تاج الشریعہ علامہ اختررضاں ازہری رحمۃ اللہ علیہ کی صد رنگ شخصیت

چودہویں صد ی کےنصف ِاخیر میں بریلی شریف کے آسمانِ علم وحکمت پر ایک ایسا سورج طلوع ہوا جس کی ضیار بارکر نوں نے صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ پورےعالم اسلام کو منور کردیا، جس کی بر کتوں سے علم وفضل اور معرفت وطریقت کی گلیاں مشک بار ہو گئیں،جن کے علم وفضل کا ڈنکا چہار دانگ ِعالم میں بجا ،جن کے فضائل ومحاسن کا اعتراف اپنوں نے تو کیا ہی غیروں نے بھی ان کی عظمتوں کے خطبے پڑھے، جن کی نگہ ِالتفات نے نہ جانے کتنے غیر آبا ددلوں کو عشق ِرسالت مآب کی آماجگاہ بنادیا ،جن کے لبوں کی ایک جنبش نے ہزاروں دلوں کی دنیا بدل ڈالی، جن کے قدم ناز نے ہزاروں آبادیوں میں نہ جانے کتنے عشق وعرفاں کے گلستاں آباد کردیے ،جن کے قلم حق رقم نے باطل افکار ونظر یات کی دھجیاں اڑادیں،جن کی علمی وفقہی تحقیقات نے اربابِ فکر ودانش کو انگشت بدنداں کر دیا ، جن کی جرأت وبے باکی نےشاہان ِ زمانہ کو بے بس ومجبورکر دیا ،اباحت پسندی کے اس دور میں جن کی عزیمت واستقامت نےاہل جہاں کو حیرت واستعجاب میں ڈال دیا،جن کے زہد وتقویٰ نے اسلاف کی یادیں زندہ کردیں،جن کےتوکل واستغنا کا مشاہدہ پوری دنیا نے کیا، جن کی مرجعیت اور مرکزیت کودیکھنے والوں نے چشم حیرت سے دیکھا،جن کی فضیلتوں کا اعتراف دنیا کی سب سے بڑی اسلامی یونی ورسٹی جامعہ ازہر مصر نے بھی کیا ،جن کو بر صغیر کے اہل ایمان نے اپنا مقتدا اور رہنما تسلیم کیا،یہ وہ محاسن وکمالات ہیں جو کم ہی لوگوں کے حصے میں آتے ہیں، بلا شبہہ ایسی شخصیتیں بر سوں میں جنم لیتی ہیں ۔وارث علوم اعلیٰ حضرت، جا نشین ِمفتی اعظم ہند ، تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی الشاہ اختر رضا خان قادری ازہری علیہ الرحمہ خانوادۂ رضویہ بریلی شریف کےوہ چشم وچراغ تھے ،جنھوں نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی علمی ، فکری اورروحانی تحریک کو پوری شان وشوکت کے ساتھ آگے بڑھایا ، جنھوں نے ، تاج دارا ہل سنت، مفتی اعظم ہند علامہ مصطفٰی رضا خا ں علیہ الرحمۃ والرضوان کے مسند ارشاد وہدایت کی جلوہ سامانیوں میں چار چاند لگا دیا اور ان کی جانشینی و نیابت کا حق صحیح معنوں میں اداکیا ۔
حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی تر بیت جن روحانی شخصیتوں کے سائے میں ہو ئی ، ا ن میں سب سے نمایاں نام مفتی اعظم ہند ، تاج داراہل سنت ، حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خاں نوری بریلوی علیہ الرحمہ کا ہے ، فتویٰ نویسی کی مشق بھی آپ نے انہی کی خدمت با بر کت میں رہ کر فر مائی ،حضرت مفتی اعظم ہند کی تر بیت ،ذاتی جد وجہد، اور خاندانی ذہانت وفظا نت نے ایسا اثر دکھا یا کہ آپ اپنے عہد میں بر صغیر کے سب سے عظیم مفتی وقاضی کی حیثیت سے متعارف ہو ئے ، پھر آپ دیار ہند کے قاضی القضاۃ کے منصب ِ اعلیٰ پر بھی فائز ہو ئے ۔کسی بھی مسئلے پر آپ کا فتویٰ حرف آخر ہوتا تھا ، نہ جانے کتنے دقیق اور گنجلک مسائل کا آسان حل ڈھونڈ کر آپ نے امت ِ مسلمہ کی رہنمائی فر مائے اور ملت ِ اسلامیہ کو انتشار سے بچایا ،آپ کے مطبوعہ فتاویٰ کے مطالعہ سے فقہ وافتا کے میدان میں آپ کے کمالات کا اندازہ ہو تا ہے۔
