سیکھنے کا آغاز کیسے ؟

تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی

سیکھنے کا آغاز کیسے؟

سیکھنے کا آغاز سوال سے ہی ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تدریس کوئی عام کام نہیں، بلکہ ایک فن ہے۔ بچوں کو صحیح انداز سے پڑھانا اور ان کی شخصیت کو مکمل طور پر نکھارنا استاد کے لیے ایک اہم اور کٹھن ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس بارے میں ایک واقعہ بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔

جب سکندر نوجوانی کے دور میں تھا تو وہ ارسطو جیسے عظیم استاد سے علم حاصل کرتا تھا۔ ارسطو ہمیشہ شاگردوں کو نصیحت کرتا کہ وہ باتوں کو صرف سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ سوالات بھی ضرور اٹھائیں کیونکہ سیکھنے کا پہلا قدم یہی ہے کہ انسان سوال کرنے کی ہمت دکھائے۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ سوال پوچھنے والا ہی اصل طالب علم ہے، اور جو کچھ نہیں سمجھتا وہ کبھی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔

تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ جب بھی شاگرد ارسطو سے سوال کرتے تو وہ کبھی سیدھا جواب نہ دیتا، بلکہ جواب میں بات کو ایک الگ سمت دے دیتا۔ سکندر کو یہ رویہ کئی مرتبہ ناگوار گزرا، یہاں تک کہ ایک دن اس کا صبر جواب دے گیا۔ سکندر، جو بظاہر بہت سمجھدار اور معاملہ فہم تھا، ارسطو کے پاس گیا، اُس وقت ارسطو اپنی کتابیں پڑھنے میں مصروف تھا۔ سکندر نے زور دار آواز میں استاد سے مخاطب ہو کر کہا،“آپ ہمیشہ تاکید کرتے ہیں کہ سوال کرنا چاہیے، لیکن جب ہم آپ سے سوال کرتے ہیں، تو آپ ہمیں واضح اور مکمل جواب کیوں نہیں دیتے؟”

ارسطو نے بڑے تحمل اور سکون سے جواب دیا، "میرا مقصد یہ نہیں کہ میں تمہیں سیدھے سادے اور حتمی جوابات دے دوں۔ میں تمہاری سوچ کو جگانا اور بھڑکانا چاہتا ہوں۔ اگر میں ہر سوال کا حتمی اور مکمل جواب فوراً دے دوں گا تو تمہاری سیکھنے کی طلب اور تلاش مر جائے گی، اور تم ہر بات کو حرف آخر سمجھنے لگو گے۔ میرے جوابات تمہارے ذہن کے دروازے کھولنے کے لیے ہیں، انہیں بند کرنے کے لیے نہیں۔"

یہ چھوٹا سا واقعہ آج کے تمام اساتذہ اور والدین کے لیے بھی بہت بڑا سبق ہے۔ جو استاد اپنی رائے کو حتمی ماننے اور صرف اپنی سوچ تھوپنے کی کوشش کرے، وہ شاگرد کی ذہانت اور سوچ کو محدود کر دیتا ہے۔ اصل استاد تو وہ ہے جو شاگرد کے ذہن میں سوالات، جستجو اور تحقیق کا سفر روشن کرے، تاکہ وہ آگے بڑھ سکے۔

اکیسویں صدی میں سوالات کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ آج کے دور میں علم کا سمندر بہت وسیع ہو چکا ہے اور حقائق تک پہنچنے کے لیے صرف موجودہ علم کافی نہیں۔ سوالات ذہن میں تجسس اور تحقیق کی فضا پیدا کرتے ہیں، جس سے نئی راہیں، اختراعات اور ایجادات جنم لیتی ہیں۔ اب ہر دور سے زیادہ ضرورت ہے کہ اساتذہ اور والدین بچوں کو سوال پوچھنے کی حوصلہ افزائی کریں، تاکہ ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں بھی پروان چڑھیں اور وہ معاشرتی شعور بھی حاصل کر سکیں۔ سوالات سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ سوچنے کے نت نئے زاویے بھی ملتے ہیں۔

اگر ہم سوال نہ پوچھیں تو بہت سی باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں، اور ہم انہیں سمجھ نہیں سکتے یا غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے سیکھنے اور آگے بڑھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ سوال نہ کرنا انسان کے اندر تجسس اور تحقیق کے رجحان کو کمزور کر دیتا ہے اور وہ نئے حل یا راستے تلاش کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ سوالات نہ کرنے والے افراد عموماً سیکھنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، اور کئی بار وہی غلطیاں دہراتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں ڈر یا جھجک بیٹھ جاتی ہے، جس سے ان کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔ جب غلط معلومات کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں تو نتائج اکثر درست نہیں نکلتے۔ ایسے لوگ شخصیت اور کردار کے لحاظ سے بھی کمزور سمجھے جاتے ہیں، اس لیے کہ علم اور ترقی کی بنیاد ہی سوال کرنے پر ہے۔

 

Dr-Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Dr-Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Dr-Muhammad Saleem Afaqi: 37 Articles with 51366 views
Dr. Muhammad Saleem Afaqi is a prominent columnist and scholar from Nasar Pur, GT Road, Peshawar. He earned his Ph.D. in Education from Sarhad Unive
.. View More