پاکستانی شہریوں کو سر عام قتل
کرنے والے امریکی اہلکار نے تفتیشی افسروں کے سوالات کا جواب دینے سے انکار
کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اتنا ہی دباﺅ ڈالیں جتنا وہ برداشت کر سکیں۔ جو
گولیاں چلائی گئیں وہ اتنی خطرناک ہیں کہ عالمی سطح پر ان پر 100سال پہلے
پابندی لگا دی گئی تھی۔ امریکی اہلکار سے ناجائز اسلحہ برآمد ہوا اور گاڑی
کی نمبر پلیٹ بھی جعلی نکلی۔ حکومتی سطح پر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے کا
فیصلہ ہو چکا ہے تاہم براہ راست رہا کرنا حکومت کے خلاف کسی بڑی تحریک کا
باعث بن سکتا ہے ۔پولیس قتل ہونے والے شہریوں کو” ڈکیت “ثابت کرنے میں
مصروف ہو گئی تاکہ امریکی اہلکار کی رہائی ممکن ہو۔
لاہور کی مصروف سڑک پر پاکستانیوں پر سر عام فائرنگ کرنے والے امریکی کے پس
پردہ کیا کہانی چل رہی ہے ؟ تحقیقاتی صحافی سید بدر سعید کی انکشافات سے
بھر پور چشم کشا رپورٹ !!!
جنوری کے آخری ہفتے لاہور کی مصروف شاہراہ پر سگنل کے بالکل سامنے ایک غیر
ملکی نے فائرنگ شروع کر دی ۔دو نوجوانوں کو ہلاک کر دیا اس غیر ملکی کی مدد
کے لیے ایک اور گاڑی آئی جس میں بھی غیر ملکی سوار تھے انہوں نے پاکستانی
شہریوں کو اپنی گاڑی تلے روندنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ایک معصوم
شہری جاں بحق اور پانچ شدید زخمی ہو گئے اطلاعات کے مطابق گولیاں چلانے
والے غیر ملکی نے اپنے ”شکار“ کی باقاعدہ مووی بنائی جبکہ اس کی مدد کے لیے
آنے والے و حشیانہ انداز میں راہگیروں کو روندتے ہوئے سفارت خانے کی طرف
چلے گئے ۔ گولیاں چلانے والے کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا تعلق امریکہ سے
تھا اس نے بتایا کہ اس نے ”ڈاکوﺅں“ کو اپنے دفاع میں ہلاک کیا ہے جبکہ اس
کی مدد کے لیے آنے والے سفارت خانے کے اہلکار تھے۔ جبکہ امریکی سفارت خانے
نے فرار ہونے والی گاڑی اور اس میں سوار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور گرفتار قاتل کی رہائی کا مطالبہ بھی کر دیا۔
عالمی میڈیا کی نظریں اس کیس پر ہیں اور میڈیا اصل کہانی کی تلاش میں ہے۔
جب میں نے اس کیس کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا تو میرے ذہن میں بھی بہت
سے سوالات تھے جن کا جواب مجھے حاصل کرنا تھا مجھے اصل کہانی کی تلاش تھی۔
حقائق تک پہنچنے کے اس سفر میں اور بھی بہت سے انکشافات ہوئے جسے اس رپورٹ
میں شامل کرلیا گیا۔
اس کیس کی تحقیقات کے دوران میرے سامنے چند ایسے حقائق آئے جنہوں نے امریکی
اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو مزید مشکوک بنا دیا۔ریمنڈ ڈیوس نے جس پاکستانی
نوجوانوں کو اپنے دفاع میں قتل کرنے کا کہا ہے وہ بظاہر دفاع نہیں لگتا۔
میں نے ساری صورتحال کو فریم میں سیٹ کیا تو اس کہانی میں کئی جھول نظر آتے
ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات بتاتا چلوں کہ جن نوجوانوں کو گولیاں مار کر ہلاک
کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ ڈاکو تھے اور ریمنڈ ڈیوس پر حملہ کرنے والے
تھے۔ انہیں پشت میں گولیاں ماری گئی ہیں میں نے جا کر جائے حادثہ کو دیکھا
ہے یہ جگہ مزنگ اور جیل روڈ کے سنگم پر قرطبہ چوک کے پاس اور لکی سینٹر کے
بالکل سامنے ہے اور سگنل کے ساتھ ہے۔ اسے مرکزی چوک کہا جا سکتا ہے جہاں دن
