اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت
و رہنمائی کے لئے انبیاء کرام کو اس دنیا میں بھیجا اور انبیاء کرام کو
مختلف کتب و صحیفے عطا کئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے
قرآن مجید عطا کیا۔ قرآن مجید رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے ہدایت و
رہنمائی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے
لئے جہاں واضح احکامات نازل کئے،وہیں انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے
ماضی کے قصوں کے ذریعے بھی ان کی تذکیر کی ہے اور ان کو بتایا ہے کہ ان
قصوں میں بڑی عبرت اور نصیحت ہے۔ اب جو کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو اس کے
لئے اس میں بہت سامان ہے اور اگر کوئی قرآنی قصائص کو محض ماضی کے قصے
کہانیاں سمجھ کر سنتا ہے تو اسے پھر کوئی ہدایت نہیں ملتی ہے۔ اس لئے قصص
القرآن کو محض قصے کہانیاں سمجھ کر پڑھنے اور سنانے کے بجائے یہ دیکھنا
چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قصوں کے ذریعے انسانوں کو کس بات کی ہدایت دی
ہے۔
قرآنی قصوں میں سے ایک قصہ’’ اصحاب کہف ‘‘کا بھی ہے ۔اور یہ قصہ سورہ کہف
میں بیان کیا گیا ہے۔ اس قصے میں بھی دیکھا جائے تو ایمان والوں کیلئے بلکہ
نہ صرف ایمان والوں کے لئے بلکہ ہر ذی شعور اور باضمیر فرد کے لئے ہدایت
موجود ہے۔ یہاں ہم آپ لوگوں کے سامنے اصحاب الکہف کا قصہ مختصراً بیان کریں
گے اور پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں یہ
ہدایت دی ہے۔اور اس قصے میں ہمارے لیے کیا اسباق ہیں۔قصہ سنانے سے قبل یہ
دیکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا ذکر کیوں کیا
ہے؟ مفسرین نے اس کی وجہ نزول یہ بتائی ہے کہ قریش مکہ نے اپنے دو آدمیوں
کو مدینے کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ’’ یہودی اہل کتاب ہیں اس لئے ان سے
محمد (ﷺ) کی بابت دریافت کرو کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ ‘‘ یہ دونوں افراد مدینے
کے یہودی علما ء سے ملے اور نبی اکرم ﷺ کے حالات و اوصا ف اور تعلیمات بیان
کر کے آپﷺ کے متعلق انکی رائے معلوم کی۔اس کے جواب میں یہودیوں نے ان کو
بتایا کہ تم محمد(ﷺ) سے یہ تین سوالات کرنا کہ ’’اگلے زمانے کے ان نوجوانوں
(اصحاب الکہف ) کا کیا قصہ تھا؟ ۲ اس شخص کے بارے میں معلوم کرو جس نے پوری
دنیا کا چکر لگایا تھا اور مشرق و مغرب سے ہو آیا تھا۔ ۳ جبکہ تیسرا سوال
روح کی ماہیت کے متعلق تھا۔(بعض علماء کے مطابق تیسرا سوال حضرت موسیٰ ؑ و
خضر علیہ السلام کے متعلق تھا۔اور سورت کے مطالعہ سے بھی یہی بات قرین قیاس
معلوم ہوتی ہے۔) یہودیوں نے قریش مکہ کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ یہ ایسی
باتیں ہیں جو صرف اللہ کا ایک نبی ہی ان کے متعلق جانتا ہے اگر وہ سچے
ہونگے تو ان کے جواب دیں گے ۔ قریش مکہ نے واپس آکر یہی سوالات نبی اکرم ﷺ
سے دریافت کئے ،جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی ۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایشیا کوچک میں رومیو کے مشہور ساحلی شہر ’’افسس
یا افسوس ‘‘ میں پیش آیا تھا ،اور جبکہ آج کے دور میں موجودہ ٹرکی کے شہر
سمرنا میں اس کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔جبکہ یہ واقعہ قیصر ’’ڈیسس یا
دقیانوس ‘‘ کے دور میں پیش آیا جس نے سن 229 ء تا سن 251ء تک روم پر
