عبادت گاہیں بھی تعلیم وتربیت کے اہم مراکز ہیں۔اب ماہرین
تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ عبادت گاہیں غیر رسمی تعلیم کا ایک ذریعہ ہیں
اوربچوں کی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں ۔بالخصوص اسلامی معاشرے
میں تومسجدکو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو کسی بھی
دورمیں کبھی بھی حاصل نہیں رہا،نہ ہی وہ کبھی اتنی اہمیت کی حامل اوربارونق
ہوئی ہونگی۔
ایک دورتھا جب مساجد رسمی وغیررسمی ہردوتعلیم کا مراکز تھیں۔ اب بھی بعض
خطوں میں مسجد ان دونوں (رسمی اورغیررسمی تعلیم) کا ذریعہ ہے۔عہدنبویﷺ
اورعہدخلفاء راشدین میں مسجد بطور عدلیہ، مقننہ، دیوان وغیرہ کی ذمہ داریاں
بھی اداکرتی تھی۔ کسی ملک پر لشکر کشی کرنی ہوتو لشکرکی روانگی کا مقام
مسجد ہوتا تھا، کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتومقام مسجد ہوتاتھا،کسی دوسرے ملک
کے سفیر یانمائندہ سے ملاقات کا مقام مسجدتھا، شوریٰ کا اجلاس بلانا ہو
تومقام مسجد تھا، طلبہ کی تعلیم کے لئے مقام مسجد تھا،کوئی اہم اعلان کرنا
ہو تومقام مسجدتھا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا اللہ رب العزت کامحبوب ترین مقام یہی
مسجد ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتاہے:
عن ابی هریره ان رسول اللّٰهِ ﷺ قال احب البلاد الی اللّٰهِ تعالیٰ مساجدها
وابغض البلاد الی اللّٰهِ اسواقها۔( صحیح مسلم)
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ
تعالیٰ کو تمام مقامات میں سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں اورسب سے زیادہ
ناپسند جگہیں بازار ہیں۔"
یقینی امر ہے کہ جب مساجد اللہ تعالیٰ کا محبو ب مقام ہیں تو ان کی تعمیر
کرنے والے بھی اللہ رب العزت کے محبوب ہوں گے۔اسی لئے تاریخ وسیرکی کتب
تعمیر مساجد کے سلسلے میں بھری ہوئی ملتی ہیں۔ جس کا آغاز حضور اکرم ﷺ کی
مدینہ آمد کےفوراً بعد شروع ہوا۔جہاں آپ ﷺ نے سب سے پہلا کام مسجد قباء کی
تعمیرکا کیاتھا۔جو 8 تا 11 ربیع الاول 1ہجری کو تعمیرکی گئی۔ مساجد
تعمیرکرنے کی سنت متواترہ مسلمانوں میں اسی وقت سے رائج ہے۔ خلافت راشدہ سے
لے کر تاحال مسلمان جب بھی کسی نئے خطے میں پہنچتے ہیں ان کا پہلا
اوربنیادی کام وہاں مسجد کی تعمیرہی ہوتاہے۔ ایسا کیوں نہ ہومسجد کی تعمیر
کرنے اوراس کی تعمیر میں تعاون کرنے والے کے لئے اللہ رب العزت نے جنت کا
وعدہ کیا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:
"وقال النبي ﷺ : مَنْ بَنَى مَسْجِدًا بَنَى اللّٰهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي
الْجَنَّةِ" (رواه البخاري (450) ومسلم (533))
حضور پرنور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جس نے مسجد تعمیر کی اللہ تعالیٰ اس کی
مثل اس کے لئے جنت میں گھر تعمیر کرے گا۔
اور اس بہترین مقام پر رب نے اپنی ملاقات کے لئے صرف ایمان کی نعمت کبریٰ
سے بہرہ مند افراد ہی کو منتخب کیا ہے۔ ہرکس و ناکس یہاں اس سعادت سےمشرّف
نہیں ہوسکتا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ
الْاٰخِرِ"( سورہ توبہ:18)
"اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کوآباد کرنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ
پر قیامت کے دن پر ایمان لائے۔"
اہل ایمان مساجد کو آکر آباد کرتے ہیں۔وہاں اسلام کے دوسرے رکن یعنی نماز
کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جسے حضور ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قراردیاہے۔جیسا
کہ حدیث مبارکہ ہے:
جُعِلَ قُرَّۃُ عَینِی فِی الصَّلٰوۃِ (سنن نسائی)
نماز کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنایاگیاہے۔ اس ہی حدیث مبارکہ کا منظوم