تصنیف وتالیف کا ذوق آپ کو خاندانی وراثت کے طور پر ملا تھا ، آپ کے جد امجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ مغرب و مشرق میں اپنی تصانیف اور اپنی علمی تحقیقات کےحوالے سے پہچانے گئے ۔ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی تصانیف میں بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے طرز تصنیف کے جلوے نظر آتے ہیں ،اردو عربی دونوں زبانوں میں اس قدر سستہ نثر تحریر فر ماتے ہیں کہ قاری کے لیے یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ آپ عربی زبان وادب پر زیادہ قدرت رکھتے ہیں یا اردونثر ونظم پر، ۔ آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔تحقیقی انداز ،مضبوط طرز استدال ، کثرت حوالہ جات، روانی وسلاست آپ کی تحریروں کے امتیازی اوصاف ہیں ۔ دعوت وتبلیغ ،افتاو قضا، کثیراسفار اور دیگر علمی مصروفیات کے باوجود آپ نے مختلف زبانوں میں متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی متعدد تصانیف کا اردو سے عربی اور عربی سے اردو میں ترجمہ فر مایا ۔
ملکی وبین الاقوامی سطح پر دین کی دعوت وتبلیغ کا کام آپ نے بہت ہی وسیع پیمانے پر انجام دیا،اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان میں بڑی تاثیر عطا فرمائی تھی ، آپ کی شخصیت کی جاذبیت بھی دعوت وتبلیغ کی مشکلات کو آسان کر نے میں معاون ہوتی، جو آپ کی زیارت کر لیتا وہ آپ کا ہوجاتا،آپ جس علاقے میں تشریف لے جاتے لوگ آپ کا وعظ سننے اور آپ کی زیارت کے لیے پر وانہ وار ٹوٹ پڑتے ،آپ کے خطاب کاایک ایک جملہ دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کر نے کی کوشش کرتے ،آپ نےہندو پاک کے علاوہ دنیا کے بیشتر مما لک میں تبلیغی دورے فر مائے ،ہزاروں افراد کو داخل سلسلہ فر مایا ،داخل سلسلہ فر مانے سے پہلے شریعت پر استقامت اور گناہوں سے باز رہنے کی تلقین فر ماتے ،آپ کا وعظ بہت ہی مصلحانہ اور اثر انگیز ہوا کر تا تھا،دل کو موہ لینے والا انداز ،صاف وشفاف اسلوبِ بیان ، قرآن وحدیث سے ایسا استدلا ل کہ سامعین محوسماعت ہوجاتےاور اپنے اندر ایک عجیب تبدیلی کی کیفیت محسوس کرتے ۔
تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضاخان قادری ازہری علیہ الرحمہ کو شعر وسخن کا ذوق بھی خانوادہ رضا سے ورثے میں ملا تھا ، اعلیٰ حضرت امام احمدر ضا بریلوی ، علامہ حسن رضا خاں بریلوی ، مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان نوری بریلوی قدست ا سرارہم کی نعت گوئی اوراقلیم ِ سخن کی شہنشاہی کااعتراف ہر طبقے نے کیا ہے ۔حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ خانوادہ رضویہ کے نعت گو شعرا کی ایک اہم کڑی تھے،اردو کے ساتھ عربی زبان میں بھی آپ نے شاعری کے جلوے بکھیرے ، آپ کے نعتیہ اشعار میں عجب سوز وگداز، حیرت انگیزسوزِ دروں اور عشق ومحبت کی ترجمانی کے جوہر نظر آتے ہیں ، آ پ کی لکھی نعتوں کا اک اک مصرعہ دل میں عشق رسول کی شمع فروزاں کر تا ہے ۔شعری معنویت ، پیکر تراشی، سرشاری وشیفتگی،فصاحت وبلاغت، حلاوت و ملاحت، جذب وکیف سے بھرپور آپ کے نعتیہ اشعار زبان زد عام وخاص ہیں ۔’’سفینہ بخشش‘‘ کے نام سے آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ عوام وخواص میں محبوب ومقبول ہے ۔
