ماں اور موبائل

دُرود شریف کی فضیلت
نبیِّ معظَّم، رسولِ محترم، سلطانِ ذِی حشم، سراپا جُود و کرم، حبیبِ مُکرَّم،محبوبِ ربِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مسلمان جب تک مجھ پر درود شریف پڑھتا رہتا ہے فِرِشتے اُس پر رَحمتیں بھیجتے رہتے ہیں اب بندے کی مرضی ہے کم پڑھے یا زیادہ )اِبن ماجہ ج۱ ص۴۹۰ حدیث ۹۰۷دارالمعرفۃ بیروت
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!
"دنیا میں اللہ اور رسولِ پاک ﷺ کے بعد اگر کوئی ذات ہے جو بے لوث محبت کرتی ہے، تو وہ صرف ماں کی ذات ہے —۔
"کسی بھی انسان کی سب سے پہلی تربیت گاہ اُس کی ماں ہوتی ہے۔ اور اگر سچ پوچھیں تو جب ایک بچہ ماں کے رحم میں آ جاتا 'ہے، تو ماں اپنی خوراک اور پینے کی چیزوں کا خاص خیال رکھتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر اُس نے کوئی غیر مناسب غذا کھائی، تو اس کا اثر اُس کے پیٹ میں پلنے والے بچے پر پڑ سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح ماں کی ذاتی سرگرمیوں کا اثر بھی اُس کے پیٹ میں موجود بچے پر پڑتا ہے۔"
"اگر ہم اپنے اسلاف کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے ان بزرگوں اور اولیائے کرام کی ماؤں کے کردار، عادات اور اطوار کو دیکھیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تمام اولیائے اللہ اپنے علم و عمل کی بدولت بلند مقام پر فائز ہوئے، لیکن اس سے پہلے ان کی ماؤں کے نیک اعمال، پاکیزہ سوچ اور اعلیٰ تربیت نے ان بزرگانِ دین کو عظمت اور بلندی عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اگر میں چاہوں تو بہت سے اولیائے اللہ کی ماؤں کی سیرت اور کردار بیان کر سکتا ہوں، جن کے اثرات ان کے شکم میں موجود ان ولیوں پر پڑے، جیسا کہ ہمیں تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ لیکن یہاں میں تمام اولیائے اللہ کے سردار، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی والدہ کا واقعہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں، تاکہ آپ لوگوں کو اندازہ ہو جائے کہ ایک ماں کی نیک سوچ اور پاکیزہ کردار کا اثر اُس کے شکم میں موجود بچے پر کس حد تک پڑتا ہے۔
پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بِسْمِ اللّٰہ پڑھنے کی رَسم کے لیے کسی بُزُرگ کے پاس بیٹھے تو اَعُوذاوربِسْمِ اللّٰہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور الٓمّٓ سے لے کر اٹھارہ پارے پڑھ کر سنا دئیے۔ اُن بُزُرگ نے کہا: بیٹے! اورپڑھئے۔ فرمایا: بس مجھے اِتنا ہی یادہے کیوں کہ میری ماں کو بھی اِتنا ہی یاد تھا، جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اُس وَقت وہ پڑھا کرتی تھیں ،میں نے سن کر یاد کرلیا

"کیا آپ نے دیکھا کہ حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ جب اپنی والدہ کے شکم میں تھے، اُس وقت آپ کی والدہ قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرتی تھیں، اور انہی برکتوں کے سبب آپ نے ماں کے شکم ہی میں قرآن کے سپارے یاد کر لیے۔ یہ اگرچہ حضور غوثِ پاک کی کرامتوں میں سے ہے، لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ماں نیک سیرت ہو تو اُس کے شکم سے بھی نیک سیرت اولاد ہی پیدا ہوتی ہے۔"

"لیکن میری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ حالات میں آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ 'موبائل' نامی ایک وبال ہماری مائیں، بہنیں، بچیاں — الغرض ہر انسان کے ہاتھوں میں آ چکا ہے۔ جس سے ہمیں فائدہ تو کم، لیکن نقصان کس حد تک ہو رہا ہے، ہم نہ تو جاننا چاہتے ہیں اور نہ ہی ماننے کو تیار ہیں۔ اور جو لوگ جانتے بھی ہیں، وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔"

