تین صحافی تین کتابیں

کہا جاتا ہے کتاب سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہوتا۔ گویا کتاب لکھنے والا بھلے دوست ہو نہ ہو اس کی کتاب دوست ضرور ہوسکتی ہے اگر لکھنے والے نے اپنی کتاب کے ساتھ ’حق دوستی‘ ادا کیا ہو تو لوگ بھی ایسی کتابوں کو دوست رکھتے ہیں۔ بعض لوگ تو کتاب لکھ بیٹھیں تو پھر چھپتے پھرتے ہیں کہ قاری ان کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں کہ یہ بندہ ہے کون جس نے اپنا وقت بھی ضائع کیا ہے اور قاری کا بھی۔ کاغذ اور چھپائی کا خرچ اس کے علاوہ ہے۔ لیکن بعض کتابیں یقیناً ایسی ہوتی ہیں کہ اُن سے محبت ہوجاتی ہے اور لکھنے والے کا احترام بھی بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کا سفر نامہ بھارت ’مندر میں مہراب‘ ایک ایسی ہی کتاب ہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کے لکھے ہوئے الفاظ قاری کو اپنی نغمگی میں سمو لیتے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ ان کے حرف قاری کے ساتھ سفر کرتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ آج میرے سامنے چند ایسی کتابیں پڑی ہیں جنہیں پڑھ کر احساس ہوا کہ میں نے انہیں پہلے کیوں نہیں پڑھا لیکن پھر ساتھ ہی خیال آیا کہ یہ پہلے شائع ہی نہیں ہوئیں تو پڑھتے کیونکر! بہرکیف بعض کتابیں جو شائع نہیں ہوتیں زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں میں اس وقت ان کتابوں جو شائع ہی نہیں ہوئی‘ پر تبصرہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ اس وقت جو تین انتہائی خوبصورت کتابیں میرے سامنے ہیں وہ معروف صحافی جناب عقیل یوسف زئی کی ”آپریشن ناتمام“ ‘سینئر صحافی ریاض احمد چودھری کی ”ہندوستان کا اصل چہرہ“ اور کاشف رضوی کی ”پاکستانی زبانیں“ ہیں۔

تینوں قلمکاران اپنا اپنا اسلوب اور منفرد انداز بیان رکھتے ہیں جناب عقیل یوسف زئی نے ”آپریشن ناتمام“ کا انتساب واد· سوات کے معصوم فرشتوں ملالہ یوسف زئی‘ مثال خان اور ابدال خان کے نام کیا ہے کہ جو طویل عرصے تک اپنے اپنے گھر دیکھنے سے محروم رہ کر بھی امن اور محبت کی وکالت کرتے رہے“ یہی انتساب قاری کو گہری سوچوں میں لے جاتا ہے کہ کس طرح اہل سوات کو اپنے ہنستے بستے گھروندے چھوڑ کر بے گھر ہونا پڑا۔ انہوں نے سوات میں امن کی چنگاری روشن کرنے کے لئے بلاشبہ نہ صرف جانی بلکہ مالی قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جناب عقیل یوسف زئی نے اس کتاب میں جہاں شدت پسندی کے فروغ کے عوامل اور شدت پسندوں کے نیٹ ورک کے حوالے سے سیر حاصل روشنی ڈالی ہے وہاں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں ایسے عناصر کی نشاندہی بھی کی ہے جو پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں ان کی کتاب میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس کا ایک انٹرویو بھی شامل ہے۔ ان کے حوالے سے عقیل یوسف زئی لکھتے ہیں ”میجر جنرل اطہر عباس نہ صرف یہ کہ متحرک شخصیت ہیں بلکہ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دوسروں کے برعکس میڈیا کے لئے آسانی سے دستیاب ہو کر میڈیا اور فورسز کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردار احسن طریقہ سے نبھاتے دکھائی دیتے ہیں وہ کسی بھی سوال کا نہ صرف یہ کہ بُرا نہیں مناتے بلکہ وہ جامع اور موثر طریقے سے مدمقابل کے سوالات یا خدشات کا اعدادو شمار اور حقائق کے تناظر میں جواب دیتے ہیں۔ ان کی کارکردگی‘ روئیے اور فرینڈلی اپروچ نے ان کی شخصیت کو متعلقہ حلقوں میں کافی مقبول بنا دیا ہے“ بلاشبہ مجوزہ انٹرویو سے موجودہ جاری صورت حال کے حوالے سے ذہن کے نہاں خانوں میں موجود اکثر و بیشتر گتھیاں سلجھ جاتی ہیں۔ ’آپریشن ناتمام‘ کے ایک باب ’کیا پشتون واقعی انتہا پسند ہیں؟ میں عقیل یوسف زئی لکھتے ہیں ”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کی اکثریت پشتون آبادی پر مشتمل تھی تاہم اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ سب پشتونوں یا اکثریتی پشتونوں کو طالبان ہی قرار دے دیا جائے۔ اگر القاعدہ کے پس منظر میں سارے عربوں کو انتہا پسند قرار دینے کی کوئی شعوری کوشش اب تک سامنے نہیں آئی تو پشتونوں کو طالبان یا انتہا پسند قرار دینے کے تصور کو محض غلط بیانی یا یکطرفہ پروپیگنڈے کے سوا دوسرا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا“۔ جناب عقیل یوسف زئی نے جس طرح ’آپریشن ناتمام‘ میں حقائق و واقعات کھول کھول کر قارئین کے سامنے رکھے ہیں وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ کتاب پڑھنے اور خصوصاً حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھنے والے قارئین اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔ بلاشبہ عقیل یوسف کی ’آپریشن ناتمام‘ موضوع کے اعتبار سے ایک حوالہ جاتی کتاب کے طور پر تسلیم کی جائے گی۔ کتاب نگارشات پبلشرز‘ مزنگ روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔

