مولانا الله وسایا
قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق”رب العالمین“ آں حضرت صلی الله
علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے ”رحمة للعالمین“ قرآن مجید کے لیے ”ذکر
للعالمین“ اور بیت الله شریف کے لیے ”ھدًی للعالمین“ فرمایا گیا ہے ، اس سے
جہاں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی آفاقیت وعالم گیریت
ثابت ہوتی ہے، وہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی
آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ پہلے
تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقے، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لیے
تشریف لائے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل
کائنات کو آپ کی نبوت ورسالت کے لیے ایک اکائی ( ون یونٹ) بنا دیا۔
جس طرح کل کائنات کے لیے الله تعالیٰ ”رب“ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لیے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نبی ہیں۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے
لیے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
﴿ارسلت الی الخلق کافة وختم بی النبیون﴾․
”میں تمام مخلوق کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم
کر دیا گیا۔“
(مشکوٰة ص512 ،باب فضائل سید المرسلین، مسلم ج1، ص199 ،کتاب المساجد)
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت
آخری امت ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ ( بیت الله شریف)
ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپ
صلی الله علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں،
جو الله تعالیٰ نے پورے کر دیے، چناں چہ قرآن مجید کو ”ذکر للعالمین“ اور
بیت الله شریف کو ”ھدی للعالمین“ کا اعزاز بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی
ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت آخری امت قرار
پائی، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے :
”انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم“
(ابن ماجہ ص:297)
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ الله نے اپنی شہرہٴ آفاق کتاب ”خصائص
کبریٰ“ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا، آپ صلی الله
علیہ وسلم کی خصوصیت قرار دیا ہے۔
( دیکھیے ج2، ص284,197,193)
اسی طرح امام العصر سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ الله فرماتے ہیں:
”وخاتم بودن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ازمیان انبیاء از بعض خصائص
وکمالات مخصوصہ کمال ذاتی خود است۔“
( خاتم النبیین، فارسی ص:60)
”اور انبیاء میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا خاتم ہونا، آپ صلی الله
علیہ وسلم کے مخصوص فضائل وکمالات میں سے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کا
اپنا ذاتی کمال ہے۔“
(خاتم النبیین اردو ص:187)
ختم نبوت سے متعلق آیات
سورہٴ احزاب کی آیت40 میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا
واضح اعلان ہے ،
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ
اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول
ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا
اس کے علاوہ چند دوسری آیات ملاحظہ ہوں:
*﴿ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ﴾․
(توبہ:22 ،صف9)
” وہی ذات ہے کہ جس نے اپنے رسول ( صلی الله علیہ وسلم )کو ہدایت اور دین
حق دے کر بھیجا ہے، تاکہ تمام ادیان پر بلند اور غالب کرے۔“
غلبہ اور بلند کرنے کی صورت یہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم ہی کی نبوت
اور وحی پر مستقل طور پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کو فرض کیا ہے اور
تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوتوں اور وحیوں پر ایمان لانے کو اس کے تابع
کر دیا ہے اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سب
انبیائے کرام علیہم السلام سے آخر میں ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم پر
ایمان لانا سب نبیوں پر ایمان لانے کو مشتمل ہو۔ بالفرض اگر آپ صلی الله
علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی باعتبار نبوت مبعوث ہو تو اس کی نبوت پر اور اس
کی وحی پر ایمان لانا فرض ہو گا، جو دین کا اعلیٰ رکن ہو گا تو اس صورت میں
تمام ادیان پر غلبہ مقصود نہیں ہو سکتا، بلکہ حضور علیہ السلام کی نبوت پر
ایمان لانا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا مغلوب ہو گا۔
کیوں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر اور آپ کی وحی پر ایمان رکھتے ہوئے
بھی اگر اس نبی اور اس کی وحی پر ایمان نہ لایا تو نجات نہ ہو گی، کافروں
میں شمار ہو گا۔ کیوں صاحب الزمان رسول یہی ہو گا۔ حضور علیہ السلام صاحب
الزماں رسول نہ رہیں گے۔ ( معاذ الله)
*﴿قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترة من الرسل﴾․
( مائدہ:19)
”آیا ہے تمہارے پاس رسول ہمارا، بیان کرتا ہے تم پر رسولوں کے انقطاع کے
بعد“۔
*﴿وما ارسلنک الا کافة للناس بشیرا ونذیرا﴾․
(سبا:2
”ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے
۔“
*﴿قل یآیھا الناس انی رسول الله الیکم جمیعاً﴾․
(سورہٴ اعراف:15
”فرما دیجیے کہ اے لوگوں! میں تم سب کی طرف الله تعالیٰ کا رسول ہوں۔“
یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کر رہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثنا تمام
انسانوں کی طرف رسول ہو کر تشریف لائے ہیں،
جیسا کہ خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”
انا رسول من ادرکت حیا، ومن یولد بعدی“
(میں اس کے لیے بھی الله کا رسول ہوں، جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس
کے لیے بھی جو میرے بعد پیدا ہوا۔)
(کنز العمال ج11، ص404 ،حدیث31885، خصائص کبریٰ ص88 ،ج2)
پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو
سکتا تو قیامت تک آپ صلی الله علیہ وسلم ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض
اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام
کافة الناس کی طرف الله تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہو سکتے، بلکہ
براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر او راس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو
اپنی طرف الله تعالیٰ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہو گا، ورنہ نجات ممکن