مفہوم والدمحترم نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے:
دل کا میرےسکوں نہیں آواز وساز میں
ٹھنڈک ہے میری آنکھ کی لوگو نماز میں
اورجب یہ اہل ایمان عشاق اللہ رب العزت کی محبت میں سرشار حضور ﷺ کی آنکھوں
کی ٹھنڈک یعنی حالت نمازمیں اپنےرب کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں تو اس لمحہ
ان کی عظمت وشان کا کیا ہی کہنا۔جناب انصارالہ آبادی علیہ الرحمہ کی زبان
میں صرف اتنا کہاجاسکتاہے:
کون سمجھے گا! مرے سرکی بلندی کا عروج
پنج وقتہ! ترے دربار میں خم ہوتاہے
وہاں پہنچادیا ! صرف ایک ہی سجدے نے مجھے
ذرہ ذرہ جہاں صد رشکِ ارم ہوتاہے
الغرض تمام اہم اداروں کے کام مسجد ہی سے لئے جاتے تھے۔علم پھیلانے کے لئے
تو یہ بہت ہی اہم ادارہ تھا اورہے۔ اس کی تصریح حضرت عمربن عبدالعزیز رضی
اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:
" عمر بن عبد العزیز یقول أما بعد فأمر اھل العلم أن ینشروا العلم في
مساجدھم" (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع،ابوبکراحمد بن علی الخطیب
البغدادي)
"حضرت عمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ نے اہل علم کو حکم دیا کہ وہ اپنی مساجد
میں علم کو پھیلائیں۔"
دورِ جدیدمیں اگرچہ مسجد کو وہ مقام حاصل نہیں رہا ۔تاہم اب بھی اس کی
اہمیت سے کسی کو انکارنہیں اوردیگرمذاہب کے مقابلے میں تو اس کا کوئی
مدمقابل ہی نہیں۔اس "قحط الرجال" دورمیں بھی ہماری مساجد غیرمسلموں کی
عبادت گاہوں کے مقابلے میں زیادہ آباد اوربارونق ہیں۔غیررسمی تعلیم(خصوصاً
مذہبی) کا تو یہ ہمیشہ ہی سے اہم ذریعہ ہیں اوررہیں گی(انشاء اللہ)۔تبلیغ
اسلام اوراصلاح احوال کے لئے اس سے بہترمقام شاید اورکوئی نہیں۔
ان ہی امور کو پیش نظررکھتے ہوئے ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ نے ادارے میں ایک
شاندار اورعالی شان جامع مسجد قائم کی۔یہ مسجد سادہ لیکن خوبصورت ہے۔ جس کا
اندرونی ہال مکمل ایئرکنڈیشنڈ ہے ۔اس کاشمار نارتھ ناظم آباد کی چند بڑی
مساجد میں ہوتا ہے۔یہ اس علاقہ کی مرکزی مسجد اور عیدگاہ بھی ہے۔مسجد میں
شب قدر(یعنی ستائیسویں رات) کی مناسبت سے کل ستائیس ہی صفیں ہیں جہاں کم
وبیش دوہزار نمازی بیک وقت باجماعت نماز اداکرسکتے ہیں۔ مسجد کے شمال کی
طرف اس سے متصل ایک عظیم الشان مینار بھی تعمیر کیا گیا ۔جس سے اس مسجد کی
خوبصورتی وحسن میں مزیداضافہ ہوگیاہے۔مسجدکی چھت بہت اونچی ہے اوراس کا
وسیع وعریض صحن ہے۔مسجد کے اردگرد خوبصورت پودے اوردرخت لگائے گئے ہیں۔جس
سے سخت گرمی کے موسم میں بھی یہ مسجد ٹھنڈی اور خوشگواررہتی ہے۔ مختصراًیہ
شہر کے وسط میں ہوتے ہوئے بھی فضائی آلودگی اورٹریفک کے شور سے دور ایک
پرفضاء مسجد ہے جہاں تازہ ہوا کی وجہ سے بہت ہی سکون وراحت کا احساس ہوتاہے
۔اور نماز میں خشوع وخضوع قائم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ ڈاکٹرانصاری علیہ
الرحمہ نے ایک موقع پر فرمایاتھا ۔
The Mosque is symbol of Unity.
(مسجد اتحاد کی علامت ہے)اوریقیناًً حضرت صاحب کا یہ قول اسلامک سینٹر کی
مسجدکے متعلق صادق آتاہے۔
مسجد ھذا میں تمام اہم ایام مثلاً 12 ربیع الاول،27 رجب المرجب،15 شعبان
المعظم،رمضان المبارک کاآخری عشرہ اور 11 جمادی الاولیٰ یعنی حضرت
ڈاکٹرمحمد فضل الرحمٰن الانصاری علیہ الرحمہ کے عرس مبارک کے موقع پر مسجد
میں چراغاں کیا جاتاہے اور اسے رنگ برنگے برقی قمقموں سے سجایا جاتاہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمار ے سجدوں کی لاج رکھتے ہوئے ہمیں حقیقی
شعور عطا فرمائے کہ ہم کس بارگاہ عظمت وجلال میں قیام و سجود کررہے
ہیں:بقول رفیق راز
تومیرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعورِ سجدہ نہیں ہے مجھ کو
یہ سر تِرے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے
|