ٹھہرو ، سوچو !

کبھی کبھی انسان ایک بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے اور اسے خود پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔

اچانک خوش قسمتی آڑے آکر اسے جھنجوڑتی ہے یا کوی واقعہ اسے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ شعوری طور پر جائزہ لے کہ وہ کیا کیا کام کس مقصد سے کر رہا ہے ۔ اس میں کچھ ردوبدل کی ضرورت تو نہیں؟

اس کے لیے کچھ مشق بھی تجویز کی جاتی ہیں جن سے انسان پرانے خیالات کی گرفت سے آہستہ آہستہ آزاد ہونے لگتا ہے ۔ اس میں سے یہ بھی ہے کی زہن کے فوکس اور خیالات کے ارتکاز کے لیے توجہ ایک طرف مرکوز کرنا اور ایک آواز کی طرف دھیان دینا جو مسلسل اور constant ہو مثلاً پنکھے کی آواز یا گھڑی کی ٹک ٹک ، جتنی دیر بھی ممکن ہو آسانی کے ساتھ جو آنکھ بند کر کے ہو اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کمر سیدھی ہو تو زیادہ مناسب ہے۔

یا نظریں ایک نکتہ یا دائرہ پر پلک جھپکاے بغیر مرکوز کرنا جو آہستہ آہستہ مشق کرنے سے مہارت حاصل ہو سکتی ہے ۔

شائد خیالات میں کوئ وقفہ آے اور ہمیں زندگی کا مقصد سمجھ آے یا کوی نیا خیال اور نیا زاویہ نگاہ نظر آنے لگے اور کسی مشکل کا حل سمجھ آنے لگے جو کہیں قریب ہی ہوتا ہے ، بس نظر نہیں آتا۔
کچھ فالتو مقاصد چھانٹ کر اہم مقصد پر نگاہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کسی ایک شخص سے اچانک محبت ہو جاتی ہے تو تمام خیالات ایک خیال میں گم ہو کر ہر چیز میں اسی حوالے سے سوچا جا رہا ہوتا ہے۔


کچھ کام آدمی عادت کے تحت کیے جاتا ہے جبکہ کچھ دن میں اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اسی طرح کچھ خوف پلتے رہتے ہیں اور لوگ اس میں جلتے رہتے ہیں اور خیالات سڑتے گلتے رہتے ہیں ۔

کسی خاص وقت میں کسی کی مخالفت جس کی ٹھوس بنیاد موجود ہو تو سمجھ آتی ہے مگر آہستہ آہستہ وہ تاحیات مخالف ہی بن جاے اس کا خطرہ موجود رہتا ہے جس طرح سیاسی دھڑے بندیاں اور سوشل میڈیا کی بحث ، جو مخالفت براے مخالفت کی صورت اختیار کر چکی ہے ، جس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 290751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.