تعجب کی بات ہے کہ پاک بھارت غیر اعلانیہ جنگ کے ٹینشن
کے ماحول میں پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن روایتی سیاست کررہی ہیں،
حالانکہ یہ وقت متحد ہونے اور دُشمن کو اپنے اتحاد سے خوف دِلانے کا ہے۔ کم
از کم ابھی توحکومت اور اپوزیشن کو ایک پیچ پر ہونا چاہئے تھا۔ مگر چور
چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف اپنے
ذاتی اور سیاسی مفادات اور مسائل کو ایوانوں میں لا کر چیخ چلا رہے ہیں، جس
کا فائدہ دُشمن کو ہوگا ۔
جبکہ حکومت ہے کہ یہ جنگی جنون میں مبتلا دُشمن بھارت کی طرف سے سرحدوں پر
ٹینشن ہونے کے باوجود بھی منافع بخش قومی اداروں کی فروخت کا منصوبہ بنارہی
ہے،وزیراعظم عمران خان اپنے پیش رو نوازشریف ، آصف علی زرادی اور پرویزمشرف
کی حکومتوں سے آج تک قرضوں کے بوجھ تلے دبی پاکستانی قوم کو قرضوں سے نجات
دِلانے کے لئے ڈیڑھ سال کے عرصے میں پہلے مرحلے میں ایس ایم ای بینک ، فرسٹ
وومن بینک، بلوکی پاور پلانٹ ، حویلی بہادر پاور پلانٹ ، مری پٹرولیم، جناح
کنونشن سینٹر، لاکھڑاکول مائنز اورسروسز انٹرنیشنل ہوٹل سمیت8 قومی ادارے
جبکہ دوسرے مرحلے میں یعنی کہ 5سال میں 49منافع بخش ادارے اسٹیٹ لائف ،
اوجی ڈی سی ایل، پاورکمپنیاں ،پی این ایس سی ، پورٹ قاسم، کے پی ٹی( کراچی
پورٹ ٹرسٹ جیسا منافع بخش وہ ادارے جو صدیوں سے اپنے قیام سے آج تک خسارے
میں کبھی نہیں گیا ہے۔ موجود حکومت نے اِسے بھی خسارے کا ادارہ ظاہر کرکے
اِسے بھی نج کاری کی بھینٹ چڑھانے کا پروگرام بنا لیا ہے) شامل ہیں۔
یہاں یہ امر یقینا قابل توجہ اور غور طلب ضرور ہے کہ کس طرح وزیراعظم عمران
خان اپنی حکومت میں کے پی ٹی جیسے منافع بخش قومی اداروں کی نج کاری کا
فیصلہ کرچکے ہیں۔ اِنہیں اِس ادارے کی نج کاری کے فیصلے پر لازمی نظر ثانی
کرنی چاہئے جبکہ سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کے باعث ازل سے ہی خسارے میں
چلنے والے قومی اداروں اسٹیل ملز ، پی آئی اے، سی اے اے، ریلویز سمیت
15اداروں کو خود پالنے کا ادارہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا
کہ جو ادارے خسارے والے ہیں۔ حکومت پہلے اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے۔
اِنہیں خسارے سے نکالنے کی کوشش کرے۔ اگر یہ پھر بھی خسارے میں ہی رہیں۔ تو
پھر بیشک، حکومت اِن کی نج کاری کرے ۔مگر افسوس کی بات ہے کہ آج وزیراعظم
عمران خان اپنی نئی منظق لے کر چل رہے ہیں ۔نواز شریف ، آصف علی زرداری اور
پرویز مشرف کی حکومتوں میں لیئے گئے قرضوں کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دبی
پاکستانی قوم کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دِلانے کے لئے اوجی ڈی سی ایل ،
پورٹ قاسم اور کے پی ٹی جیسے منافع بخش اداروں کو ہی فروخت کرکے آخر کیا
چاہتے ہیں؟ منافع بخش اداروں کی نج کاری کے بعد اِن کے ملازمین کا کیا
ہوگا؟کیا اداروں کی نج کاری سے مُلک میں بے روزگاری میں اضاضہ نہیں ہوگا؟
وزیراعظم نے تو کروڑوں کو روزگادینے کا وعدہ کیا ہے۔!!