فرمانروائی کی تھی۔ قیصر دقیانوس ایک بت پرست اور ظالم بادشاہ تھا اور اس
نے اپنے دور حکومت میں اہل ایمان (نصاریٰ) پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے
تھے۔کہا جاتا ہے کہ یہ چند صاحبِ ایمان اور روشن ضمیر نوجوان تھے اور یہ
اپنے باپ داداؤں کے ساتھ عید منانے کے لئے شہر کے ایک میلے میں گئے تھے ۔
بتایا جاتا ہے کہ وہ شیر اس وقت شرک اور بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا اور
وہاں ڈائنا نامی دیوتا کا مندر تھا جس کی پوجا کرنے کے لئے شام،مصر،فلسطین
وغیرہ سے بھی لوگ وہاں آتے تھے۔ ان نوجوانوں نے وہاں شرک و بت پرستی کے جو
نظارے دیکھے تو ان کا دل کھٹا ہوگیا اور ان کے دل میں خیال آیا کہ عبادت تو
ایک اللہ کی ہونی چاہئے ، ذبیحے وغیرہ تو ایک اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں،
پس یہ سوچ کر یہ لوگ انفرادی طور پر اس میلے سے الگ ہوکر ایک درخت کے نیچے
آکر بیٹھنے لگے،پہلے ایک آیا،پھر دوسرا،پھر تیسرا، اس طرح یہ لوگ ایک جگہ
جمع ہوگئے۔اگرچہ ان لوگوں میں کوئی تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی کے
باعث یہ لوگ ایک جگہ مل گئے اور ابتداء میں تو یہ سارے ایک دوسرے سے ڈر رہے
تھے کہ ایسا نہیں کہ میں ان کے سامنے اپنے دل کی بات رکھوں اور وہ کسی کو
بتا دے،بالآخر ان میں سے ایک کہا کہ دوستوں! کوئی تو بات ہے کہ ہم اس سارے
میلے ٹھیلے اور فضولیات کو چھوڑ کر یہاں آ بیٹھے ہیں۔میرا خیال ہے کہ ہر
ایک اپنے دل کی بات بتائے کہ کس چیز کے باعث اس نے باپ داد ا اور قوم کے اس
میلے اور رواج کو چھوڑ کر یہاں آنے میں عافیت سمجھی؟ اس کے جواب میں ایک نے
کہا کہ ’’مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم بالکل نہیں بھاتی۔جب ہمارا ،تمہارا
خالق ایک اللہ ہے تو ہم اس کو چھوڑ کر ان دوسرے معبودوں کی پوجا کیوں کریں؟
دوسرے نے کہا یہی بات مجھے بھی یہاں لیکر آئی ہے، پھر تیسرے نے اس کی تائید
کی اور پھر چوتھے نے ،اس طرح ان لوگوں نے اپنے دل کی بات ایک دوسرے سے
کی۔اب چونکہ یہ سب لوگ مذہبی،نظریاتی،اور روحانی طور پر ایک تھے اس لئے
فطرتی طور پر ان میں ایک تعلق قائم ہوگیا اور ایک محبت پیدا ہوگئی۔
اب ان لوگوں نے ایک جگہ مقرر کرلی اور وہاں آکر یہ لوگ ایک دوسرے سے ملنے
اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے۔آہستہ آہستہ لوگوں کو ان کے بارے میں پتہ
چلتا گیا اور پھر ایک دن لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور بادشاہ کے سامنے پیش
کردیا اور بادشاہ کو شکایت پیش کی کہ ’’ ان لوگوں نے باپ دادا کا دین چھوڑ
دیا ہے اور گمراہ ہوگئے ہیں‘‘ بادشاہ نے جب ان سے اس بابت دریافت کیا تو
انہوں نے بڑی دلیری اور صاف گوئی سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اور کہا
کہ ’’ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا مالک و خالق ہے۔ ناممکن ہے
کہ ہم اس کے سوا کسی کو اپنا معبود بنائیں۔اب ہم سے یہ نہ ہوسکے گا کہ اس
کے سوا کسی اور کو پکاریں یہ نہایت باطل چیز ہے۔ہم اس کام کو کبھی نہیں
کرنے کے۔یہ نہایت بے جا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے۔‘‘ اس کے ساتھ
ساتھ انہوں نے بادشاہ اور تمام اہل دربار و شہر والوں کو ایمان کی دعوت دے
ڈالی۔ان کی اس صاف گوئی اور دلیری سے بادشاہ بہت غضب ناک ہوا اور کہا کہ
اگر یہ باز نہ آئے تو میں انہیں سخت سزا دونگا۔انہوں نے جب یہ محسوس کرلیا