"میں اس بات سے بالکل انکار نہیں کر رہا کہ موبائل ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کسی چیز کو وقتِ ضرورت اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے تو وہ چیز فائدہ ہی دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز غیر ضروری طور پر یا ضرورت سے زیادہ استعمال کی جائے تو وہ فائدے کے بجائے الٹا نقصان کا سبب بن جاتی ہے — جیسے کہ یہی موبائل۔"
"اور اس موبائل سے سب سے زیادہ نقصان جس ذریعے سے ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے، اُس ذات کا نام ہے 'ماں'۔
آج جس طرح موبائل کے عادی مرد ہیں، لڑکیاں ہیں، لڑکے ہیں، اُسی طرح وہ خواتین بھی ہیں جو ماں بن چکی ہیں یا ماں بننے جا رہی ہیں۔
اب آپ خود سوچیں، ایک عورت جس کے شکم میں ایک بچہ پرورش پا رہا ہو، وہ اس دوران اپنی خوراک اور پینے کا تو بہت خیال رکھتی ہے — اچھی اور صحت بخش چیزیں کھاتی اور پیتی ہے — لیکن کیا وہ اس دوران اپنی سوچ، اپنے کردار کو بہتر بنانے کے بارے میں بھی سوچتی ہے؟
نہیں، بالکل نہیں!
وہ ان دنوں میں موبائل پر نہ جانے کون کون سی فلمیں، ڈرامے، گانے سنتی اور دیکھتی ہے، اور بعض اوقات انجانے میں کفر پر مبنی نغمات، ڈائیلاگ وغیرہ بھی سن لیتی ہے۔
اور اُسے اندازہ تک نہیں ہوتا کہ وہ تو بس ان فلموں، ڈراموں اور گانوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے، لیکن اس کا منفی اثر اُس کے شکم میں موجود بچے پر پڑ رہا ہے۔"

اس کے بعد اگر بچہ پیدا بھی ہو جائے تو وہ ماں اسی موبائل پر موسیقی، کارٹون، گانے وغیرہ چلا کر بچے کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے، صرف اسے بہلانے کے لیے۔ اب ہم سوچیں کہ ایک ایسا بچہ جسے ابھی بولنا، کھانا پینا تک نہیں آتا، اس کی تربیت کا آغاز گناہوں سے ہو رہا ہے۔ وقت گزرتا رہتا ہے اور موبائل کے منفی اثرات سب سے پہلے بچے کے جسمانی اعضا پر اثر ڈالنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے کہ آنکھوں کی بینائی کمزور ہونا، ذہنی کمزوری وغیرہ۔ اس کے بعد جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو وہ غلط ویڈیوز، گیمز اور دوسرے ایسے مناظر دیکھنے لگتا ہے جو اسے نہیں دیکھنے چاہئیں، اور یوں وہ اپنی سوچ اور کردار کو بگاڑ لیتا ہے۔
"پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ یہی والدین بعد میں انہی بچوں کو لے کر کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، کبھی کسی اور معالج کے پاس۔ کبھی کسی مولوی سے دم کرواتے ہیں، اور کبھی کسی بزرگ سے دعا کرواتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہماری بات نہیں مانتا، ہم سے زبان لڑاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔"
"خدارا! میری ہر ماں اور باپ سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اپنی تربیت کو درست کریں۔ موبائل صرف اسی عمر اور اسی حد تک دیں جہاں اور جتنا واقعاً ضروری ہو۔ اور اپنے بچوں کو بچپن سے ہی دینِ حق کی تعلیم دیں، کیونکہ اس کا فائدہ آپ کو نہ صرف اپنی زندگی میں ملے گا بلکہ مرنے کے بعد بھی نسل در نسل جاری رہے گا۔ کیونکہ اگر آپ اچھا بیج بوئیں گے تو پھل بھی اچھا ہی ملے گا، اور اگر آپ نے غلط چیز کا بیج بویا تو پھر اچھے پھل کی امید رکھنا محض نادانی ہے۔"
دعاؤں کا طلبگار
“ ابو قربان رضا"

 

ابو قربان رضا
About the Author: ابو قربان رضا Read More Articles by ابو قربان رضا: 2 Articles with 83 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.