معروف ادیب ، شاعر ، نقاد حضرت ڈاکٹر محمدحسین مشاہد رضوی رقم طراز ہیں:
’’علامہ اخترؔرضا ازہری بریلوی بیک وقت عظیم محدث وفقیہ،مفکر و مدبر،ادیب و خطیب، تصوف و ولایت کے دُرِّنایاب،دعوت و تبلیغ کے آفتاب و ماہ تاب، رشد و ہدایت کے گلِ خوش رنگ اور بافیض معلم و مصلح ہونے کے ساتھ ساتھ مقبولِ زمانہ نعتیہ کلام کے عمدہ اور مشہور و معروف نعت گو شاعر بھی ہیں۔ آپ کا اشہبِ قلم نثر و نظم میں یکساں رواں دواں ہے۔ اردو کے علاوہ آپ کو عربی و فارسی پر بھی عالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل ہے۔ آپ کی عربی دانی کو دیکھ کر اہل زبان عش عش کر اُٹھتے ہیں۔ آپ کے علمی اثاثے میں ایک معتد بہ حصہ عربی نثر و نظم پر مشتمل ہے۔ آپ کو اپنے اسلافِ کرام سے علوم و فنون اور شریعت وطریقت کے ساتھ عشقِ نبوی علیہ الصلاۃ والتسلیم کی دولت عظمیٰ بھی ملی۔عشقِ رسولِ مقبول ﷺ آ پ کو گھٹی میں پِلایا گیا۔ اسی عشق کے اظہار کے لیے آپ نے نعتیہ شاعری کو وسیلہ بنایا اور اپنے اجدادِعظام کی طرح دنیائے علم و ادب کو ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے نام سے ایک گراں قدر تحفہ عنایت کیا۔
آپ کا مجموعۂ کلام’’سفینۂ بخشش‘‘ عشق رسولِ مقبول ﷺ میں ڈوبی ہوئی نعتوں کا ایک حسین و جمیل ، روح پرور گل دستہ ہےجس میں مدحت رسولﷺ کا عقیدت مندانہ بیان ہے۔علامہ اخترؔرضا بریلوی کی نعت گوئی کو بھی دبستانِ بریلی کے دیگر شعر ا کی طرح محض عشق رسالت مآبﷺ کے اظہار کا مرقع نہیں کہا جاسکتا بلکہ آپ کا کلام فکر و فن،جذبہ و تخیل،زبان و بیان،فنی گیرائی و گہرائی، جدتِ ادا،زورِ بیان ، حسن کلام،تشبیہات و استعارات اور صنائع لفظی و معنوی جیسے شعری و فنی محاسن کا آئینہ دار بھی ہے۔‘‘(’’ بلبلِ بستانِ مدینہ :علامہ اخترؔ رضا ازہری بریلوی‘‘ ص؍۳)
آپ کے چند معروف نعتیہ اشعار جو مجھے بے حد پسند ہیں ، جن کو سن کر دل وماغ میں ایک عجیب کیف وسرور پیدا ہو تا ہے،یہاں پیش کیے جاتے ہیں :
منور میری آنکھوں کو میرے شمس الضحیٰ کر دیں غموں کی دھوپ میں وہ سایۂ زلف دوتا کر دیں
جہاں بانی عطا کر دیں، بھری جنت ہبہ کردیں نبی مختار کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کر دیں
داغ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا کاش گنبد خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا
دم مرا نکل جاتا ان کے آستا نے پر ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا
حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا خاص وصف یہ تھا کہ انہوں نے شرعی معاملات میں کبھی بھی حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا ،مشکل سے مشکل حالات میں انہوں نےاستقا مت کی وہ اعلیٰ مثال پیش کی جس کی نظیر دور دور تک نظر نہیں آتی ، حق گوئی وبے باکی اور جرأت و ہمت کے کئی منا ظر لوگوں نے کی آپ کی حیات مبارکہ میں دیکھے ۔
