گزشتہ کئی ماہ سے آنکھ کے چکروں میں علیل تھا کہتے ہیں
اکھیں گئیاں تے جہان گیا کوئی بات نیڑے نیڑے ہی لگی تھی کہ اﷲ نے ڈاکٹر
نوید قریشی سے ملوا دیا الشفاء پنڈی کے اس نوجوان ڈاکٹر کے ہاتھ میں
مسیحائی ہے ورنہ گجرانوالہ کے ابراہیم ٹرسٹ ہسپتال میں بیٹھے ایک ڈاکٹر نے
کہا تھا کہ دائیں آنکھ گئی۔بائیں بچپن میں ہی زکمی تھی دائیں کا سن کر دل
بیٹھ گیا وہیں ایک اور ڈاکٹر نے تسلی دی مگر اﷲ نے صحت دے دی۔بھائی فیاض کو
جہاں سے گئے تین ماہ ہونے کو ہیں ان کے جنازے میں گیا تھا بعد میں نہ جا
سکا کومل گلی میں خلیل صاحب کا جواں سالہ بیٹا ٹریکٹر کے نیچے آ کر دنیا سے
چلا گیا راستے میں دعا کی ماجد مختار جو یو سی جبری سے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل
ہے وہ اور ان کی امی جو بہن ہیں وہ بھی ساتھ تھیں عزیزی مظہر نے کمال کی
ڈرائیونگ کی کومل گلی میں دعا کرنے کے بعد ہ اس راستے پر ہو لئے جو ہے تو
جنت نظیر مگر اس علاقے کو دوزخ بنانے میں دو خاندانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔کسی
نے ایک جنازے کے پیچھے چلتے ایک عورت کو سنا بچہ تو اس جہاں جا رہا ہے جہاں
روشنی نہ پانی جہاں اندھیرا ہی اندھیرا تو لگتا ہے وہ شخص اس ہزارے کے اسی
حصے میں دفن ہوا ہو گا۔حد مک گئی ہے اس سردی میں بھی دو دن سے بجلی نہیں
تھی۔اور مزے کی بات ہے عمر ایوب خان بھی اسی ہزارے کے اسی علاقے کے
نمائیندے ہیں وزیر بجلی ہیں۔اس سے پہلے راجہ سکندر زمان بھی پانی اور بجلی
کے وزیر رہ چکے ہیں۔میں پارٹی کا ذمہ دار ہوں مگر نالائقوں کا ٹھیکے دار
نہیں ہوں۔اب لوگ نہیں مانتے کہ ہم ابھی آئے ہیں۔وہاں سے نکلے خدا خدا کر کے
ترناوہ کوہالہ روڈ پہنچے درکوٹ کے پاس جہاں عمران خان نے پودہ لگا کر بلین
ٹری سونامی کا آ غاز کیا تھا وہاں سے تھوڑی دور سفیر عباسی جو اس علاقے کے
ایک نامور صحافی اور سماجی ورکر ہیں انجمن عباسیہ کے روح رواں ہیں ان کی
والدہ کی دعائے مغفرت کی جو چند ہفتے پہلے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی
تھیں۔ان کے بیٹے نے ہمارا ساتھ دیا جو ماشاء اﷲ ان کا چھوٹا بھائی لگتا
ہے۔سفیر عباسی بہت پیارا انسان ہے۔یہیں ریاست عباسی کا ذکر خیر بھی ہوا جو
پنڈی میں ہی رہتے ہیں۔ہمارے علاقے کے لوگوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ پیدا
ہوتے ادھر ہیں لیکن پھلتے پھولتے دوسرے شہروں میں ہیں ان کی قبریں پنڈی
گجرانوالہ لاہور کراچی اور بعض کی انڈونیشیا اور دوسرے ملکوں میں ہوتی
ہیں۔ماجد کا خیال ہے کہ لوگوں کا قصور ہے وہ اپنا حق نہیں پہچانتے لیکن میں
اس غریب کو قصور وار کیوں قرار دوں جس سے علم کی روشنی جبرا چھینی گئی
تھی۔یہاں سے ہم نکلے دیسرہ کی جانب راستے میں معروف گاؤں ہلی آتا ہے جہاں
سے میجر جنرل ظہیر عباسی تھے۔وہ ایک ناکام بغاوت میں پکڑے گئے تھے۔ہم جو
باغیانہ روش کے لوگ ہیں ہم سے ذرا بچ کے ہم ہیں اس دھرتی کے جو ظلم اور جبر
نہیں سہتی۔ اس روڈ پر بلند ترین جگہ وہاں عارف نام کے ایک عزیز ہیں جو
سعودی عرب ایک مدت رہے ان کی والدہ کی دعائے مغفرت کی عارف نے ایک مدرسہ
