کچھ دنوں کی بات ہے میں اپنے
دوست کے ساتھ اس کے محلے گیا تو دیکھا کچھ لوگوں نے راستہ بلاک کیا ہوا
ہےاور دہاڑیں مار کے رو رہے ہیں۔ان کے گریبان پھٹے ہوئے ہیں اور پاگلوں کی
طرح ماتم کر رہے ہیں۔ اس بھیڑ میں کچھ عورتیں بھی تھیں جن کے سروں پہ دوپٹے
نہیں تھے، پاؤں میں جوتیاں نہیں تھیں۔اپنی حالت اور لباس سے بے نیاز اپنے
مردوں کے ساتھ چیخ پکار کر رہی تھیں۔ کچھ لوگ تھے جو رونے والوں کو تسلیاں
دے رہے تھے اور صبر کی تلقین کر رہے تھے۔ کچھ افسردہ صورت بنا کےایک طرف
کھڑے تھے۔ اور کچھ بڑے شوق سے ان مردوں اور عورتوں کی حالت دیکھ کر لطف
اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ ان لوگوں پر تنقید کر رہے تھے۔ اور کچھ بے نیاز ہو
کر گزرے جارہے تھے۔
میں نے اپنے دوست سے کہا بھائی جان یہ کیا سین چل رہا ہے۔ یہ کیسے بے وقوف
لوگ ہیں جوخوامخواہ راستہ روکے کھڑے ہیں۔ کتنی بے حیا عورتیں ہیں جن کو
اپنی عریانی کا احساس تک نہیں ہے۔ کتنے بے غیرت لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کوں
برہنہ سر گھروں سے باہر لے آئے ہیں۔ کتنی ننگی آنکھیں ان عورتوں کے جسموں
کا طواف کر رہی ہیں۔
وہ بولا یار کچھ نہیں صبح یہاں کچھ دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ کچھ لوگ زخمی
ہو گئے۔ کچھ مارے گئے،اور بہت سا مال اسباب لوٹ لیا گیا۔ یہ جو لوگ ماتم کر
رہے ہیں ان میں سے کسی کا بھائی مارا گیا۔ کسی کے باپ کا سایہ سر سے اٹھ
گیا۔کسی کا جوان بیٹا داغ جدائی دے گیا۔ اور یہ جو عورتیں ہیں کوئی انکی
ماں ہے کوئی بہن ہے کوئی بیٹی ہے۔ یہ جو تسلیاں دے رہے ہیں یہ انکے عزیز
واقارب ہیں اور جو افسردہ کھڑے ہیں دوست واحباب ہیں۔
اب جس کا اتنا نقصان ہو جائے وہ گھروں میں تھوڑا ہی افسوس منائے گا۔وہ تو
گھروں سے باہر ہی نکل کر احتجاج کرے گا۔ تاکہ حکومت وقت کچھ ایکشن لے اور
مجرموں کو انکے انجام تک پہنچائے۔
اب سمجھ آئی۔ یہ شیعہ ہر چیز سے بے نیاز ہوکر سڑکوں پہ کیوں ماتم کرتے ہیں
۔افسوس تو اس کو ہی ہوگا نا جس کا نقصان ہوا ہے۔ باقی تو صرف تماشہ ہی
دیکھیں گے۔ |