کے وقت اس قدر ٹریفک ہوتی ہے کہ بعض اوقات ٹریفک جام ہوتا ہے یہاں دو
نوجوان ”ڈاکو“ اسلحہ لہراتے ہوئے آتے ہیں لیکن وہ امریکی اہلکار پر فائرنگ
کرنے کی بجائے اس کی گاڑی کے آگے موٹر سائیکل کھڑی کرتے ہیں یاد رہے ان سے
آگے سگنل ہے اور وہ تقریباً فرنٹ پر ہے اس قدر رش والی سڑک پر وہ کوئی
کارروائی یا وار دات کرنے کی بجائے ریمنڈ ڈیوس کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو
جاتے ہیں اور ریمنڈ بہت آرام سے ان کی پشت میں گولیاں داغ دیتا ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ریمنڈ پہلے سے ہی پوزیشن میں تھا جو
”ڈاکوﺅں“ سے بھی پہلے اس نے فائر کر دیا وہ بھی اس پوزیشن میں کہ ڈاکوﺅں نے
اسے لوٹنے سے قبل اس کی جانب پشت کر رکھی تھی۔
یاد رہے جائے حادثہ سے چند گز کے فاصلے پر پولیس اسٹیشن بھی ہے امریکی
ریمنڈ کو شاید اس بات کی خبر ہو یا نہ ہو لیکن کم از کم پاکستانی ”ڈاکوﺅں“
کو ضرور علم ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکی اہلکار جس
گاڑی کو استعمال کر رہا تھا۔ وہ گلبرگ کے رہائشی سہیل نامی شخص کے نام پر
ہے جبکہ دوسری گاڑی جس کے نیچے موٹر سائیکل سوار شخص آ کر ہلا ک اور پانچ
افراد زخمی ہوئے اسے جو نمبر پلیٹ لگا رکھی تھی وہ بھی جعلی نکلی اس کا
نمبرLZN 6970تھا یہ نمبر جمال نامی شخص کی کلٹس گاڑی کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ
ایک ”شریف اور معصوم“ امریکی اہلکار اس طرح ایک مشکوک گاڑی میں اسلحہ رکھے
بلکہ فائرنگ پوزیشن پر تیار بیٹھا کس مشن پر جارہا تھا اور جن نوجوانوں کو
اس نے ہلاک کیا وہ ڈاکو تھے تو انہیں سگنل پر اپنے ”شکار“ کے آگے پشت کر کے
کھڑے ہونے پر کس نے مجبور کیا؟ عام حالات میں ڈاکو گن تیار رکھتے ہوئے
فائرنگ پوزیشن میں ہوتے ہیں اور شکار بے خبری میں مارا جاتا ہے جبکہ یہاں
شکار فائرنگ پوزیشن میں تھا اور ”ڈاکو“ بے خبری میں مارے گئے۔
کیا واقعی امریکی اہلکار کے پاس ناجائز اسلحہ اور ممنوعہ گولیاں تھیں؟
سفارت کار اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اس لیے انہیں بہت محتاط
رہنا ہوتا ہے ریمنڈ ڈیوس سفارت کار تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر
پاکستانی قانون کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ ایک خطرناک شخص تھا اس کے پاس
سے جو اسلحہ برآمد ہوا وہ ناجائز تھا۔ سوال صرف یہ نہیں کہ وہ ناجائز اسلحہ
لیے کیوں گھوم رہا تھا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اسی ہفتے داتا دربار کے عرس
کے موقع پر لاہور میں دھماکہ ہوا ہے۔ مجھے اس وقت شدید حیرت کا سامنا کرنا
پڑا جب مجھے یہ علم ہوا کہ امریکی اہلکار نہ صرف ناجائز اسلحہ لیے گھوم رہا
تھا بلکہ اس نے پاکستانی شہریوں پر جو گولیاں چلائیں وہ بھی ممنوعہ تھیں ان
گولیوں کے استعمال پر 100سال قبل ایک کنونشن کے تحت پابندی عائد کر دی گئی
تھی یہ اس قدر خطرناک گولیاں ہیں کہ ان کی زد میں آنے والے شخص کا متاثرہ
حصہ آپریشن کے قابل نہیں رہتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں پاکستانی
نوجوانوں پر فائرنگ کرنے والے امریکی قوفصل خانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس نے