بنایا ہے آج کل علیل ہے اﷲ پاک صحت دے۔دیسرہ سے واپس نائیاں دی گلی سے ہم
نے ملاٹ کی راہ لی۔ملاٹ نیچے ایک خوبصورت وادی ہے بہتے پانیوں کی زمین ہے
اوپر سے بارش تھی یہاں جناب صوبے دار اشرف کی دعا کرنی تھی ان کے دوست
ڈاکٹر صاحب نے میزبانی کی وہیں ان کے ساتھ گپ شپ کی طبیعت خراب تھی بلڈ
پریشر چیک کیا تو نیچے والا کم تھا۔ہم کہتے تو عطائی ہیں لیکن اگر یہ لوگ
نہ ہوں تو ایم بی بی ایس کیا کرے گا۔ابھی بہت کچھ کرنا ہے ماجد صوبے دار
صاحب کے گھر گیا بارش میں بھیگتے جیپ میں بیٹھے کریڑی بھی خوب ہوئی یہاں سے
ایک راستہ نلہ کو جاتا ہے اﷲ کے کرم سے یہ راستے ان کی بنیادوں میں ہمارے
بڑوں کا لہو شامل ہے یہاں جو اسکول سڑکیں بنی اس میں نلہ کے گجروں کا بڑا
ہاتھ ہے۔ہمیں اﷲ نے انگریز دور سے ہی اچھی ملازمتوں اور کاروبار دئے جب ہوش
سنبھالی تو واپس آ کر ستر کی دہائی میں میدان سیاست میں قدم رکھا۔نلہ کی
طرف جاتی سڑک گرچہ کچی ہے مگر کئی پکی سڑکوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔گاؤں میں
داخل ہو کر تین مختلف سڑکیں ہیں ہم نے گیٹا والا راستہ اپنایا اور پہنچے
اپنے کزن تاج محمد مختار محمد اور زرداد کے گھر چا چاے ولی کی بیٹی کا
انتقال ہوا تھا اس بیماری اور کلسری کی وجہ سے جا نہیں سکا تھا ان کے ہاں
دعا کی ۔نلہ جاؤ اور چائے نہ ہو نا ممکن ہے۔تھوڑی ہی دور بھائی فیاض مرحوم
کے گھر گئے بھابی صاحبہ اور بچوں سے دعا کی۔اب ہماری منزل حوالدار اختر کے
گھر تھی چڑیالہ میں ان کا گھر ہوتر کے ساتھ ہے یہاں انگھیٹھی کی موج میسر
تھی وہیں بیٹھ کر کزن کے ہاتھ کا کھانا کھایا ۔یہاں آ کر علم ہوا عمران خان
کی مرغی پال اسکیم کا فائدہ میرے ہم زلف نے اٹھایا ہے فورا انڈے آلو اور
پیاز کا سالن بنا دیسی گھی اور لسی ظاہر ہے وہ بھینس کی تھی اور گائے کا
گھی تھی شکر،دہی،لسی،تمر کی چٹنی،آلو انڈوں کا سالن خمیری روٹی ۔صرف انجام
سے ڈر کر تھوڑا کھایا البتی ماجد اور ہمشیرہ محترمہ نے اس کھانے کے ساتھ
خوب انصاف کیا۔ہلکی ہلکی بارش میں گھر میں متحدہ ماحول چھوٹے چھوٹے بچے
دروازوں کی کواڑوں سے پیچھے جھانکتے ہمیں کوئی اور مخلوق سمجھ رہے تھے۔یہاں
سے بن موہری گھر آئے بھائی نثار جو میرے کزن ہیں ۲۷ سال کی سروس کے بعد گھر
آرام کر رہے ہیں بڑے گھر حویلی جیسے مکان مگر رہنے والے یہاں نہیں ایک
جدہ،ایک دبئی اور ایک ملائیشیا بھائی ریاض کہتے ہیں نثار کی آمدن مختلف
کرنسیوں میں ریال درہم اور رنگٹ میں۔پیسے تو بچے بھیج ہی دیتے ہیں لیکن دکھ
یہ ہے کہ خالی گھر کی دیواریں مکینوں کو ترستی ہیں۔حال ادھر میرا بھی یہی
ہے دو جدہ ایک گجرانوالہ اور ایک میرے پاس بچوں سے خالی گھر شائد وہ گھر
ہیں جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے تم بن گھر ایسے لگتا ہے دیواروں سے در
لگتا ہے الہہ آباد کرے۔نثار کے لئے ایک کیک لے کر گیا تھا اس کی آبرومندانہ
بوکری کو سلام۔وہ بنیادی ہیلتھ سینٹر میں ملازم تھا ۲۷ سالہ زندگی وہیں
گزاری۔کمال کی نوکری کی کہنے لگا اس پوری زندگی میں کبھی کوئی نوٹس نہیں
ملا ایمانداری سے نوکری کی ہے۔آج کل پنشن لینے کی پریکٹس کر رہا ہے سوچتا
