دو ٹوک

مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی ہے کہ جب بھی ہمیں کسی پریشانی یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ یہ سب ہمارے نظام کی خرابی کی وجہ سے ہوا ہے یا ہمارے نصیب میں ہی ایسا کیوں لکھا ہوا تھا؟سوچنے کی بات ہے کہ ہم ساری زندگی سچ سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے پتا نہیں کیوں ہم اپنی غلطیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھنے کی بجائے دوسروں کی ذات پر رائے زنی کرنا اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہیں۔کوئی اچھا کام کرے یا برا دونوں صورتوں میں تنقید کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یوں کر لیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا مگر خود اچھا کرنا یا اپنی غلطی کو مان لینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ابھی حال ہی میں ایک مضمون نگار کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے ایک پاکستانیITادارے کے حوالے سے بہت ہی منفی باتوں کا پرچار تو کیا ہے مگر اس حوالے سے کوئی خاص تجاویز فراہم نہیں کی ہیں کہ جس سے منفی تاثر کا ازلہ کیا جاسکتا ۔مگر یہ کہنا ضروری سمجھا گیا کہ اس ITادارے کا نظام ہی فرسود ہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیفیں ہو رہی ہیں جب کہ اس ادارے کی وجہ سے ملک کا نام بھی روشن ہو رہا ہے۔ صرف تصویر کے ایک رخ کے بیان کی وجہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کیا کسی ایسے ادارے کو سراہنا درست طرزعمل نہیں ہے جو اپنی بہترین خدمات اپنی تمام ترخوبیوں و خامیوں کے ساتھ سرانجام دے رہا ہے ۔ میرے خیال میں نظام کسی بھی چیز کا ہو اگر درست طور پر چلایا جائے تو ہر نظام بہترین بن سکتا ہے اگر اس میں موجود خرابیوں کو رفتہ رفتہ دور کر لیا جائے۔اگر لکھنے والے ہی تصویر کا ایک رخ پیش کر کے اپنی مرضی کے نتائج پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ بات بہت سے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ مسائل کو اجاگر کرنا اور بات ہے مگر اس سلسلے میں احتیاط کا دامن بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تصویر کے دونوں رخ بیان کرنے چاہیں تاکہ منفی سوچ مرتب نہ ہو۔ہمارے ہاں تو حالات تو اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئے رُعب و دھمکی سے کام لینے لگے ہیں اور پھر جب ہمارے سامنے اس کے نتائج وعواقب ہمارے مطابق سامنے آنے لگتے ہیں تو اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم بھی”کوئی چیز “ہیں۔ جب ہمارے حق میں کوئی بات نہ جائے تو نظام کی خراب کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔چاہے کوئی جتنی بھی دلائل سے بات کرے کہ تصویر کے دونوں رخ دیکھے جانے چاہئیں تو الزامات کی برسات کر دی جا تی ہے۔ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو مارنا ہے تو اس پر الزام لگا دیجئے اور پھر دیکھئے کہ وہی ہوگا جیسے آپ کرنا چاہیں گے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ کیسے ہمارے سپر پاور کہلوانے والے ہمارے ہمدرد دوست نما دشمن نے بے بنیاد الزامات کی بناء پر 86سال کی سزا سنا دی اور اب اپنے شہری کے لئے سفارتی استثنیٰ چاہ رہا ہے۔اگر ہمارے حکمران دباﺅ میں نہ آئیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا دو ٹوک مطالبہ منوا لیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ریمنڈ کی سزا سے زیادہ اہم ہماری بہن کی رہائی کا مسئلہ ہے جو اپنے ناکردہ گناہ کی سزا اس ملک کے باشندے اور مسلمان ہونے کے ناطے بھگت رہی ہے۔

ہمارے ملک میں تو بس جس حکمران طبقے کا جو جی چاہتا ہے وہی کرتا ہے اور اپنے لئے ہی آسائش وآرام اور دھن دولت کی خاطر عوام کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کرنا ہی اپنے لئے باعث ثواب سمجھتا ہے۔اور بے چاری عوام کہیں کا غصہ کہیں پر نکالنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ سیالکوٹ میں دو معصوم بھائیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو ہی دیکھ لیجئے پولیس اور عوام کے سامنے دو بے گناہ مارے گئے اور کسی نے روکنے تک کی زحمت تک نہیں کی۔مذہبی منافرت تو اب عام سے بات ہو گئی ہے اور ایک دوسرے کو حق پر سمجھنے کی جنگ نے صورتحال گھمبیر سی بنا دی ہے۔آئے روز کے خودکش حملوں نے ذہنی پریشانیوں میں اور اضافہ کردیا ہے ۔پہلے ہی معاشی بدحالی نے ادھ مویا کر رکھا ہے اسی وجہ سے ہماری برداشت کرنے کی قوت بھی جواب دیتی جا رہی ہے اور ہم بات بے بات ہر کسی سے لڑنے جھگڑنے لگے ہیں اس بات کو آپ بآسانی اپنے ارد گرد محسوس کر سکتے ہیں کہ لوگ سچ پر مبنی دو ٹوک بات کو بھی سننے کےلئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں صبر تو باقی رہا ہی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعتدال کا دامن تھامے رہیں اس سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہماری دینی تعلیمات بھی اس چیز کا درس دیتی ہیں کہ ہمیں کسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے اور ہر حال میں اللہ کی رضاپر راضی ہونا چاہیے۔ ;
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522681 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More