نہیں اور حضور علیہ السلام کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں
داخل ہو گا۔ ( معاذ الله)
*﴿ وما ارسلنک الا رحمة للعالمین﴾․
( سورہٴ انبیاء:107)
” میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔“
یعنی حضور علیہ السلام پر ایمان لانا تمام جہان والوں کی نجات کے لیے کافی
ہے۔ پس اگر بالفرض آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپ
صلی الله علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی
پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہو گی اور یہ رحمة للعالمینی کے منافی ہے کہ
اب آپ صلی الله علیہ وسلم پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں، آپ صلی الله
علیہ وسلم صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ الله)
*﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا﴾․
(سورہ مائدہ:3)
”آج میں پورا کرچکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان
اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“
یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے، مگر آں حضرت
صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیر
پذیر تھے، اس لیے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوش خبری دیتے رہے ،
یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی
نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان
لانے پر مشتمل ہے ، اسی لیے اس کے بعد ﴿اتممت علیکم نعمتی﴾ فرمایا۔ علیکم
یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کر دیا۔ لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت
نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلہ وحی جاری
رہ سکتا ہے ۔
اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے کہا تھا کہ امیر
المؤمنین! قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔
(رواہ البخاری)
اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی دن زندہ رہے۔
( معارف القرآن ،ص41 ،ج3)
اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال وحرام نازل نہیں ہوا۔ آپ صلی الله
علیہ وسلم آخری نبی اور آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کامل ومکمل
آخری کتاب ہے۔
*﴿یا ایھا الذین آمنوا اٰمنوا بالله ورسولہ والکتاب الذی نزل علی رسولہ
والکتاب الذی انزل من قبل﴾․
(النساء:136)
”اے ایمان والوں! ایمان لاؤ الله پر اور اس کے رسول پر اوراس کتاب پر جس کو
اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جوان سے پہلے نازل کی گئیں۔“
یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کر رہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت
اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی وحی اور آپ سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں
پر ایمان لانے کا حکم ہے ۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی عہدہٴ
نبوت پر مشرف کیا جاتا تو ضروری تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر
ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے
بعد کوئی نبی نہیں بنایاجائے گا۔
*سورہٴ بقرہ میں ارشاد ہے:
ترجمہ: ”جو ایمان لاتے ہیں اس وحی پر جو آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل کی
گئی اور اس وحی پر جو آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے نازل کی گئی اور یوم
آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح
پانے والے ہیں۔“
( سورہ بقرہ:5,4)
تنبیہ: یہ آیتیں بطور اختصاص کے ختم نبوت کے ثبوت اور تائید میں پیش کر دی
گئیں، ورنہ قرآن کریم میں سو آیتیں ختم نبوت پر واضح طور پر دلالت کرنے
والی موجود ہیں۔
ختم نبوت سے متعلق احادیث مبارکہ
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ میری او رمجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک
شخص نے بہت ہی حسین وجمیل محل بنایا، مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی
جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور کہنے لگے
کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگا دی گئی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” میں
وہی ( کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔“
(صحیح بخاری، کتاب المناقب، ص501، ج1، صحیح مسلم، ص248، ج2، واللفظ لہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم
نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی
: مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے۔ رعب کے ساتھ میر ی مدد کی گئی۔ مال غنیمت
میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے۔ روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے
والی چیز بنا دیا گیا ہے۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ اور
مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔
اس مضمون کی ایک حدیث صحیح میں حضرت جابر رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے کہ
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں
جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، اس کے آخر میں ہے :” پہلے انبیاء کو
خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف
مبعوث کیا گیا۔“
( مشکوٰة، ص:512)
*حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ
وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا:”تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو
ہارون کو موسیٰ ( علیہما السلام) سے تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں“۔
اور مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ” میرے بعد نبوت نہیں ۔“
( بخاری ص633، ج2، صحیح مسلم ص:678، ج2)
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ الله تعالیٰ اپنی تصنیف”ازالة الخفاء“
میں مآثر علی، کے تحت لکھتے ہیں:
( ازالة الخفا مترجم ص:444 ج2)
*حضرت ابوہریرہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور
علیہ السلام نے فرمایا کہ” بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیائے کرام
علیہم السلام کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ
دوسرا نبی آتا تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلفاء ہوں گے او
ربہت ہوں گے۔“