اپنے پستول کو ممنوعہ گولیوں ”ہالو پوائنٹ“ سے لوڈ کر رکھا تھا ہالو پوائنٹ
انتہائی خطرناک گولی ہونے کے باعث اس کے استعمال پر ایک عالمی کنونشن کے
تحت 1899ءمیں دنیا بھر پابندی عائد کر دی گئی تھی ”ہالو پوائنٹ“ نامی گولی
عام گولی سے سائز میں بڑی اور اس کے خول میں بیک وقت تین گولیاں ہوتی ہیں۔
انسانی جسم کو لگنے کے نتیجے میں یہ گولی فوری طور پر متاثرہ حصے میں پھٹ
جاتی ہے جس سے گولی کی زد میں آنے والا متاثرہ حصہ آپریشن کے قابل بھی نہیں
رہتا۔ عالمی کنونشن کے تحت شہری علاقوں اور وار زونز دونوں میں ہالو پوائنٹ
نامی اس گولی کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو
امریکی اہلکار نے پاکستانی شہریوں کو ہی قتل نہیں کیا بلکہ عالمی قوانین کی
بھی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں اور وہ عالمی قوانین کے تحت بھی سزا کا مستحق ہے
کیونکہ اس امریکی شہری نے پاکستان شہریوں پر فائرنگ کے دوران ممنوعہ ہالو
پوائنٹ نامی سات گولیاں استعمال کی تھیں۔ بات صرف ریمنڈ ڈیوس تک محدود نہیں
ہے بلکہ یہ انکشاف بھی ہوا کہ ریمنڈ ڈیوس کے پیچھے آنے والی لینڈ کروزر جس
کی نمبر پلیٹ جعلی تھی اور جو بعد میں ایک کلٹس گاڑی کا نمبر نکلا، میں
موجود دو امریکی اہلکار بھی مسلح تھے یہ لینڈ کروزر امریکی قونصلیٹ میں
پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ جب حالات اپنے حق میں نہ دیکھ کر یہ لینڈ
کروزر پاکستانی شہریوں کو روندتے ہوئے واپس گئی تو راستے میں ان امریکی
شہریوں نے چار میگزین اور پسٹل وغیرہ سٹرک پر پھینک دیے جو پولیس کو مل
گئے۔
کیا واقعی امریکی اہلکا نے تفتیشی ٹیم کودھمکیاں دیں؟
قارئین! اگر کوئی پاکستانی سفیر بھی امریکہ میں اس قدر سنگین جرائم کے تحت
پکڑا جاتا تو اس کی جو حالت ہوتی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن
دوسری طرف امریکی اہلکار نے پولیس افسروں کو نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ ان کے
بعض سوالات کا جواب دینے سے بھی انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق امریکی
اہلکار سے ایک ہم اور بنیادی سوال یہ پوچھا گیا کہ وہ مزنگ چونگی کیوں گیا
تھا اور کیا کر رہا تھا لیکن اس سوال پر اس اہلکار نے کہا کہ وہ کبھی نہیں
بتائے گا کہ وہ مزنگ چونگی پر کیوں گیا اور کیا کرنے گیا تھا۔ یاد رہے کہ
وہ قتل کے کیس میں پکڑا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اپنے ”مشن“کے بارے میں
کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں اور جائے حادثہ پر اپنی موجودگی کی کوئی وجہ
بھی نہیں بتا سکا۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ ملزم نے تفتیشی افسران
کو بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر اتنا ہی دباﺅ ڈالیں جتنا وہ برداشت
کر سکیں۔ ریمنڈ ڈیوس نے کہا کہ بار بار سوال مت دھرائیں، مجھ پر دباﺅ ڈالیں
گے تو آپ کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
ریمنڈ اس سے قبل9بار پاکستان آچکا ہے وہ ہمیشہ وزٹ ویزے پر آتا رہا اس کے
پاس سفارتی ویزہ نہیں تھا۔ یاد رہے تین چار ماہ پہلے بھی وہ جعلی نمبر پلیٹ
والی گاڑی استعمال کرنے پر پکڑا گیا تھا۔ ان حالات کا جائزہ لیا جائے تو
یوں لگتا ہے کہ وہ کسی خاص مشن پر پاکستان آیا ہوا تھا قاضی حسین احمد نے
بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سانحہ لاہور تجربہ کار کمانڈو کا کام ہے۔
انصار عباسی کے مطابق پولیس کو خدشہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس خفیہ
(Undercover)ایجنٹ ہے۔ یاد رہے امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے ابتدائی طور پر
پولیس کو بتایا تھا کہ وہ تکنیکی معاون ہے لیکن بعد میں یہ معلوم ہوا ہے کہ
اب کے وہ ”بزنس آفیشل“ ویزے پر پاکستان آیا تھا۔ ریمنڈ کے پاس سفارتی
پاسپورٹ ہے لیکن اس کے پاس سفارتی ویزہ نہیں ہے اسی ویزے کے تحت اقوام
متحدہ کے کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو سفارتی استثنیٰ ملتا ہے۔ ریمنڈ کے
پاسپورٹ کے آخری صفحے پر محکمہ خارجہ کا ثوثیق نامہ چسپاں ہے کہ حامل ہذا
سفارتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے لیکن پاکستانی سفارت خانے نے
انہیں سفارتی ویزا نہیں دیا تھا یہ صورتِ حال ملزم ریمنڈ ڈیوس کی شخصیت اور
کردار کو مزید مشکوک ظاہر کرتی ہے اسی طرح دفتر خارجہ نے واضح طور پر وزیر
داخلہ کو بتایا ہے کہ امریکی قاتل کے پاس سفارتی استثنیٰ نہیں ہے اور ریمنڈ
ڈیوس کو ویانا کنونشن 1963ءکے آرٹیکل 41کے تحت سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں
ہے۔
کیا قتل ہونے والے فیضان اور فہیم واقعی ڈکیت تھے؟
امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے جن دو جوانوں کو قتل کیا انہیں ڈکیت ثابت کرنے
کی کوشش کی جارہی ہے میرے لیے یہ سوال بھی کافی اہم تھا کہ کیا فیضان اور
فہیم واقعی ڈکیت تھے یا پھر انہیں ڈکیٹ ثابت کیا جارہا ہے؟ مجھے اس سلسلے
میں جو رپورٹس موصول ہوئیں ان کے مطابق مبینہ ”ڈاکوﺅں“ کے بیگ سے دو قیمتی
موبائل ملے جن کے نمبروں سے معلوم کیا گیا تو ایک موبائل شہرام ملک اور
دوسرا ڈاکٹر مدثر حسن کا نکلا دونوں موبائل فیضان اور فہیم نے تھوڑی دیر
قبل دوپہر کے وقت گن پوائنٹ پر جیل روڈ سے چھینے تھے پولیس کے مطابق فیضان
حیدر فیصل ٹاﺅن میں عثمان اعظم کے گھر ڈکیتی کے مقدمے میں اشتہاری تھا جس
کا مقدمہ نمبر 881/10ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ مقدمہ تب ہوا جب مدعی کا موبائل
ہال روڈ کی ایک دکان سے برآمد ہوا جہاں فیضان نے یہ موبائل اپنا شناختی
کارڈ دے کر فروخت کیا دوسری طرف ایک اور کہانی سامنے آئی وہ یہ کہ ذرائع کے
مطابق فیضان اور فہیم کے خلاف ڈکیتی کی درخواستیں دینے والوں کو مبینہ طور
پر پولیس وی وی آئی پی پروٹو کول دے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایس پی سول
لائن ڈاکٹر مدثر اور شہرام ملک کو زبردست پروٹو کول میں تھانہ سول لائن لے
کر آئے جہاں انہوں نے دونوں کی سی سی پی او سے ملاقات کرائی۔ سی سی پی او
لاہور اسلم ترین نے بتایا کہ انہوں نے دونوں افراد سے ملاقات کی ہے لیکن
کسی کو پروٹو کول نہیں دیا گیا۔
پولیس فیضان کے خلاف مزید ثبوت اکٹھے کر رہی ہے پولیس کے مطابق وہ شاہدرہ
میں ڈکیتی کے دو مقدمات میں مقدمہ نمبر391اور 800میں ملوث پایا گیا ہے
دونوں مقدمات ڈکیتی کی دفعات کے تحت درج ہیں پولیس ذرائع نے کہا کہ فیضان
کے مختلف نام ہیں سی آئی اے کینٹ نے ایک ڈکیت گینگ پکڑا تھا جنہوں نے خود
کو عمر حیدر عرف سی گروپ کا ساتھی قرار دیا تھا عمر حیدر عرف سی ہی فیضان