ستمبر ۱۹۸۶ء/۱۴۰۷ھ میں دوران حج سعودی حکو مت نے آپ کو بلا سبب بتائے گرفتار کر لیا، اور گیارہ دنوں تک قید وبند میں رکھا، اس دوران وہاں کی خفیہ پو لیس ایجنسی نے آپ سے معمولات ومعتقداتِ اہل سنت کے بارے میں بہت سارے سوالات کیے ۔ علم غیب رسول، توسل واستمداد اورشفاعت وغیرہ مسائل پر آپ سےطرح طرح سے سوالات کیے گئے، آپ نے عربی زبان میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ان معتقدات اہل سنت کو واضح کیا اور یہ باور کرا دیا کہ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے کسی نئے مذہب کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ ان کا مذہب وہی تھا جو سر کارمحمد مصطفیٰﷺ کا اور صحابہ وتابعین کا اور ہر زمانے کے صالحین کا مذہب ہے۔ساری تفتیش کے بعد سی آئی ڈی آفیسر نے کہا :میں آپ کا، آپ کے علم ، عمر اور شخصیت کی وجہ سے احترام کر تاہوں اور آپ سے مخصوص اوقات میں دعاؤں کا طالب ہوں ۔ گیارہ دنوں کے بعد آپ کو مدینہ منورہ کی حاضری کے بغیر ہی ہندوستان واپس بھیج دیا گیا ۔
ہندو پاک سمیت پوری دنیا میں آپ کی گرفتاری کی خبر پھیل چکی تھی ، پوری دنیا میں سعودی حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ،ورلڈ اسلامک مشن لندن ، رضا اکیڈ می ممبئی ،جمعیۃ علماے اسلام پاکستان اور چھوٹی بڑی انجمنوں نے پورے برصغیر میں زبر دست احتجاجی مظاہرے کیے ، علامہ ارشد القادری ، مولانا عبد الستار خاں نیازی ، مولانا شاہد رضانعیمی ،مولانا شاہ احمد نورانی ، وغیرہ اکابر علما وقائدین نے لندن میں سعودی حکمراں شاہ فہد ، شہزادہ عبداللہ اور تر کی بن عبد العزیز سے ملاقاتیں کیں اور سعودی حکو مت کی اس قبیح حر کت پر معافی کا مطالبہ کیا اور جملہ عازمین حج وعمرہ کو اپنے مسلک کے مطابق ارکان ادا کر نے اور نماز ادا کر نے کی اجازت کے لیے میمورنڈم پیش کیا۔زبر دست احتجاجی مظاہروں کو دیکھ کر سعودی حکومت نے فوراً ان مطالبات کو قبول کر لیا اور سعودی سفیر براے ہندوستان فواد صادق مفتی کے توسط سےحضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں یہ خبر پہنچائی کہ گزشتہ معاملات کے لیے سعودی حکومت آپ سےمعذرت خواہ ہے اور زیارت مدینہ منورہ کے لیے آپ کو ایک مہینے کا خصوصی ویزہ پیش کرتی ہے ۔آپ نے ۲۴ ؍مئی ۱۹۸۷ء/۱۴۰۷ھ کو حجاز مقدس کا سفر فرمایا، روضہ رسول پر حاضری دی اور مکمل اطمینا ن کے ساتھ ہندوستان واپس تشریف لائے ۔
مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا کا قیام ، شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کی تاسیس، مختلف علاقو ں میں مدارس اور مساجد کا قیام ، ملک کے سیکڑوں اداروں کی قیادت وسر پرستی ،اہل علم وفن کے بے شمار پیچیدہ مسائل کی عقدہ کشائی ، ہزاروں مریدین وخلفا کی تربیت، دروس حدیث وتفسیر ،افتا وقضا کی ذمے داریاں یہ وہ اہم خدمات ہیں جن کے تفصیلی تذکرے کے لیے باضابطہ مبسوط تصنیف کی ضرورت ہے ۔ہم بس اتنا کہہ کر ختمِ سخن کرتے ہیں کہ وہ علم وفن ، تصوف وروحانیت اورطریقت ومعرفت کے عظیم تاج دار تھے ، دنیا انھیں ان کے انھی اوصاف کی وجہ سے تاج الشریعہ ،وارث علوم اعلیٰ حضرت ، قاضی القضاۃ فی الھند جیسے عظیم القابات سے یاد کرتی تھی ، اور ان شاء اللہ صبح قیامت تک ان کی عظمتوں کے چرچے یوں ہی زندہ وتابندہ رہیں گے ۔
