مرغ آباد کی ککڑوں کوں

شہری آبادی سے بہت دور پہاڑوں کے بیچ ایک چھوٹا لیکن گھنا جنگل تھا نام تھا جس کا مرغ آباد. مرغ آباد میں ہر رنگ اور ہر نسل کے مرغے اور مرغیاں رہا کرتے تھے. تمام مرغے, مرغیاں اور ان کے چوزے آپس میں پیار محبت سے رہتے, سارا دن کھیلتے اور دانا چگا کرتے تھے. سب وعدے کے تحت اتفاق سے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے.

انہیں مرغے مرغیوں میں ایک مرغی تھی "ککڑوں کوں". اس کے پر سنہرے اور چونچ گلابی تھی اور وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے سب کو اترا کے دیکھا کرتی تھی کیونکہ ککڑوں کوں کو اپنی خوبصورتی پہ بہت ناز تھا. کوئ اس سے بات کرنے جاتا تو وہ ایک ہی جواب دیتی:" ککڑوں کوں میں ککڑوں کوں, میں پیاری سی مرغی ہوں, میں تم سے بھئ کیوں بولوں". ککڑوں کوں کے اس غرور سے مرغ آباد بہت پریشان تھا. ککڑوں کوں کو لگتا تھا کہ اگر وہ کسی کالی یا بھوری مرغی کے ساتھ کھڑی بھی ہو گی تو اس کے سنہرے پر میلے ہو جائیں گے. وہ سب سے الگ تھلگ رہتی اور یہی سوچ کے اتراتی کہ اس کی خوبصورتی زندگی گزارنے کے لیے کافی ہے اور اسے کسی دوست کی ضرورت نہیں.

مرغ آباد میں ایک بوڑھی اور سیانی مرغی رہا کرتی تھی. سب اس کو "بی مرغی" کہ کے بلاتے تھے. مرغ آباد کے سبھی مرغے مرغیاں اس سے صلاح مشورے کے لیے آیا کرتے تھے. بی مرغی ککڑوں کوں سے اکثر کہا کرتی تھی:"ککڑوں کوں تمہارا یہ غرور تمہیں لے ڈوبے گا. اتفاق سے رہا کرو, اتفاق میں برکت ہے". لیکن ککڑوں کوں کو اس کی بات کہاں سمجھ آنی تھی. وہ ہر بار ایک ہی بات کہتی تھی:"ککڑوں کوں میں ککڑوں کوں, میں پیاری سی مرغی ہوں, میں تم سے بھئ کیوں بولوں". اور بی مرغی اور باقی مرغیاں پر ہلاتی رہ جاتیں.

ایک دن کسی دوسرے جنگل سے ایک بھوکی جنگلی بلی مرغ آباد آن پہنچی. بھوک تو اسے بہت لگی ہوئ تھی. اتنے زیادہ مرغے مرغیاں دیکھ کر بلی کی خوشی کی انتہا نہ رہی. اس نے دل ہی دل میں سوچا:"میرے اپنے جنگل میں گھاس, پھل اور چند کمزور جانوروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں. سب فاقوں مر رہے ہیں. میں ان مرغیوں کو ایک ایک کر کے کھاؤں گی. میرا خوف سب کے دل میں ایسا پھیلے گا کہ سب مجھے اپنا سردار مانیں گے. واہ! میں ملکہ بھی ہوں گی اور مرغیاں بھی میرے قبضے میں ہوں گی. زندگی مزے سے گزرے گی". یہ سوچ کے وہ زور سے ہنس دی اور شام کا انتظار کرنے لگی.

شام کو تمام مرغیاں تالاب کے گرد معمول کے مطابق کھیلنے کے لیے جمع ہوئیں. ککڑوں کوں تالاب کے دوسرے پار اپنے آپ میں مگن تھی. بلی جھاڑیوں میں گھات لگاۓ بیٹھی تھی. تمام مرغیاں اکٹھی تھیں. ان میں سے کسی کو بھی دبوچ لینا بلی کے لیے مشکل تھا کیونکہ بھوک کے مارے اسے کمزوری محسوس ہو رہی تھی. اس کی کوشش تھی کہ کوئ آسانی سے شکار ہو سکے. ککڑوں کوں کو اکیلا دیکھ کر بلی کی آنکھوں میں چمک آ گئ. وہ تالاب کے دوسرے پار جھاڑیوں کی طرف گئ اور چھلانگ مار کر ککڑوں کوں کو دبوچ لیا. کچھ ہی دیر بعد ککڑوں کوں کے سنہرے پر تالاب میں تیرنے لگے. تمام مرغیوں نے شور مچانا شروع کیا تو بی مرغی وہاں شور کی آواز سن کر پہنچ گئ. بلی ککڑوں کوں کو کھا چکی تھی اور اپنے پنجے صاف کر رہی تھی. بی مرغی دکھ سے بولی:" ککڑوں کوں میں نہ کہتی تھی اتفاق میں برکت ہے." ککڑوں کوں کو اپنے غرور کی سزا ملی.

بی مرغی نے سارے مرغے مرغیوں سے کہا:"جلدی سے اس بلی کو جنگل سے نکالو. یہ ہم سب کو باری باری کھا جاۓ گی". سب نے بی مرغی کی بات مانتے ہوۓ بلی پہ حملہ کیا اور چونچیں مار مار کر اتنا زخمی کیا کہ بلی چیخیں مارتی ہوئ جنگل سے یہ کہتی ہوئ بھاگی:"ہاۓ میں مر گئ!!!ہاۓ میں مر گئ!!!میں اب نہ آؤں گی یہاں. یہ مرغیاں بہت خطرناک ہیں!"

سبق: اتفاق میں برکت ہے اور غرور کا سر نیچا ہوتا ہے.

Syeda Khair-ul-Bariyah
About the Author: Syeda Khair-ul-Bariyah Read More Articles by Syeda Khair-ul-Bariyah: 24 Articles with 39614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.