حیدر کا دوسرا نام ہے پولیس ذرائع کے مطابق فیضان وغیرہ کرائے کے مکان میں
رہتے تھے وہ اپنا گھر بدلتے رہتے تھے عمر حیدر دونوں مقدمات میں اشتہاری ہے
جبکہ فیضان کے لواحقین نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
یاد رہے اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ دونوں نوجوان واقعی ڈاکو تھے تو امریکی
اہلکار کی رہائی ممکن ہو گی کیونکہ پھر یہ ثابت کرنا آسان ہو گا کہ امریکی
اہلکار نے اپنے دفاع میں گولیاں چلائیں لیکن بہر حال پھر بھی اسے ناجائز
اسلحہ ، اور ممنوعہ گولیوں سمیت دیگر ہلکے کیسز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
لیکن پولیس کی اس ساری کہانی پر کچھ متنازعہ سوالات ضرور اٹھتے ہیں ایک تو
یہ کہ جس قدر خطرناک ڈکیت گینگ سے ان نوجوان کا تعلق بلکہ گینگ کا سربراہ
کہا گیا ہے اس کے حوالے سے اس ”واردات“ میں انتہا کی حد تک ”اناڑی پن“ ظاہر
ہوتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ شہرام اور ڈاکٹر مدثر حسن کی طرف سے ڈکیتی کی دو
درخواستیں اس حادثے کے اگلے روز دائر کی گئیں کہ ان سے موبائل چھینے گئے جس
نے اس معاملے کو نہ صرف مشکوک بنا دیا بلکہ اس سے مزید سوالات نے بھی جنم
لیا کہ کیا ڈکیتی کی یہ دونوں وارداتیں تھانہ لٹن روڈ کے علاقہ میں ہی ہونا
تھیں ؟ اور اگر یہ ڈکیتی واقعی ہوئی تھی تو ان لوگوں نے 15 پر کال کیوں
نہیں کی؟ اور یہ کہ دونوں افراد نے 27تاریخ کو متعلقہ تھانے میں درخواستیں
کیوں نہیں دیں؟
ڈاکٹر مدثر اور شہرام نے میڈیا کو بتایا کہ فیضان اور فہیم وہی لوگ ہیں
جنہوں نے ہم سے موبائل اور نقدی چھینی ہم نے میڈیا میں تصاویر دیکھ کر ان
کو شناخت کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر امریکی
اہلکار کو چھوڑ دیا جائے تب بھی اس کی مدد کے لیے آنے والی گاڑی میں سوا
وغیر ملکی بہر حال قانون کی زد میں آتے ہیں جنہوں نے ایک راہ گیر کو ہلاک
اور پانچ کو زخمی کر دیا اور نہ صرف ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ
معصوم شہریوں کے لیے موت کا پیغام بھی لائے۔ ان کی گاڑی کے نیچے آ کر ہلاک
ہونے والے عبدالرحمن کی اگلے ماہ شادی تھی اور وہ ”ڈکیت“ بھی نہیں تھا
ذرائع کے مطابق گاڑی اور اس میں سوار غیر ملکیوں کو امریکی کو نصلیٹ نے
پناہ دی لیکن جب پولیس اور تفتیشی ٹیم نے اس کی گاڑی اور اس کے ڈرائیور کی
حوالگی کا مطالبہ کیا تو امریکی حکام نے واضح طور پر تفتیشی ٹیم کو بتایا
کہ حادثہ میں نہ تو ان کی گاڑی تھی اور نہ ہی اس میں ان کے آفس کا آدمی تھا
ہمارا ایکسیڈنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قارئین! اب اصل امتحان حکمرانوں اور عدلیہ کا ہے بہت جلدی یہ بات سامنے
آجائے گی کہ کون پاکستان سے کتنا مخلص ہے اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ ہو جائے
گا کہ پولیس کی ”پھرتیاں“ فیضان اور فہیم کو ڈکیت ثابت کرتی ہیں یا نہیں؟
کیونکہ اگر انہیں کسی طرح ڈکیت ثابت کر دیا جائے تو امریکی اہلکار کا کیس
کمزور ہو جائے گا بہر حال یہ بات واضح ہے کہ اس نے دو قتل کیے ہیں جبکہ
عافیہ صدیقی نے صرف ارادہ کیا تھا اور اسے 83سال کی سزا ہو گئی تھی۔
امریکی اہلکار کے کو چھوڑنے کا مطالبہ کرنے والا امریکہ اعلیٰ سفارت کاروں
کو معاف نہیں کرتا!