۲۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء /۶ ؍ذی قعدہ ۱۴۳۹ھ کو ملت اسلامیہ کے اس عظیم قائد ورہنما نےاس دنیا کو خیربادکہا اور ہمیشہ کے لیے خلد آشیاں ہو گئے ۔آپ کے وصال کی خبر سے پوری جماعت اہل سنت سکتے میں آگئی ، رنج وغم ، کرب والم اور اضطرابی وبے چینی کاماحول پیدا ہو گیا ، آنا فانا آپ کے وصال کی خبر چہار جانب پھیل گئی ، مدارس اہل سنت میں قرآن خوانی وایصال ثواب کا سلسلہ شروع ہو گیا ، مختلف تنظیموں ، تحریکوں ، اور دینی اداروں ، خانقاہوں ، سجادہ نشینوں اور ہندوستان کے مایہ نازعلمی وادبی شخصیتوں کی طرف سے تعزیتی بیانات سوشل میڈیا میں آنے لگے ،آہ وبکا کی سسکیوں سے سوشل میڈیا لرز اٹھا ، چند گھنٹوں کے اندر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارانظام درہم بر ہم ہو گیا ہے ،زندگی تھم گئی ہے ، سانسیں رک گئی ہیں ،فضائیں سوگوار ہو گئی ہیں ، ہوائیں ماتم کناں ہیں ،کیا مغرب کیا مشرق ،کیا شمال ،کیا جنوب ، ہر جگہ انھیں کے تذ کرے ہیں ،ہر زبان پر انھیں کے مناقب ہیں ، ہر دل میں انھیں کی یادیں ہیں ، ہر آنکھ میں انھیں کے آنسو ہیں ،ہر بزم میں انھیں کےجلوے ہیں ،ہرشخص حیران وپریشان ہے ، سب کی خواہش ہے کہ مر شد طریقت کا آخری دیدار ہو جائے ، ہر عاشق کی تمنا ہےکہ ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت نصیب ہو جائے ، ہر سماعت گوش بر آواز ہے کہ جنازے کا صحیح وقت معلوم ہو جائے ، سوشل میڈیا پر ہزاروں نگاہیں ٹکی ہیں کہ بریلی شریف سے کوئی اعلان نشر ہو ،بریلی کےاحباب کو فون لگایا جارہا ہے ، بریلی شریف پہنچنے کی صورتیں نکالی جارہی ہیں ،چند گھنٹوں میں لکھنو اور دہلی کی ساری فلائٹس بک ہو چکی ہیں ، ٹرینوں میں ریزرویشن کے لیے تگ ودو کیا جارہا ہے ، پرائیوٹ گاڑیوں کی بکنگ کا سلسلہ جاری ہے ، شب کے کسی حصے میں سوشل میڈیا میں ایک خبر آئی کہ نماز جنازہ ۲۲جولائی کو بعد نماز ظہر اسلامیہ انٹر کالج بریلی شریف میں ادا کی جائے گی ،لیکن کچھ گھنٹوں کے بعد ہی اس خبر کی تردید کر دی گئی اور اعلان کیا گیاکہ نماز جنازہ کا صحیح وقت ۲۲ جولائی ۲۰۱۸ ء دس بجے دن ہے ۔
بس کیا تھا عاشقوں کے قافلے سوے بریلی روانہ ہو نے لگے ، دہلی ،گجرات ، مہاراشٹر، کرناٹک، تمل نادو،اڑیسہ، راجستھان ، ہر یانہ ، جموں کشمیر ،اتر پردیش ،مدھیہ پر دیش ،ہماچل پر دیش، چھتیس گڑھ ، اترا کھنڈ،جھار کھنڈبہار ، بنگال ، آسام وغیرہ صوبوں سے بس، کار ،ٹرین اورفلائٹ سے اہل عقیدت بریلی شریف کے لیے روانہ ہو گئے ، امریکہ ، بر طانیہ ، آسٹریلیا، افریقہ ، سعودیہ ، ماریشش، عمان وغیرہ سے غمزدہ قافلے پہنچنے لگے ،ادھر بریلی شریف کا حال یہ تھا کہ اہل عقیدت آپ کے وصال کے بعد ہی سے محلہ سوداگران پہنچنا شروع ہو گئے تھے ، کچھ دیر میں گویا پور ابریلی محلہ سوداگران میں سماگیا تھا ، گلیوں ، سڑ کوں اور راستوں میں تل دھر نے کی جگہ نہیں تھی ۔