کہ ہم یہاں رہ کر اپنے دین پر قائم نہیں رہ سکتے تو پھر انہوں اپنے ،ماں
باپ،رشتے داروں اور دوست احباب کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک روز یہ
لوگ موقعہ پا کر اس بستی سے بھاگ نکلے اور پہاڑ کے غار میں چھپ رہے۔
بادشاہ اور ان کی قوم نے ان کو بہت ڈھونڈا لیکن ان کو کہیں نہ پاسکے۔ ادھر
ان نوجوانوں کا معاملہ یہ ہوا کہ جب یہ بستی سے نکلے تو ایک کتا بھی ان کے
ساتھ ہولیا۔یہ چھپتے چھپاتے ایک پہاڑ کے ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے جبکہ
وہ کتا غار کے منہ پر بیٹھ گیا ۔تھکن کے باعث وہ اس غار میں لیٹ گئے اور
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک طویل نیند طاری کرلی۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ
تعالیٰ نے لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لئے دو انتظامات کئے ،ایک تو یہ کہ
جو کتا انکے ساتھ آیا تھا اور غار کے دھانے پر بیٹھ گیا تھا، اللہ تعالیٰ
نے اس پر بھی نیند طاری کرلی لیکن وہ ایسی پوزیشن بھی بیٹھا ہوا تھا کہ دور
سے دیکھنے پر لگتا کہ گویا کہ وہ کتا بالکل چوکس و چاق و چوبند ہے اور کسی
چیز کی نگرانی پر بیٹھا ہے اس طرح لوگوں پر ایسا تاثر قائم ہوا کہ شائد اس
غار میں کوئی خطرناک ڈاکو ہیں اور یہ ان کا کتا ہے اس خوف سے کوئی اس غار
کے نزدیک نہ جاتا تھا اس کے ساتھ دوسرا انتظام یہ کیا گیا کہ انہوں نے جس
غار کا انتخاب کیا وہ شمالاً جنوباً واقع ہوا تھا اس طرح اس غار میں کسی
بھی موسم میں سورج کی روشنی نہ پہنچی تھی اور غار میں اندھیرا ہی رہتا اس
طرح اگر کوئی فرد بھولے بھٹکے سے غار تک پہنچ بھی جاتا تو اس کو غار میں
جھانکنے پر کچھ بھی نظر نہ آتا۔
پھر ایک خاص مدت کے بعد ( جس کا شمار اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن کم بیش یہ
تین سو سے تین سو نو سال کے لگ بھگ ہے) اللہ نے ان کو بیدار کیا،انہیں
بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ کتنی دیر تک سوتے رہے ہیں۔ بیدار ہونے کے
بعد انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ ہم کتنی دیر تک سوتے رہے ہونگے؟ان کا
خیال تھا کہ ایک دن یا اس سے بھی کچھ کم۔بہرحال اب ان کو بھوک محسوس ہورہی
تھی اس لئے انہوں نے بازار سے کچھ کھانے پینے کا سامان منگوانے کا ارادہ
کیا۔ان کے پاس کچھ درہم تھے انہوں نے وہ اپنے ایک ہوشیار ساتھی کو دیتے
ہوئے کہا کہ وہ جاکر بازار سے کچھ لے آئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نصیحت
بھی کی ’’دیکھو زرا احتیاط سے جانا ایسا نہ ہو کہ بادشاہ کے لوگ تمہیں دیکھ
لیں اور ہم لوگ پھر پکڑیں جائیں اور اس طرح وہ لوگ ہمیں دوبارہ اپنے دین
میں داخل کردیں‘‘۔
یہ نوجوان جب سکے لیکر بستی میں داخل ہوا تو اسے سب کچھ بدلا بدلا محسوس
ہوا،گھر بار اگرچہ ویسے ہی تھے لیکن شہر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ
میں نہیں آیا کہ یہ کیا ماجرا ہے کیوں کہ اپنے تئیں تو یہ لوگ ایک دن سے
بھی کم مدت سوئے رہے تھے۔اس نوجوان نے سمجھا کہ شائد میری ہی طبیعت ٹھیک
نہیں ہے اور مجھے جلد از جلد سودا لیکر اس شہر سے نکل جانا چاہئے۔ ایک دکان
پر جاکر جب اس نے سودا لیا اور وہ سکے دام میں دیئے ۔ قدیم سکے دیکھ کر
دکان دار حیران رہ گیا اور وہ سمجھا کہ اس کے پاس کوئی پوشیدہ خزانہ ہے۔
(جاری ہے)
مضمون کے ماخذ: تفسیر ابن کثیر :تفھیم القرآن |