شاعری وصف خداوندی ہے جو ہر کسی کو عطا نہیں ہوتا۔ شاعرکے
تخلیقی چشمے پھوٹتے ہیں تو شعر وارد ہو تے ہیں ۔ بات شاعری کی آئے اور ایم
زیڈ کنول کا نام نہ آئے ۔ ایم زیڈ کنول اس دور کی منفرد لب و لہجے کی شاعرہ
ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں سے ایک جہان واقف ہے ۔ کوئی بھی اس بات سے انکار
نہیں کرسکتا کہ شعر ان پر وحی کی صورت نازل ہو تے ہیں اور پھر مثل گوہر
آبدار ہم تک پہنچتے ہیں۔
خوب صورت لب و لہجے کی حقیقی شاعرہ ایم زیڈ کنول ایک انتہائی ملنسارا ور
ہنس مکھ شخصیت ہیں جن کی ادبی خدمات کا ہر کوئی معترف ہے ۔ آپ نہ صرف یہ کہ
خود بہت اچھی شاعرہ ہیں بلکہ علمی وادبی محافل سجانے میں آپ کا کوئی ثانی
نہیں۔ آپ علمی ، ادبی ۔ سماجی اور ثقافتی روایا ت کی امین تنظیم جگنو کی نہ
صرف چیف ایگزیگٹو ہیں اوربہت سی ادبی تنظیموں کی ممبر ہیں ۔ انہوں نے اپنی
زندگی علم وادب کی آبیاری کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔ان کے پلیٹ فارم جگنو سے
بہت سے نئے شعرا کرام کو متعارف کرایا جارہا ہے ۔
ایم زیڈ کنول کی شاعری بہتے جھرنوں کی طرح دل میں میٹھا میٹھا شور مچاتی
ہوئی اترتی ہے اور سوچ کے بہت سے نئے در وا کردیتی ہے ۔
ان کی شاعری میں سحر آفرینی ہے ۔ ان کے لفظ بولتے ہیں نہیں بلکہ سحر طاری
کر دیتے ہیں ۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مخاطب کو اپنے دل
کی آواز لگتی ہے ۔
ایم زیڈ کنول کے چند منتخب اشعار ۔۔۔۔
میں تھی خود کو ڈوھنڈنے نکلی ۔۔۔ آگئی کائنات مٹھی میں ۔
دھڑکنوں کی خامشی سے پوچھ لو ۔۔۔کیا تخیل سے گماں کہنے لگا۔
اپنے ایماں کو خیرات میں بانٹ کر ۔۔۔کفر کا ساتھ کاسہ ہے رکھا ہوا۔
اایم زیڈ کنول کی شاعری کے بارے میں معروف مصنفہ بانو قدسیہ کاکہنا تھا کہ
کنول کی شاعری کے کئی رنگ ہیں ۔ اس کی نظموں میں نسیم سحر اور پو پھٹنے کا
رنگ ہے ۔ اس کی غزلیں ڈھلتی شام کے وہ خوش رنگ سائے ہیں جو مختلف اوزان میں
جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں مگر نظر نہیں آتے ۔ مجھے کنول کی شاعری میں خاص
طور پر ان مترنم صداؤں کا احساس ہوا ہے جو الفاظ کی ادائی کے بجائے الفاظ
کی موجودگی اوران کی شخصیت کے آہنگ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اس کی شاعری کے تیور
بڑے کڑے ہیں ۔ اس نے کھلی آنکھوں سے اندر اور باہر کے مشاہدے کی ڈوری ایک
ساتھ تھام رکھی اور اپنے احساس کے دانے پروتی گئی تو اس کے تازہ کلام کا ہر
جگہ انتظار ہوا کرے گا۔
یم زیڈ کنول کے شعری مجموعے برف کا آتش فشاں کے تناظر میں ڈاکٹر احمد علی
برقی اعظمی کا کہنا ہے کہ اس مجموعے میں ایم زیڈ کنول کی فکر کی رعنائیاں
پوری طرح نظر آتی ہیں ۔۔ ان کی غزلوں سے سوز وساز زندگی بھی پوری طرح عیاں
ہوتا ہے ۔ ان کے اشعارا ن کے درد دل کے ترجمان ہیں ۔کتابوں کے سرورق سے ہی
ان کے اعلی ذوق کا پتا چلتا ہے ۔ان کا اسلوب ایک انوکھی دلفریب چھب لیے ہو
ئے ہے ۔ ان کی شاعری میں جگنو کی سی چمک ضو فشاں ہے ۔ان کے رشحات قلم نثر و
نظم میں دلکش ہیں ۔ وہ ایک معیاری ادب کی تخلیق کار ہیں ۔