عاشقوں کی ایک جماعت کی معیت میں راقم الحروف بھی بھیگی پلکوں کے ساتھ کشی نگر سے گورکھ پور ، بستی ، لکھنؤ، سیتاپور ، شاہ جہاں پورکے راستے شہر محبت بریلی شریف کے لیے ۲۱ جولائی ۲۰۱۸ء کو بعد نماز عصر روانہ ہوا،نیشنل ہائی وے پر اکثر کاروں اور بسوں میں علماے کرام اور خوش عقیدہ سنی مسلمان ہی نظر آرہے تھے، جس پٹرول پمپ یاہوٹل پررکتے ، چاروں طرف تاج الشریعہ کے عقیدت مندوں کی بھیڑ نظر آرہی تھی ،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج پورا ہندوستان بریلی شریف کے لیے پا بہ رکاب ہے ،ہر عاشق اپنے عشق کی سوغات پیش کر نے کے لیے بے چین ومضطرب ہے ،چہروں سے غموں کے آثار نمایاں ہیں ، سفر کا تکان ظاہر ہے ،لیکن حوصلوں میں عجیب تازگی ہے ،دلوں میں عجیب ذوق وشوق ہے ،سر میں عجیب سودا سمایا ہوا ہے ،ہر شخص بریلی شریف پہنچ کر نماز جنازہ میں شر کت کو یقینی بنانا چاہتا ہے ،رات کے تین بجے سیتا پور کے ایک ڈھابے پر ہماری گاڑی رکی تو دیکھا طویل وعریض ڈھابے میں ہر طرف ٹوپی ہی ٹوپی نظر آرہی ہے،لوگوں کا ازدحام ایسا کہ کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے ، چاے ، منرل واٹر اور ہوٹل کے تمام ماکولات ومشروبات ختم ہو چکے ،یک بار گی اس قدر بھیڑ اور انسانوں کے نہ تھمنے والا سلسلہ دیکھ کرہر کوئی حیران وپریشان ہے ، برادرانِ وطن سوالوں پر سوال کر رہے ہیں ، آخر آج اس قدر انسانوں کا سیلاب کہاں جارہا ہے ،کس عظیم ہستی کے جنازے میں شر کت کے لیے ہر کوئی عازم سفر ہے ؟
فجر کی نماز ادا کر نے کے لیے صبح چار بجے شاہ جہاں پور کے قریب ایک ڈھابے میں رکے تو یہاں بھی وہی منظر تھا ، سیکڑوں گاڑیاں شاہراہ عام کے کنارے لگی تھیں ، کچھ لو گ وضو کر رہے تھے ، کچھ نمازوں میں مصروف تھے ،لائن لگاکر کسی طرح میدان میں رکھے ایک تخت پر ہم لوگوں نےنماز فجر ادا کی ،اور اس خیال سےوہاں سے جلدی روانہ ہو گئے کہ اسلامیہ انٹر کالج میں مناسب جگہ مل جائے گی،شاہ جہاں پور کے معروف قصبہ کٹرہ میراں پور سے کچھ آگے بڑھے ہی تھے کہ شاہراہ عام جام ہو گیا ، کئی کئی کلو میٹر تک گاڑیاں قطار میں کھڑی نظر آئیں ،ساری گاڑیا ں جنازہ میں شرکت کے لیے بریلی شریف جارہی تھیں ، لمبا جام دیکھ کر ، ہمارے احباب مایوس ہو نے لگے کہ شاید اب جنازے میں شرکت نہیں ہو پائے گی ، یہا ں سے بریلی شریف تقریبا چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا ،تقریبا دوگھنٹے تک جام میں پھنس کراسی کش مکش میں الجھے رہے ، یہیں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے متعدد طلبہ سے ملاقات ہوئی ، طلبہ نے بتایا کہ سات آٹھ بسیں جامعہ اشرفیہ سے آئی ہیں اور ابھی کئی بسیں اسی جام میں پھنسی ہوئی ہیں ۔خیر پولیس محکمہ کی کڑی محنت کے بعدراستہ صاف ہوا ہم لوگ ٹھیک ساڑھے نوبجے بریلی شریف پہنچ گئے ، اسلامیہ انٹر کالج سے پانچ کیلو میٹر دور ہی گاڑیاں روک دی گئیں ، آٹو رکشہ سے روڈویز بس اسٹیند تک پہنچے ،وہاں سے پیدل اسلامیہ انٹر کالج کے لیے روانہ ہو ئے تو چاروں طرف عاشقوں کا ہجوم تھا ، گلیوں اور سڑکوں پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی ،ہر طرف تاحد نگاہ انسانوں کا سیلاب نظر آرہا تھا ، اسلامیہ انٹر کالج کے علاوہ جی آئی سی گراؤنڈ، ضلع اسپتال،آریہ سماج یتیم خانہ گراؤند، کہاڑا پیر مین روڈ سے کتب خانہ چوک ہوتے ہوئے چوپلہ پل سے آگے تک ،ہائی وے پر پولیس لائن سے سٹی ریلوے اسٹیشن ہوتے ہوئے شمسان بھومی ریلوے کراسنگ سے آگے تک،کتب خانہ چوک سے ایوب خاں چوک ہو تے ہوئےمشن اسپتال اور کالی باڑی تک، نومحلہ مسجد ، ناولٹی چوراہا، پرانا روڈویز، بس اسٹاپ اور اس کے آس پاس کے روڈ اور گلیاں اور آس پاس کے خالی پلاٹ ،بہت سی عمارتوں کی چھتیں نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں سے بھری ہوئی تھیں ۔۲۲؍ جوئی ۲۰۱۸ ءبروز اتوار تقریبا گیارہ بجے دن اسلامیہ انٹر کالج میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔
ہمیں جنازہ میں شریک ہو نے والوں کی تعداد کا صحیح علم تو نہیں اور نہ تعداد سے ہمیں کوئی بحث ہے ، لیکن اتناکہنے میں کوئی تامل بھی نہیں ہے کہ بریلی کی نظروں نے انسانوں کا ایسا سیلاب ماضی میں کبھی نہیں دیکھا ہو گا ، جنازے تو بہت دیکھے ہوں گے لیکن یہ شان و شوکت کم ہی دیکھی ہو گی ، عاشقوں کا جنازہ ایسا ہی ہو تا ہے ، اللہ کے نیک بندوں کی یہی پہچان ہو تی ہے، خلق خدا کشاں کشاں ان کی طرف کھنچی چلی آتی ہے ،اللہ اپنے نیک بندوں کی محبت مخلوق کی دلوں میں ڈال دیتا ہے ،یہ محبت کسی کے کم کر نےسے کم نہیں ہوتی ، نہ کسی کے گھٹانے سے گھٹتی ہے، بلکہ ان کی محبت اورپختہ ہو جاتی ہے ۔
یہ بات خاص طور سے نوٹ کر نے کی ہے کہ حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے جنازے میں اہل سنت کے ہر طبقے نے شرکت کی ، مختلف خانقاہوں کے سجادگان ، مختلف سلاسل کے صوفیہ کرام ، مختلف دارالافتا کے مسند نشینان، مختلف اداروں کے علماے کرام و طلبہ عظام ، مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سنی مسلمانا ن سبھی اپنے رہبر ورہنما کے جنازے میں شریک تھے، یہاں نہ تو سلاسل کا اختلاف تھا ، نہ خانقاہی چشمک ،یہاں نہ تو علم وفن کا غرہ تھا نہ ہی کج کلاہی کاغرور، قادری، چشتی ، نقش بندی، سہروردی ، عالم ، فاضل ، محقق ، مصنف ،،مدرس،قاضی ، مفتی،مناظر ، شاعر ، ادیب ،صحافی ، امام سبھی ایک صف میں کھڑے ہو کر سورج کی تمازت اور گرمی کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے ، یہ سعادت حاصل کر نے کے لیے بے تا ب تھے۔اہل سنت کے انتشار اور گروہ بندی کے اس دور میں تما م سلاسل کی خانقاہوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا ،مختلف مسائل میں اختلاف رکھنے والے علماے کرام کایک جا ہو جانا یقینا خوش آئند ہے۔حضرت تاج الشریعہ کی ذات گرامی یقینا ایسی ہی تھی کہ ان کے نام پر جزوی اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر سب ایک نقطہ اتحاد بن کر جمع ہو جائیں ۔اس عظیم اجتماع کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے اور اسے تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا روحانی پیغام سمجھنا چاہیے کہ بعض مسائل میں اختلاف کے باجود اہل سنت کا اتحاد ضروری ہے اور سرخروئی کا باعث بھی، اور اختلاف رسوائی اور بر بادی کا ذریعہ ہے اور ذلت کا سامان بھی۔
اللہ جل شانہ ہمیں ان کے روحانی فیوض وبر کات سے مالا مال فر مائے ، اور خانوادہ اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی جلوہ سامانیوں کو ہمیشہ قائم ودائم رکھے ، آمین بجاہ حبیبہ سید المر سلین ۔

 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 93693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.