ہوں ہم کسی کو باعزت کیوں نہیں روانہ کرتے ۔یقین کیجئے کمپنیوں میں نوکریاں
کیں باوقار انداز سے چھوڑا فنکشن ہوئے آفرز ملیں تحفے ملے لیکن یہاں کا
پنشنر کیوں ذلیل ہو رہا ہے میں حکومتی بندہ ہوں تجویز دوں گا کہ ریٹائرمنٹ
کے آخری تین ماہ میں ان کے سارے لوازمات پورے ہوں اب تو انہیں ہیلتھ کارڈ
بھی مل جانا چاہئے تا کہ وہ اپنا علاج معالجہ کرا سکیں ان کی رقوم ان کے
اکاؤنٹ میں جانی چاہئے۔اپنا ہی کیک کاٹا ان کے پاس شکر والی چائے پی۔مظہر
اپنے گھر چلا گیا تھا یہاں سے کوئی رات دس بجے روانہ ہوئے سردی کمال کی تھی
جیسے جیسے رات آگے بڑھ رہی تھی ٹھنڈ بھی کمال کر رہی تھی۔بہشتی زیور میں
لکھا تھا سفر سے پہلے رفع حاجت کر لیا کرو۔نصف حاجت روائی تو کی مگر ٹھنڈے
پانی سے اٹھائیس طبق روشن ہوئے۔ماجد نے سٹیئرنگ سنبھالا اور ہم باسط اور
نظار کو الوداع کہہ کر روانہ ہوئے اوپر ڈھیری پر بہن اور بھابی دیگر عزیز
تھے لیکن سرد موسم اور تھکاوٹ نے جانے کو روکا چڑھائی بہت تھی اور موسم
۔اسی موسم نے ہمارے کزن سے ہاتھ پنجہ کیا تھا دل تو کرتا تھا کہ جاؤں ۔اس
قسم کی سردیوں میں دانے بھون کر کھائے جاتے تھے ٹھیکری پر مکئی کی روٹی اور
دودھ کے گلاس سے ڈنر ہوتا تھا بڑے سمجھاتے سرکی لگا کر کھائیں ۔ہم اس دیسی
کھانے سے دور چاکلیٹ کیک کاٹ رہے تھے ہم نے چھری نثار کے حوالے کی اور ہیپی
ریٹننگ ہوم کی کلیپنگ کے ساتھ نلہ کے چوہانوں نے نثار کو خراج تحسین پیش
کیا میری یہ عادت ہے جی چاہتا ہے زندگی کے پر موڑ کو سیلبریٹ کروں بھائی
ریاض ریٹائر ہوئے تو دفتر پہنچ گیا تصویریں بنائیں یہ یاد گار ہوتے ہیں
لمحات۔مقصود گھوڑا گلی روڈ اور پیس سوہاوہ روڈ بن رہی ہے ۔بڑی تیزی سے کام
ہو رہا ہے ۔گاؤں میں بجلی نہیں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ہوتی رہیں سوچا
مارچ کی خیر ہے جون جولائی میں کیا ہو گا؟
تریڑو محلے سے اوپر نکلے تو بائیں جانب روشنیاں نظر آئیں یاد رہے اس وقت
بجلی آ چکی تھی میں نے کہا بھراسیاں میں شیر گڑھ آباد ہو چکا ہے اﷲ نفیس
بیٹے کو لمبی عمر دے اس نے کافی لوگوں کو باہر بلوایا ہے۔میں سوچنے لگا کہ
اگر اسی طرح ماؤں کے بچے باہر چلے گئے تو نوکروں کو کوٹھیوں میں مفت رکھنا
ہو گا بلکل میر پور کی طرح۔اگر مشرق وسطی کا تیل نہ ہوتا تو ہماری چمنیوں
میں تیل ہوتا۔میرے اس گاؤں کے لوگ زیادہ تر باہر ہیں۔شیر گڑھ سے سوہڑی گلی
کو مس کرتے ہم بنگلے کے پیچھے سے عازم ایئر پورٹ سوسائٹی ہوئے۔میں نے مظہر
کی ڈرائیونگ کو لاجواب پایا۔رات کوئی ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچے ۔حاصل سفر
یہ ہے کہ انسان اپنی جڑ سے پہچانا جاتا ہے اپنوں سے ملتے رہنا چاہئے۔ہزارہ
کے اس زیرین حصے کی تقدیر بدلنے والی ہے سڑک پر کام تیزی سے جاری ہے۔سیاحت
اپنے ساتھ خوشبختی کی دستک لا رہی ہے۔میں نے سنگڑہ گلی میں خریداروں کے
مکھیا کے ہوتے ہوئے کہا تھا زمینیں مت بیچنا ایسا نہ ہو کہ کل کا فائیو
سٹار ہوٹل ہو آپ کا پوتا نیچے ریڑھی لگائے کھڑا ہو اور کہے کہ اس ہوٹل کی
زمین میرے دادا نے بیچی تھی۔سلامت اے مادر وطن
|