ریمنڈ ڈیوس کے اس کیس کے حوالے سے تحقیقات کے دوران میرے سامنے ایک اہم
سوال یہ تھا کہ امریکہ جو ریمنڈ ڈیوس کے لیے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے
اور پاکستانی حکومت پر بھی براہ ِراست دباﺅ ڈال رہا ہے، کیا کبھی خود
امریکہ نے دوسرے ممالک کے سفارتکاروں کو استثنیٰ دیا؟ میرے سامنے جو
معلومات آئیں ان کے مطابق امریکہ نے اس قسم کے کیسوں میں کسی ملک کے سینئر
سفارت کاروں کو بھی اس طرح استثنیٰ نہیں دیا۔ یہاں تک کہ جارجیا کے نائب
سفیر کو 1997ءمیں واشنگٹن ڈی سی میں ایک امریکی شہری کی سڑک حادثے میں
ہلاکت پر 21سال قید کی سزا دی گئی۔1997ء کے اس کیس میں امریکی واشنگٹن میں
جب جارجینی سفیر نے امریکی نوجوان کو حادثے میں ہلاک کیا تھا تو اس وقت کے
صدر بل کلنٹن نے اسے سفارتی استثنیٰ دینے سے واضح انکار کر دیا تھا جس کی
بنا پر امریکی عدالت نے گریگوری مخاراٹزے کو 21سال کی سزا دی تھی۔ نیویارک
ٹائمز کے مطابق امریکہ نے جارجیا کی حکومت پر اپنے سفارت کار کو سفارتی
استثنیٰ نہ دلوانے کے لیے شدید دباﺅ بھی ڈالا تھا حالانکہ یہ ایک حادثہ
تھا۔ اسی طرح جواباً کاروائی میں جارجیا کی حکومت نے 1999ءمیں امریکی سفارت
کار لورین ویلے کو ٹریفک حادثے میں جارجین مترجم کی ہلاکت پر سفارتی
استثنیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا اور اسے 10سال کی سزا سنائی تھی۔ اسی طرح
قتل عمد پر واشنگٹن کاردعمل اس وقت بھی ویسا ہی تھا جب اقوام متحدہ میں
پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم اپنی خاتون دوست کے کیس میں ملوث ہوئے۔
اسی طرح 1982ءمیں ایک بہت معمولی کیس میں شمالی کوریا کے ایک سفارت کار نے
نیویارک شہر کے باہر ریسٹ چیئرپارک میں ایک خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور
بعدازاں معمولی جرم کے اعتراف تک 10ماہ اپنے ملک کے لورین مشن میں پناہ لیے
رکھی اور پھر ملک چھوڑا۔ پاکستان میں ماہرین امریکہ کی طرف سے اپنے قونصلیٹ
کے تکینکی معاون کے لیے سفارتی استثنیٰ کے مطالبے پر حیرت زدہ ہیں جس کے
باقاعدہ طور پر اپنے اسلحے سے پاکستانی نوجوانوں کو قتل کر دیا جبکہ دوسری
طرف امریکہ نے سڑک حادثات میں بھی کبھی سفیر کو استثنیٰ نہیں دیا۔
قارئین! امریکی اہلکار نے 27جنوری کی شام یہ قتل کیے جبکہ30جنوری تک ہر
صورت مجھے یہ رپورٹ فائل کرنی تھی اس لیے مجھے اپنی تحقیقات بہت تیزی سے
مکمل کرنی پڑی میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں اس کیس پر اپنی تحقیقات مکمل
کر چکا ہوں کیونکہ ابھی بہت سے انکشافات متوقع ہیں اور اس کیس کی نوعیت کسی
بھی وقت بدل سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مکمل کیس ہی بدل دیا جائے۔
لہٰذا میری تحقیقات ابھی جاری ہیں البتہ میرے پاس جتنا مختصر وقت تھا اس
میں ایک مختصر مگر جامع رپورٹ قارئین تک پہنچانے کے لیے میں بھرپور کوشش کی
میرے پاس محض ایک آدھ دن تھا جس میں یہ رپورٹ مکمل کرنی تھی ہمیشہ کی طرح
آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین ۔ |