تنبیہ: بنی اسرائیل میں غیر تشریعی انبیاء آتے تھے، جو حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی شریعت کی تجدید کرتے تھے، مگر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد
ایسے انبیاء کی آمد بھی بند ہے۔
( صحیح بخاری، ص491، ج1، صحیح مسلم، ص:126 ج،2، مسند احمد ص:297، ج1)
*حضرت ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ”
میری امت میں تیس جھوٹے پیداہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں
حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔“
(ابوداؤد ص،127، ج2، کتاب الفتن واللفظ لہ، ترمذی ص45 ج2)
*حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ
وسلم نے فرمایا کہ رسالت ونبوت ختم ہو چکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے
اور نہ نبی۔“
(ترمذی ص51 ج،2 ابواب الرؤیا، مسند احمد ص:267 ج3)
*حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”
ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، صرف اتنا ہوا کہ ان کو
کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔“
( صحیح بخاری، ص120، ج1 ،و اللفظ لہ، صحیح مسلم ص282، ج1)
*حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ
ہوتے۔“
(ترمذی ص209 ،ج2 ،ابواب المناقب)
*حضرت جبیر بن مطعم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی الله
علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں۔ میں محمد
ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ( مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے الله تعالیٰ
کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر ( جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر
اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب ( سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی
نبی نہیں۔“
اس حدیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دو اسمائے گرامی آپ صلی الله
علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ اول ”الحاشر“ حافظ ابن
حجر فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور کوئی
شریعت نہیں… چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کے بعد کوئی امت نہیں اور
آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ، اس لیے حشر کو آپ صلی الله
علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا گیا، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی
تشریف آوری کے بعد حشر ہو گا۔“
دوسرا اسم گرامی:” العاقب“ جس کی تفسیر خود حدیث میں موجود ہے یعنی کہ
”الذی لیس بعدہ نبی“ (جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہو۔)
*متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے انگشت
شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:”بعثت انا والساعة
کھاتین“۔ (مسلم ص406 ج2)
کہ”مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے“
ان احادیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعثت اور قیامت کے درمیان
اتصال کا ذکر کیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم
کی تشریف آوری قرب قیامت کی علامت ہے اور اب قیامت تک آپ صلی الله علیہ
وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چناں چہ امام قرطبی رحمہ الله تعالیٰ ”تذکرہ“
میں لکھتے ہیں:
*” اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے اور قیامت کو
ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ میں آخری نبی
ہوں ، میرے بعد اور کوئی نبی نہیں، میرے بعد بس قیامت ہے، جیسا کہ انگشت
شہادت درمیانی انگلی کے متصل واقع ہے، دونوں کے درمیان اور کوئی انگلی
نہیں… اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔“
(التذکرة فی احوال الموتی وأمور الاخرة، ص711)
علامہ سندھی رحمہ الله تعالیٰ حاشیہ نسائی میں لکھتے ہیں:
”تشبیہ دونوں کے درمیان اتصال میں ہے ( یعنی دونوں کے باہم ملے ہوئے ہونے
میں ہے یعنی جس طرح ان دونوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں، اسی طرح آں
حضرت صلی الله علیہ وسلم کے درمیان اور قیامت کے درمیان اور کوئی نبی
نہیں۔“ (حاشیہ علامہ سندھی برنسائی، ص234، ج1)
ختم نبوت پر اجماع
حجة الاسلام امام غزالی” الاقتصاد“ میں فرماتے ہیں:
”بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ ( خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا
مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہو گا اور نہ
رسول اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل وتخصیص نہیں اور اس کا
منکر اجماع کا منکر ہو گا۔“
حضرت ملا علی قاری رحمہ الله تعالیٰ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:”ودعویٰ
النبوة بعد نبینا صلی الله علیہ وسلم کفر بالاجماع“
(شرح فقہ اکبر202)
”ہمارے نبی صلی اکے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔“
علامہ ابن نجیم مصری جن کو ابوحنیفہ ثانی کہا جاتا ہے ، فرماتے ہیں:”اذا لم
یعرف ان محمداً صلی الله علیہ وسلم اٰخر الانیبآء فلیس بمسلم، لانہ من
الضروریات“( یعنی اگر کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم
آخری نبی ہیں تو وہ شخص ہر گز مسلمان نہیں، کیوں کہ یہ عقیدہ ضروریاتِ دین
میں سے ہے)۔ (الاشباہ والنظائر، مطبوعہ کراچی ص91 ج2)
ختم نبوت پر تواتر
حافظ ابن کثیر آیت خاتم النبیین کے تحت لکھتے ہیں:”وبذلک وردت الاحادیث
المتواترة عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم من حدیث جماعة من الصحابة رضی
الله عنہم“ (تفسیر ابن کثیر، ص493، ج3)
” اور ختم نبوت پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے احادیث متواترہ وارد ہوئی
ہیں، جن کو صحابہ رضی الله عنہم کی ایک بڑی جماعت نے بیان فرمایا ہے۔“
اور علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین
لکھتے ہیں:
”اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر
قرآن ناطق ہے ، احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور
امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہوا اس کو کافر
قرار دیا جائے اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔“
پس عقیدہٴ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے، اس طرح آں
حضرت صلی الله علیہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں
امت کا اس پر اجماع واتفاق چلا آیا ہے ۔
( ملخص از آئینہ قادیانیت)
شائع ہواالفاروق, جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ |