پاکستان گذشتہ دو دہائیوں سے توانائی کے بحران کا شکار
ہے۔ ایک وقت تھا کہ ملک کی توانائی کی زیادہ تر ضروریات ہائیڈل پاور سے
پوری ہو جاتی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بجلی کی مانگ میں اضافہ ہوتا
گیا جب کہ بجلی کی پیدوار بڑھانے پر کوئی سنجیدہ توجہ نہ گئی۔
بجلی کے بحران کا ابتدا
2007 کے بعد بجلی کی طلب اور فراہمی کے فرق نے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر
لی، جس سے نمٹنے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف علاقوں کی بجلی بند رکھی
جانے لگی، جسے لوڈشیڈنگ کا نام دیا۔ پھر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ بجلی کی
شدید طلب کے مہینوں میں روزانہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہونے
لگی۔
رینٹل پاور پلانٹس
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بجلی کے بحران سے فوری اور عارضی
سدباب کے لیے رینٹل پاور کے پراجیکٹ شروع کیے گئے کیونکہ نئے بجلی گھروں کی
تعمیر کے لیے زیادہ وقت اور زیادہ سرمایہ درکار تھا جب کہ کرائے کے بجلی
گھروں سے بجلی کی جلد فراہمی ممکن تھی۔ لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ تھی
کیونکہ اس کی تیاری میں تیل استعمال کیا جاتا تھا جس کے دام اس زمانے میں
آسمان کو چھو رہے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ حکومت نے مہنگے داموں بجلی
خرید کر صارفین کو رعائتی نرخوں پر فراہم کرنی شروع کی۔
دوسری جانب مستقل بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے سوچا جانے لگا کیونکہ حکومت
معاہدے کے مطابق بجلی نہ لینے کی صورت میں بھی کرائے کے بجلی گھروں کو ایک
خاص رقم ادا کرنے کی پابند تھی جو خزانے پر اضافی بوجھ تھا۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت چونکہ صوبوں کو بہت سے اختیارات حاصل ہو گئے تھے تو
پنجاب نے، جس پر مسلم لیگ نون کی حکومت تھی اور اس کے مرکز میں پیپلز پارٹی
کی حکومت سے اچھے تعلقات نہیں تھے، اپنا بجلی گھر قائم کرنے کا منصوبہ
بنایا۔
نندی پور پاور پلانٹ
نئے بجلی گھر کے لیے گوجرانوالہ کے نزدیک نندی پور کا مقام منتخب کیا گیا۔
اس پاور پلانٹ سے ابتدائی طور پر 425 میگاواٹ بجلی بنائی جانی تھی جسے
بتدریج 525 میگاواٹ تک بڑھایا جانا تھا، اس کی تعمیر کے لیے چین کی ایک
کمپنی ڈائنا ڈونگ فینگ الیکٹرک کارپوریشن کو ٹھیکہ دیا گیا۔
منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 27 ارب روپے تھا۔ پنجاب حکومت نے چائنا ڈونگ فینگ
کو 23 ارب روپے کا کنٹرکیٹ دیا۔ بدقسمتی سے یہ کمپنی پاکستان میں بلیک لسٹ
تھی جس کی وجہ سے وزارت پانی و بجلی اور وزارت قانون و انصاف میں جنگ شروع
ہو گئی۔
نندی پور پاور پلانٹ کا تنازع
وزارت قانون نے اس منصوبے کو پیپرا رولز کی خلاف ورزی قرار دے دیا پیپرا
(پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی) وہ ادارہ ہے جو پانچ کروڑ روپے سے
زائد مالیت کے منصوبوں میں شفافیت کا جائزہ لیتا ہے اور بین الاقوامی
ٹینڈرز اور کنٹریکٹ ایوارڈ کے تمام معاملات دیکھتا ہے۔ وزارت قانون کے
مطابق پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے یہ پراجیکٹ
چائنا ڈونگ فینگ کو ایوارڈ کر دیا۔
سرکاری محکموں کے درمیان یہ لڑائی دو سال تک جاری رہی اور اس عرصے کے دوران
کراچی پورٹ پر 85 ملین ڈالر کی مشینری پڑی زنگ آلود ہو تی رہی۔ ستمبر 2012
میں چینی کمپنی کے سربراہ نے یہ کہتے ہوئے کنٹریکٹ منسوخ کر دیا کہ ان کی
کمپنی کو 85 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
2013 میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے برسراقتدار آنے کے بعد اس منصوبے پر
پھر آوازیں اٹھائی جانے لگیں جس پر حکومت نے چینی کمپنی ڈونگ فینگ سے
دوبارہ مذاکرات شروع کیے اور اس نے کام کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔
نندی پور پاور پلانٹ کی تکمیل
جولائی 2013 میں چینی ماہرین کراچی پہنچے اور مشینری کا معائنہ کیا۔ وقت
گزرنے کے ساتھ لاگت میں اضافہ ہونے کے بعد 27 ارب روپے کا یہ منصوبہ 57 ارب