بہر کیف ،بھارت میں جاری انتخابات کے دوران پلوامہ حملہ سمیت دیگر پرتشدد
واقعات تو محض ایک بہانہ ہیں ، اصل بات یہ ہے کہ بھارت کو پاکستان پر جنگ
مسلط کرنے کا جواز چاہئے تھا ، جو پلوامہ حملے کی بھارتی ڈرامہ بازی کے بعد
اِس کے ہاتھ لگ گیا ، جس کو بنیاد بنا کر دہشت گردِ اعظم بھارتی وزیراعظم
نرریندر مودی کے اشارے پر رات کی تاریکی کا فائدہ اُٹھا کر بھارتی فضائیہ
کے طیاروں نے پاکستان کی سرحدی حدو دکی خلاف ورزی کی اور دراندازی کرنے کے
بعداپنا پے لوڈگرا کر بھاگ گئے ۔جس کے اگلے ہی روز پاک فضائیہ نے جنگی جنون
میں مبتلا بھارتیوں کو دن کی روشنی میں اِن کے وطن میں گُھس کر جو سبق
سیکھایا ہے۔ اِسے بھارتی تاقیامت یاد رکھیں گے ، جب بھی بھارتیوں میں جنگ
کی تاریخ دُہرائی جائے گی۔ سارے بھارتی ہاتھ لگا کر روئیں گے، اِس سے
اِنکار نہیں ہے کہ پاکستان کی افواج کی جنگی صلاحتیں پیشہ وارانہ ہیں ، جو
جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت سے سرشاراور بہرامند ہیں، مگر پھر بھی خطے کا
بھارت جیسا کوئی پڑوسی مُلک یہ سمجھے کہ یہ طاقت میں زیادہ ہونے کی وجہ سے
پاکستان پر جنگی سبقت لے جائے گا ؛تو یہ اِس کی کم خیالی ہے۔ کسی بھی
بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان چاہے، تو بھارت کو چند گھنٹوں میں صفحہ
ہستی سے مٹاسکتاہے۔ مگر پھر بھی پاکستان کی امن پسندی ہے کہ یہ بھارت کو
قائم دیکھنا چاہتا ہے۔ اَب اِس پر پھر بھی بھارت اِسے پاکستان کی کمزروی
سمجھے تو یہ اِس کا پاگل پن ہے۔بظاہرغیر اعلانیہ پاک بھارت جاری جنگ میں
پاکستان کے بروقت اور درست فیصلوں سے جزوقتی طور پر جنگ ٹل تو گئی ہے۔ مگر
بھارتی ہٹ دھرمی کم نہیں ہوئی ہے، کیوں کے بھارت کو پاکستان پر جنگ مسلط
کرنے کا امریکا ٹاسک ملا ہوا ہے۔ بھارت کے ساتھ اسرائیل اور درپرہ امریکا
بھی شامل ہیں ، جس کی چال ہے کہ بس کسی بھی طرح سے بھارت پاکستان پر جنگ
مسلط کردے ،پھر باقی کا کام وہ سنبھال لے گا، بیشک ، افغانستان سے امریکا
کی واپسی کے بعدافغانستان میں نمایاں تبدیلیاں تو آئیں گی ۔ تو وہیں
پاکستان بھی حالتِ جنگ سے نکل جا ئے گا، اقتصادی اور معاشی اعتبار سے اپنے
تابناک مستقبل کے لئے کوششیں تیز کردے گا ۔جو امریکا کبھی نہیں چاہتاہے۔ کہ
پاکستان کسی بھی حوالے سے معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہو اور معاشی
بحرانوں سے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو، اِسی لئے پاک چین راہداری منصوبہ
امریکا اور اِس کے حوارویوں بھارت اور اسرائیل کی آنکھ میں کھٹک رہاہے ،
جنہیں لگ پتہ گیاہے کہ پاک چین راہداری منصوبہ اور پاکستانی سمندری حدود
میں تیل کی تلاش کا کام تکمیل کو پہنچ کر کامیابیوں سے ہمکنار ہوگیاجیسا کہ
تیزی سے کامیابی کے منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہاہے۔ تو پاکستان اقتصادی
و معاشی حوالوں سمیت پیٹرولیم مصنوعات کے شعبے میں خطے کا کامیاب ترین مُلک
بن جائے گا اور امریکی تسلط سے آزاد ہوکر اپنے فیصلے خود کرے گا ۔یہی وہ
خدشتہ ہے جو امریکا کوکھٹک رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا بھارت کو درپردہ
پاکستان سے جنگ پر اُکسارہاہے، بھارت کی جانب سے جارحیت کے خطرات موجود ہیں،
جنگ ٹلی نہیں ہے ، خطرہ موجود ہے، مشکل وقت ختم نہیں ہوا ہے ،کشیدگی میں
کمی کا آغاز تو ہوگیاہے، مگر بھارتی جارحیت متوقعہ ہے،دُشمن کا دندان شکست
جواب دینے کے لئے پاک فوج ہمہ وقت تیار ہے، اگرچہ، وزیراعظم عمران خان اور
عسکری قیادت کے بروقت فیصلے سے دنیا میں پاکستان کی امن پسندی کا مورال
بلند ہوا ہے ، پاکستان کی امن پسندی کی حکمتِ عملی نے بھارت کو بتادیاہے کہ
کسی بھی سمت سے بھارتی جارحیت کا کئی گنا زیادہ قوت سے جواب دیا جائے
گا۔مگر افسوس ہے کہ ہمارے ایوانوں میں حکومت اور اپوزیشن بی جمالو والی
روایتی سیاست کرنے سے باز نہیں آرہی ہیں،نہ صرف یہ بلکہ سونے پہ سہاگہ کہ
وزیراعظم عمران خان بھارت کی جانب سے غیر اعلانیہ جنگی ماحول میں بھی منافع
بخش قومی اداروں کی فروخت کے لئے اپنی دُکان کھولے بیٹھے ہیں۔(ختم شُد |