم شوہر کی داستان بھی نہیں جو
بیگم کے متشددانہ رویے سے تنگ آ کر گھر سے بھاگ جانا چاہتا ہے۔
یہ ایک ایسے ایشین باشندے کی صدا ہے جو آٹھ لاکھ ریال کا غبن کرنے کے جرم
میں سعودی عرب - ریاض کی جیل میں بجھوا دیا گیا۔ لیکن اپنی چند سال کی سزا
پوری کرنے پر جب جیل حکام نے اسے آزاد کیا اور جیل سے باہر بھیجنا چاہا تو
اس نے صدا لگائی۔ مجھے جیل سے باہر مت بھیجو، مجھے یہیں رہنے دو۔ کیا سعودی
عرب کی جیلیں اس قدر پرآسائش ہیں کہ جہاں اس قیدی کو اپنے گھر والوں کی یاد
بھی نہیں آتی ؟ جی نہیں ، بات یہ نہیں ہے۔جیل حکام کے دریافت کرنے پر اس نے
وجہ یہ بتائی کہ، جیل میں سزا کاٹنے کے دوران اس نے قیدیوں کی خدمت کرنی
شروع کر دی۔ اس نے قیدیوں کے گندے کپڑے دھونے، ان کے کیبن اور باتھ روم صاف
کرنے کا کام شروع کر دیا۔ جس پر جیل حکام نے اسے ماہوار 2000 ریال تنخواہ
دینی شروع کر دی۔ جب کہ رہائش اور کھانے پر اٹھنے والے اخراجات بھی نہ ہونے
کے برابر تھے۔اپنی سزا کے سال پورے کرنے پر اس کے پاس اس قدر رقم جمع ہو
گئی جو اس کے مطابق اسی عرصہ میں اگر وہ جیل کے باہر کماتا تو اس رقم کا
عشر عشیر بھی حاصل نہ کر پاتا۔ کیوں کہ اس کا کفیل اسے فقط 1200 ریال
ماہانہ تنخواہ دیتا تھا۔جس میں رہائش کے 2000 اور کھانے پینے کے 400 اوسطاً
اخراجات کرنے کے بعد اس کے پاس فقط 600 ریال کی بچت ہوتی۔ مزید برآں،
سالانہ لیبر پرمٹ کی تجدید پر کفیل کا ناجائز طور پر دو تین ہزار ریال کی
رقم کا مطالبہ، چھٹی پر جانے کے اخراجات اور ہوائی ٹکٹ کے اخراجات ملا کر
اس کی ماہانہ تنخواہ کی اوسط 400 ریال بھی نہیں رہتی۔
یہ خبر 14 فروری کے اردو نیوز اخبار میں شائع ہوئی۔ ظاہر ہے اس آدمی کے لیے
تو جیل ، باہر کی زندگی سے کئی گنا بہتر ثابت ہوئی۔ یہاں یہ امر ہمیں یہ
سوچنے پر ضرور مجبور کرتا ہے، کیا اس بندے کی قسمت بہت اچھی تھی ؟ سعودی
عرب کی جیلیں ، باہر کی دنیا سے بہتر ہیں یا سعودی عرب کے مزدورں کے متعلق
قوانین درست نہیں۔
میں آخری نقطے کو درست قرار دوں گا۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی تنظیمیں
ایک لمبے عرصے سے یہ مطالبہ کرتی آ رہی ہیں کہ کم سے کم تنخواہ کی ایک حد
مقرر کی جائے جس پر حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ ملک میں موجود
سعودی باشندے زیادہ تنخواہیں افورڈ نہیں کر سکتے اس لیے ان کی آسانی کے لیے
جتنی تنخواہ وہ دینا چاہیں دیں۔ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ یقین
مانیے یہاں پر ایسے بنگالی باشندے بھی موجود ہیں جو فقط 250 سے 300 ریال
ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔اور یہ حالت کسی پرائیویٹ ادارے یا نان
کمرشل فرم کی نہیں بلکہ اس کمپنی کی ہے جو سعودی عرب میں صفائی کا ٹھیکہ
لیتی ہے اور حکومت اسے ہر سال یہ کنٹریکٹ تجدید کر کے دیتی ہے۔
اگر سعودی عرب کے شہری اس قدر کم آمدنی رکھتے ہیں تو پھر وہ ملازم کیوں
رکھتے ہیں؟ وہ اپنے کام خود کرنے کی عادت کیوں نہیں ڈالتے۔ وہ اپنے گھر خود
صاف کریں، اپنی سڑکوں سے گندگی خود اٹھائیں اور اپنی گاڑیاں خود چلائیں۔
مگر نہیں، وہ ایسے ایشین باشندوں کو بلیک میل کر رہے ہیں جو نہایت غریب بیک
گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے لیے آمدنی نہ ہونے سے 250 ریال ماہانہ
ہونا قدرے بہتر ہے۔ یہاں آ کر مجھے اپنا آفتوں سے اٹا ہوا ملک بہتر محسوس
ہوتا ہے جہاں مزدور کی کم از کم تنخواہ 6000 ماہانہ ہے۔ پاکستانی قوانین
چاہے لاکھ برے سہی لیکن ان میں کچھ اچھے قوانین بھی موجود ہیں۔ مجھے اسلام
سے نفرت کرنے والے اور پاکستانیوں کو 'پاکی' کی گالی دینے والے وہ برطانوی
گورے بھی یاد آئے جو ایک گھنٹہ کام کرنے والے مزدور کو کم از کم 7 پاؤنڈ
دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی اس سے کم دے تو شکایت کرنے پر اسے سزا ملنے کا
امکان بھی ہوتا ہے۔ سعودی عرب ایک بہت اچھا اور وسائل سے مالا مال ملک ہے۔
اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہیں اور ہر حکومت کی کچھ خامیاں اور کچھ خوبیاں
بھی ہوتی ہیں۔ اسی سعودی عرب میں ہی بہت سے پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی
باشندے بڑی اچھی اور پرآسائش زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ تاہم قوانین میں
بہتری کی کافی سے زیادہ گنجائش بھی موجود ہے۔ جس میں سب سے نمایان بدنام
زمانہ کفیل سسٹم بھی موجود ہے۔ یہ سسٹم مشرق وسطی کی کم وبیش تمام ریاستوں
میں کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے۔ جسے ختم کرنے کی دہائی ایک عرصے سے ساری
دنیا دے رہی ہے۔
میرے مزید آرٹیکل پڑھنے کے لیے میرا بلاگ ملاحظہ کیجیے۔
https://yasirimran.wordpress.com |