دانش اسکول----چند غور طلب پہلو

دانش سکولوں کا ایک رخ تو بہت نمایا ں اور اہم ہے کہ وزیراعلٰی ان کے معاملے میں نہایت جذباتی ہیں، ان سکولوں کی مخالفت میں وہ ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتے، اس کا اظہار انھوں نے حاصل پور میں دانش سکول کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں دو مرتبہ کیا ،کہ”مجھے طعنہ دیا جاتا ہے کہ میں غریبوں پر کروڑوں روپے کیوں خرچ کررہا ہوں“انھوں نے قسم کھا کر زندگی بھر اس ”جرم “ کو جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔حالانکہ اعتراض غریبوں پر کروڑوں خرچ کرنے پر نہیں بلکہ سرکاری سکولوں کی حالت ِ زار کی بنا پر ہے ۔ لیکن حکمرانوں کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ تنقید برائے اصلاح کو بھی برداشت نہیں کرتے، اگر کسی جگہ دس بچے ہوں اور وہ بھوک کی شدت سے نڈھال ہوں ، تو ان میں سے ایک کو پانچ ڈشوں پر مشتمل فائیو سٹار قسم کاک ھانا دے دیا جائے اور باقی نو بچے ایک لقمے سے بھی محروم رہ جائیں تو اس رویے کو کیا نام دیا جائے گا؟

میاں شہباز شریف نے تعلیمی میدان میں اربوں روپے کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں، ان کے اثرات کتنے دیر پا ہوں گے اور کتنے وسیع پیمانے پر رونما ہوں گے اس موضوع کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن حکومت پنجاب کے تحت چلنے والا ایک خود مختارادارہ ہے ، جو کم فیس والے پرائیویٹ سکولوں کی مالی معاونت کرتا ہے، اس سے الحاق شدہ سکولوں کی تعداد 18سو سے تجاوز کرچکی ہے ،اس میں مفت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد آٹھ لاکھ تک ہے۔فاؤنڈیشن ہر سال اپنے سکولوں کے بچوں کا دو مرتبہ امتحان لیتی ہے، وقتاً فوقتاً ان سکولوں کی مانیٹرنگ ہوتی رہتی ہے، فاؤنڈیشن کا کوئی اہلکار کسی سکول سے سادہ پانی پینے کا’جرم‘ بھی نہیں کرسکتا، اگر ایسے جرم کا مرتکب ہوجائے تو اسے اس کی پاداش میں ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں،یہ عام گلی محلے کے سکول بہترین نتائج دے رہے ہیں۔فاؤنڈیشن کے سلسلے کو اور بھی وسیع کر کے اس میں کم خرچ پر زیادہ بچوں کو زیادہ معیاری تعلیم دی جاسکتی ہے۔

بہاول پور میں چولستان لاکھوں ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے،اس کے ایک طرف بھارت کی سرحد اور تین اطراف میں رحیم یار خان ، بہاول پور اور بہاولنگر کے اضلاع واقع ہیں، یہ تینوں اضلاع مل کر بہاول ڈویژن بناتے ہیں۔ وزیراعلٰی نے پہلے دانش سکول کا افتتاح رحیم یار خان میں کیا ہے ،دوسرے کے بہاول پور کی تحصیل حاصل پور میں اور اب تیسرے کا بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں میں ہوگا۔ چولستان چونکہ صحرائی علاقہ ہے ، اس لئے تعلیمی سہولتوں سے محروم ہے ، کچھ عرصہ قبل میاں شہباز شریف نے چولستان کی قسمت جگانے کا فیصلہ کیا،ان کی خواہش کے مطابق ”پڑھا لکھا چولستان پراجیکٹ “شروع کیا گیا، طے پایا کہ قریب تر علاقے سے اساتذہ لئے جائیں گے ،سینئر ٹیچر کی تنخواہ 5ہزار اور جونیئر کی 25سو طے ہوئی، سکول کے لئے عمارت کا بندوبست وہاں کے لوگوں کے ذمے تھا۔

سکول قائم ہوگئے ،جس کو جو عمارت ملی وہیں پر اس نے علم کی شمع روشن کر لی، دیکھتے ہی دیکھتے ان 75سکولوں میں بچوں کی تعداد 53سو سے تجاوز کر گئی۔ یہ سکول جنوری 2010ء میں شروع ہوئے تھے ،ان کے اساتذہ کو باقاعدہ سرکاری طریقے سے بھرتی کیا گیا تھا۔ مگر یہ انکشاف شاید سب کے لئے حیران کن ہو کہ ایک سال مکمل ہونے کے باوجود ان میں سے کسی ایک ٹیچر کو ایک بھی تنخواہ نہیں ملی، معاملہ لاہور کی فنانس منسٹری میں ہے ، یا پی این ڈی یا کسی اور کے پاس ، یہ بھی بعید نہیں کہ خود وزیراعلٰی کی میز پر ہی ہو۔3فروری کو جب میاں شہباز شریف حاصل پور میں دانش سکول کا افتتاح کرنے آئے تھے ، اس موقع پر یہ چولستان کو ”پڑھا لکھا “بنانے والے یہ اساتذہ اپنے سکولوں کے بانی وزیراعلٰی سے اپنی سال بھر کی کمائی کی بھیک مانگنے آئے تھے ،مگر پروٹوکول اور سیکورٹی کے مسائل نے انہیں منظر پر نہیں آنے دیا، کیا وزیراعلٰی ان غریب اساتذہ پر بھی توجہ فرمائیں گے؟ان اساتذہ کی سال بھر کی تنخواہ 67لاکھ پچاس ہزار بنتی ہے جبکہ دو دانش سکولوں کے افتتاح پر کم از کم 70لاکھ روپے خرچ ہوئے۔

دانش سکول نہایت ہی ہنگامی حالت میں قائم کئے گئے ہیں، داخلے بھی اسی طرح کئے گئے ہیں ،دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سکولوں میں مساجد کا وجود نہیں ہے،حالانکہ یہ اقامتی سکول ہیں، اور ان میں داخل بچوں پر نماز فرض ہوچکی ہے ۔ 60کروڑ کی ایک عمارت میں پر شکوہ مسجد بھی لازمی ہونی چاہئے تھی۔ ایک اور خطرناک بات جو سامنے آئی ہے کہ حاصل پور والے سکول سے دس طلباء کو فارغ کردیا گیا ہے ، معلوم ہوا کہ ان کی حرکات وسکنات سے اندازہ ہوا کہ ان کی عمریں 13سال سے زائد ہیں ۔ اول تو داخلے کے وقت انتظامیہ کو اندازہ لگانا چاہئے تھا ، دوسری بات یہ ہے کہ اگر تیرہ سال سے زائد عمر کے بچوں کی حرکات وسکنات مشکوک ہیں،تو آنے والے سالوں میں کیا بنے گا جب بچے میٹرک تک کی عمر کے ہونگے؟اور جن بچوں کو سکول سے نکال دیا گیا ہے ، اب ان کا مستقبل کیا ہے ، وہ اب پھر انہی سکولوں میں جا داخل ہونگے جہاں سے آئے تھے ، ان پر کیا بیتے گی؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.