ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ حکومت
عوام کی خادم ہے مگر آج مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں عوام حکومت کی خادم ہے
خود ہی دیکھ لیجئے کہ عوام اپنی روزمرہ کی اشیاء پر کس قدر رقوم خرچ کر کے
اپنے اُوپر حکومت کرنے والے ناعاقبت اندیش لیڈران کی عیاشی کا سامان پیدا
کرتی ہے۔ جاگیردار حکمران طبقہ آرام و آسائش میں زندگی گزار رہے ہیں وہیں
عوام ظلم وستم اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔آج عوام کا کوئی مخلص ہمدرد
نظر نہیں آتا ہے۔ عوام پر طرح طرح کے جرمانے(Taxes)لگا کر حکمران طبقہ اپنے
خزانے کو بھر رہے ہیں اپنے مفاد ات کی خاطر ملک اور عوا م کو داﺅ پر لگا
رہے ہیں۔ اب تک پتا نہیں کتنے لوگ غیروں کے ہاتھوں بیچ کر دولت کمائی جاچکی
ہے ۔کتنے ہی بے گناہ افراد روزانہ ڈرون حملوں میں مارے جاتے ہیں، کتنے ہی
خودکش حملوں کی نظر ہو جاتے ہیں ،کتنے ہی غربت کی وجہ سے اپنی اور اپنے
بچوں کی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جن کی کھیلنے کی عمر ہوتی ہے وہ
کھلونوں ،کتابوں کی بجائے روٹی کے متلاشی ہوتے ہیں عوام کو کوئی بھی تو
پوچھنے والا نہیں ہے ۔
بچاری عوام جائے تو جائے کہاں روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر
کر رکھا ہے۔جب حکمران عوام کے سامنے آتے بھی ہیں تو وہ انکے جذبات سے بے
خبر اپنے سہانے خوابوں میں مگن رہتے ہیں اگر یہ ایک دن غریب عوام کے گھر کی
حالت دیکھ لیں تو ان کی ساری خوشی کافور ہو جائے۔عوام سے بھر ے جلسے جلوسوں
میں یہی عوام انکے حق میں نعرے لگاتی ہے مگر بدلے میں انکو کچھ نہیں ملتا
ہے ۔ عوام سے کروڑوں اربوں روپے کا ٹیکس حاصل کر کے اپنے بنکوں کو بھرتے
ہیں اور عوام بچاری غربت میں مرتی ہے۔اور وہ بھی اُس جمہوری حکومت کے دور
حکومت میں جو غریبوں کی ہمدرد کہلواتی ہے اور اسی وجہ سے غریب عوام مکاﺅ
پروگرام پر عمل پیرا ہے تاکہ نہ رہیں غریب ،نہ رہے غربت واہ کیا انصا ف ہے؟
ہمارے ملک میں بچاری عوام روزی روٹی کی فکر ہی میں پڑی ہوئی ہے جبکہ تیونس
اور مصر کی عوام کسی قدر خواب غفلت سے جاگ اٹھی ہیں ۔کیا یہ بات اہم نہیں
ہے کہ ملک کی سربراہت کو اپنی جاگیر سمجھنے والے لیڈران کو نا چاہتے ہوئے
بھی اقتدار اور ملک چھوڑنا پڑا ہے۔ حسنی مبارک صاحب نے اپنے طو ر سے تو بہت
زور لگا یا کہ میٹھی گولی دے کر جیسے ہمارے پاکستان میں لیڈران ووٹ کے حصول
کے لئے جھوٹے وعدہ کر کے اقتدار میں آتے ہیں ویسے ہی وہ اپنے اقتدار کو طول
دے سکیں مگر عوام نے بس ایک ہی مطالبہ رکھا جناب آپ کی رخصتی سے کم کسی بات
پر کوئی سمجھوتہ نہ ہوگا۔ جیسے ہمارے حکمران اپنے مفادات کی خاطر سپر پاور
مملکت سے اپنے اقتدار کی طوالت اور مالی مفاد مانگتے ہیں کہ بدلے میں
بیٹیاں اور بیٹوں کی جانوں کا نذرانہ بمعہ تمام تر شرائط کو مان لیں گے جو
بھی آپ پسند کریں ۔لیکن مصری عوام میں شعور اجاگر ہو چکا تھا لہٰذا وہ ہوا
جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے مصر کی عوام نے تو باقی مسلمان ممالک کے لئے
ایک مثال قائم کر دی ہے کہ اگر سب متحد ہوجائیں تو کسی بھی فرعون سے
چھٹکارہ پانا کوئی مشکل کام نہیں ہے بس بات صبر اور حوصلے سے حالات کا
مقابلہ کرنے کی ہے ۔پاکستان میں بسنے والی عوام کو بھی چاہیے کہ اپنے حقوق
کے حصول کی خاطر عملی قدم اُٹھائے وگرنہ وہ اسی طرح سے اپنی باقی ماندہ
زندگی بھی گزار لے گی کہ وقت کب کسی کےلئے رک پاتاہے۔ویسے بھی خدا ان کی
مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی قوم کو اپنی حالتے
بدلنے کا خیال نہیں آئے گا تو انکی حالت زار کسی طور بہتر نہیں ہو پائے گی
تو قانون فطرت ہے ۔ |