روپے تک جا پہنچا۔، لیکن حکومت نے اسے جاری رکھا۔ 31 مئی 2014 کو پاور
پلانٹ کی تکمیل مکمل ہونے کی نوید سناتے ہوئے اس کا افتتاح کر دیا گیا۔
لیکن پاور پلانٹ مطلوبہ بجلی کرنے میں ناکام رہا۔ اور صرف پانچ روز چلنے کے
بعد اسے بند کر دیا گیا۔ اس دوران اس سے صرف 95 میگاواٹ بجلی ہی حاصل ہو
سکی۔
نندی پور پاور پلانٹ کیوں بند ہوا
پاور پلانٹ سے توقعات پوری نہ ہونے کی ذمہ جہاں سیاست دان ایک دوسرے پر
ڈالتے رہے وہاں اس کی ایک وجہ پلانٹ کے عہدے داروں کی نااہلی بھی قرار دی
گئی۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ پراجیکٹ کی مشینری فرنس آئل کے لیے
ڈیزائن کی گئی تھی اور اسے گیس پر بھی چلایا جا سکتا تھا۔
نندی پور پاور پلانٹ کی مرمت کیوں روکی گئی
لیکن انجینئرز نے پلانٹ کو کروڈ آئل سے چلانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں
56 ارب روپے مالیت کی ٹربائن صرف پانچ روز چلنے کے بعد تباہ ہو گئی۔ ٹربائن
کی مرمت ڈونگ فینگ کمپنی ہی کر سکتی تھی جس میں 6 سے 8 مہینے کا عرصہ لگ
سکتا تھا۔ مرمت کا کام اس لیے بھی روک دیا گیا کیونکہ نندی پور پاور پلانٹ
سے حاصل ہونے والی بجلی 42 روپے فی یونٹ پڑ رہی تھی جو ملک کی مہنگی ترین
بجلی تھی۔ اس قیمت پر بجلی بنانا کسی طور بھی سود مند نہیں تھا۔ لہذا نندی
پور ایک ایسا منصوبہ ثابت ہوا جو اپنے افتتاح کے ساتھ ہی بند کرنا پڑا۔
پلانٹ کی انکواری اور آڈٹ
نندی پور پاور پلانٹ کی بندش کے بعد تحقیقات اور آڈٹ کا ایک طویل سلسلہ
شروع ہوا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے دو مختلف آڈٹ کرانے کا فیصلہ
کیا، جن میں سے ایک بین الاقوامی آڈٹ فرم اور دوسرا آڈیٹر جنرل آف
پاکستان کے ذریعے کرنے کا حکم دیا۔
آڈٹ میں مختلف نوعیت کی سنگین بدعنوانیاں سامنے آئیں، جن میں مینجنگ
ڈائریکٹر کی تعیناتی سے لے کر گھٹیا معیار کے فرنس آئل اور کروڈ آئل کا
استعمال شامل تھا۔
2016 میں پلانٹ کے ریکارڈ کو مبینہ طور پر آگ لگ گئی اور کمپیوٹرز میں
موجود اہم ریکارڈ ضائع ہو گیا۔ حتی کہ کمپیوٹر کے بیک اپ ریکارڈ کو بھی
ضائع کر دیا گیا جس کا مقدمہ صرف دو گارڈز پر درج کیا گیا۔ ریکارڈ ضائع
ہونے کی وجہ سے کرپشن کے زیادہ تر ثبوت ضائع ہو گئے۔ بعد میں گارڈز نے چیف
سیکیورٹی افسر کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کو آگ اس کے کہنے پر
لگائی تھی۔ چیف سیکورٹی افسر اب جیل میں ہے۔
نیب کی تحقیقات
اس کیس سے متعلق اطلاعات اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ پر 2015 میں
قومی احتساب بیورو نے اپنی تحقیقات شروع کیں۔ لیکن نیب کو تحقیقات میں کئی
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ حکام کی طرف سے نہ تو تعاون کیا گیا اور
نہ ہی مطلوبہ ریکارڈ فراہم ہو سکا۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اکتوبر 2017 میں نیب کو باقاعدہ
تحقیقات کا حکم دیا جس کے بعد دسمبر 2017 میں نیب نے سابق وزیراعظم راجہ
پرویز اشرف اور اس وقت کے وزیر قانون بابراعوان اور سیکرٹری قانون مسعود
چشتی سمیت سات افراد کے خلاف اس پلانٹ کی تعمیر میں تاخیر کا ریفرنس فائل
کیا جس میں اب عدالت نے ان افراد پر فردم جرم عائد کر دی ہے۔
نندی پور پاور پلانٹ اور بابراعوان
نیب کی تحقیقات میں پاور پلانٹ کی لاگت میں بے پناہ اضافے کا ذمہ دار بابر
اعوان کو قرار دیا گیا ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ پلانٹ کی تعمیری لاگت میں
اضافہ اس وجہ سے ہوا کہ وزارت قانون نے ایک فارم جاری کرنا تھا جو نہیں کیا
گیا۔ اس دور میں بابر اعوان وفاقی وزیر قانون تھے۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے
میں چار بار سمری وزارت قانون کو بھیجی گئی، لیکن جان بوجھ کر تاخیری حربے
استعمال کیے گئے۔
کبھی فرنس آئل اور کبھی ڈیزل اور کبھی کروڈ آئل، اس پلانٹ کو چلانے کے
لیے حکومت نے مختلف کوششیں کی جس کے بعد سال 2017 میں نندی پور پلانٹ کو
آخرکار ایل این جی پر چلانے کا فیصلہ کیا گیا اس مقصد کے لیے ابھی کام جاری
ہے اور جلد اس کو ایل این جی پر منتقل کر دیا جائے گا۔ |