دوسری کتاب جو اس وقت میرے سامنے ہے اور میں اسے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں وہ ہے ریاض احمد چودھری کی ”ہندوستان کا اصل چہرہ“ ہے۔ ریاض پبلشرز کیولری گراﺅنڈ لاہور کی شائع کردہ یہ کتاب بھی اس حوالے سے بہت معتبر رنگ لئے ہوئے ہے کہ اس نے پڑوسی ملک کی جانب سے پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کے حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح بھارت کشمیر میں ظلم و بربریت روا رکھے ہوئے ہے اور بھارت جو خود مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے دیگر ممالک پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر بین الاقوامی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ کس طرح بھارت شرپسند عناصر کے ذریعے پاکستان میں تخریبی اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کے مصنف جناب ریاض احمد چودھری جو لگ بھگ پچپن سالوں سے صحافتی شعبے سے وابستہ ہیں ان دنوں اپنی آپ بیتی پر کام کررہے ہیں۔ گویا قارئین ان کی اس وسیع تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آس بھی رکھیں کہ مزید سیاسی و صحافتی مشاہدات اور انکشافات آیا ہی چاہتے ہیں۔

تیسری کتاب پاکستانی زبانوں کے حوالے سے ایک نادر اور نایاب کتاب ہے۔ سید کاشف علی رضوی کی کتاب جس کا نام ’پاکستانی زبانیں‘ ہے بلاشبہ پاکستان کی تاریخ‘ ثقافت‘ مختلف زبانوں کے ارتقاء اور پاکستان کے ادبی محاذ پر ایک گراں قدر خدمت ہے۔ سید کاشف علی رضوی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ انگریزی‘ اردو‘ عربی‘ فارسی‘ روسی‘ پشتو‘ سندھی اور پنجابی زبانیں لکھنا پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں۔ گویا وہ ’پاکستانیت‘ کے جذبے میں گُندھے ہوئے نوجوان ہیں۔ کتاب کا سرورق انہوں نے اپنی والدہ اور معروف صحافی دادا محترمہ شہناز تاتاری کے نام کیا ہے۔ اس کتاب کی تکمیل کے سلسلے میں معروف دانشور‘ شاعر‘ محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی معاونت بھی انہیں حاصل رہی۔ سید کاشف علی رضوی نے ’پاکستانی زبانیں‘ کے ذریعے اہل پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم اردو کے قارئین کے لئے پاکستانی زبانوں کے حوالے سے ایک ایسا ذخیرہ ترتیب دیا ہے جس کی ایک مستقل اہمیت ہے اور یہ ایسی کتاب ہے جو آئندہ آنے والے وقتوں میں بھی ایک خاص اہمیت کی حامل رہے گی کہ انہوں نے پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کے حوالے سے ایک بیش قیمت دستاویز تیار کردی ہے۔ اس کتاب میں قومی زبان اردو‘ براہوی‘ بلوچی‘ بروشکی‘ بلتی‘ پنجابی‘ پشتو‘ پوٹھواری‘ توروالی‘ سندھی‘ سرائیکی‘ شنا‘ کشمیری‘کھوار‘ گوجری‘ وخی‘ ہندکو اور بعض دیگر زبانوں کے حوالے سے دلچسپ حقائق سے اپنے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔ مجوزہ کتاب اپنی اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے اس امر کی متقاضی ہے کہ یہ کتاب کم از کم پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں ضرور موجود ہو کہ نئی نسل کو پاکستان میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے متعلق روشناس کرایا جاسکے۔ سید کاشف رضوی نے ایک صحافی ہونے کے باوجود خالصتاً ایک ادبی اور تحقیقی کام کر دکھایا ہے جس کے لئے وہ حد درجہ ستائش کے لائق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں ادب سے لگاﺅ اور اس کی خدمت کا جذبہ اپنی والدہ محترمہ سے ورثے میں ملا ہے۔قومی اور علاقائی زبانوں کے حوالے سے کام کی سرپرستی قومی اور حکومتی سطح پر کئے جانے کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ‘ ایس ایم ایس اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں کتاب اور لائبریری کی اہمیت ہمارے ملک کی حد تک شائد ضرور کم ہوئی ہے۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا تینوں کتابوں کے مصنفین کا تعلق شعبہ صحافت سے ہے۔ جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ صحافتی شعبے سے وابستہ افراد اپنی صحافتی خدمات کے ساتھ ساتھ علمی‘ ادبی‘ ثقافتی اور تحقیقی میدان میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو ایک خوش آئند امر ہے۔
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 94165 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.