ایم ایم زیڈ کنول ایک حساس شاعرہ ہیں ۔ وہ دل پر اثر لیتی ہیں اور دل سے
کہتی ہیں ۔ لیکن ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ اس میں دماغ بھی اپنی پوری
طاقت کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے ۔ وہ انسان کے جذبات کے ساتھ کھیلتی نہیں ہیں
بلکہ ان کو پکارتی ہیں ۔ ان کی صدا کے ساتھ اپنی آواز بھی ملاتی ہیں ۔ وہ
اپنے محسوسات کو محاسبے سے آزاد نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنی ہی ذات پر ایک گرہ
سی لگاتی ہیں جو کہ نہایت دلفریب انداز میں کھلتی چلی جاتی ہے ۔
وہ بڑی خوب صورتی کے ساتھ انسان کو سلطنت کے نشے کے باوجود غم کی خوشی کا
احساس دلاتی ہیں ۔ گویا میٹھے الفاظ میں غم اور دکھ کو زندگی کا اثاثہ قرار
دیتی ہیں ۔ ان کے نزدیک زندگی کی ارزانی نے موت کو مہنگا کردیا ہے ۔ وہ
انسان کے ایمان کے ڈوبنے اور اس کی مادیت پر بھی پریشان ہیں ۔ ایم زیڈ کنول
کی شاعری کا فکری اثاثہ اپنے گھر سے تعمیر پاتا ہے ۔ وہ اپنے والد کے ادبی
ذوق کے سائے میں پروان چڑھیں اور ان سے ہی نہوں نے علمی ادبی شوق پایا۔
ایم زیڈ کنول روایا ت کہن کی تقلید کی قائل نہیں ۔ وہ ان کو معاشرتی ترقی
کی راہ میں بڑی رکاوٹ خیال کرتی ہیں ۔ دیکھیے ایک جگہ کہتی ہیں ۔
توڑ ڈالوسب روایات کہن ۔۔۔آندھیوں کا کاروان کہنے لگا۔
وہ انسان کی بے بسی کو بھی پوری شدت سے محسوس کرتی ہیں ۔ جو کہ گردش دوراں
کی روانی کے متاثر ہو جانے سے پریشان ہے ۔
گردش دوراں رہے کیسے رواں ۔۔ ۔ بے بسی کا امتحان کہنے لگا۔
شاعرہ بات سے بات کہنے کا فن ہی نہیں جانتی بلکہ اسے موثر بنانے کے گر سے
بھی واقف ہے ۔ وہ چیزوں کی توڑ پھوڑ کی نہیں ، ان کے جوڑ کی قائل ہیں ۔ ان
کے الفاظ میں محبت کا وہ رچاؤ بساؤ ہے جو کہ انسان کے دل کو اپنی گرفت میں
لے لیتا ہے ۔ محبت تو ہر شاعر کے دل کی آواز ہے ۔ یہ اس کی شاعری کو وہ حسن
عطا کرتی ہے جو دل میں پھوٹتے جذبوں سے مہمیز ہوتا ہے ۔ ایم زیڈ کنول کی
شاعری کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے تشبہیاتی اور استعاراتی انداز کو بھی
سمجھنا ہوگا۔تبھی ہم ان میں پوشیدہ اعلی جذبوں کی فروانی کو سمجھ سکیں گے ۔
ایم زیڈ کنول کے شعروں میں بے ساختہ پن اور فطری خو ب صورتی پائی جاتی ہے
۔ان کی شاعری میں دل موہ لینے والی بے ساختگی ہے۔ خوشبوؤں اور رنگوں کی
شاعرہ فطرت کے ساتھ پوری جولانیوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ۔یہ شعری اوصاف
سے متصف شاہکار ہے جو کہ ایک رواں دواں شاعرانہ اسلوب ہے جو کہ ایک باوزن
شعری تخلیق ہے ۔وہ انسان کے دل کو توڑنے والے عناصر کا ذکر کرتے ہوئے بھی
شعری محاسن کو نظر انداز نہیں کرتیں ۔ یہی ایک شاعرکا امتحان ہوتا ہے کہ وہ
ایسے مقام سے بھی بچ کر گزر جائے جہاں مایوسی اس کی تما م تر کیفیات پر
قبضہ کرلے اوراس کے شعر کواعلی تخلیقیت سے محروم کردے ۔ ایم زیڈ کنول ایک
پختہ کار شاعرہ ہیں جن کی شاعری میں وقت بولتا ہے اور پھر پڑھنے والا اس کی
آواز ہی سنتا رہہ جاتا ہے ۔
|