بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
تمھیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
عصر حاضرکے نامور اور ممتاز ناقد و محقق ، نئی نسل کے نمائندہ عالم دین ،
خانوادہ عثمانیہ قادریہ بدایوں کے چشم وچراغ حضرت مولانا اسید الحق قادری
کی شہادت جماعت اہل سنت کا ایسا خسارہ ہے جس پرجتنا آنسو بہا یا جائے کم ہے
۔ مولانابدایوں کے قدیم علمی خانوادہ عثمانیہ قادریہ کی وراثتوں کے امین و
پاسبان تھے، انھوں نے اپنے بزرگوں کی علمی امانتوں کے تحفظ کے لیے موجود ہ
خانقاہی نظام اور رسوم وروایات سے ہٹ کر جوروِش اختیار کی تھی وہ بر صغیر
ہند وپاک کے ان خانقاہی شہزادوں کے لیے نمو نہ عمل ہے جو اپنے آبا واجداد
کی علمی وروحانی عظمتوں ہی کو سر مایہ افتخارسمجھ کرخود فکر وعمل سے
دورحلقہ مریدین و متوسلین کا طواف فر مایا کرتے ہیں ۔مولانا مرحوم خالص
علمی وتحقیقی مزاج رکھتے تھے ، ان کاپہلا ہدف یہ تھا کہ خانوادہ عثمانیہ
قادریہ کی علمی ا ورتصنیفی خد مات کو عصری اسلوب میں پیش کیا جائے ، وہ اس
کام کو اپنے اوپر اپنے بزرگوں کا قرض سمجھتے تھے ، صحیح معنوں میںوہ اس کام
کے اہل بھی تھے۔خالق کائنات نے انھیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، تحریر
وتقریر، تدریس وتحقیق، نقد ونظر اور شعرو سخن ہر میدان میں انہوں نے اپنا
لوہا منوایا، وہ بیک وقت عظیم مصنف، بلند پایہ محقق ، بالغ نظر ناقد، بافیض
مدرس، باکمال شاعراورعمدہ واعظ وخطیب تھے۔ یہ سارے اوصاف ایک ہی شخص میں کم
ہی جمع ہو پاتے ہیں ۔انہوں نے مختصر اوقات میں علم وادب کے حوا لے سے جو
زریں خدمات انجام دیں وہ باعث حیرت ہیں ۔ آج ان کی شہادت سے بر صغیر کی
علمی فضا سوگوار ہے ۔ ان کی رحلت صرف خانوادہ قادریہ ہی نھیں بلکہ علم وادب
اور فکر وتحقیق کی ایک عظیم تحریک کا نا قابل تلافی نقصان ہے۔وہ ہندوستا ن
کے ازہری فضلا میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔ علمی حلقوں میں ان کی شناخت
صرف اپنے آبا واجداد کے عظمتوں کے حوالے سے نہیں ہو ئی ، بلکہ وہ اپنے علمی
کمالات اور تحقیقی کاموں کی وجہ سے پہچانے گئے۔ آج وہ ہماری نظروں سے اوجھل
روضہ غوث اعظم کی مبارک چھاؤں میں آرام فرما ہیں ،لیکن ان کی یادیں ،ان کی
باتیں ،ان کی شفقت، ان کی محبت ، ان کا اخلاص ، ان کی نوازشات ان کی عنایات
ہمارے دلوں کے نہاں خانے میں زندہ و تابندہ ہیں ۔
شہید راہ بغداد حضرت مولانا اسیدا لحق قادری رحمہ اللہ سے ہماری شناسائی
ماہ نامہ جام نور دہلی میںشائع ہو نے والی ان کی تحریروںکے ذریعہ
ہوئی،غالبا۲۰۰۵ء میں وہ اپنے دوست مولانا خوشتر نوارانی کے ساتھ ما در علمی
جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لائے تو ان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ ان
دنوں جام نور کے معروف کالم ’’خامہ تلاشی‘‘کی دھوم مچی ہوئی تھی ۔ارباب علم
ودانش اس کالم کو بڑی دل چسپی سے پڑھا کرتے تھے۔اِن دونوں حضرات کی اشرفیہ
آمد پر حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی مدیر ماہ نامہ اشرفیہ اور دیگر
اساتذہ اشرفیہ نے استقبالیہ مجلس کا اعلان کیا ، جامعہ اشرفیہ کی عزیز
المساجد میں مولانا نے اپنے مختصر خطاب کے بعد طلبہ اشرفیہ سے سوال کیا کہ
آپ لوگ جام نورکے اداریہ اور خامہ تلاشی کے کالم میں سے پہلے کس کو پڑھا
کرتے ہیں ، مجھے یاد ہے کہ اسی فیصد طلبہ نے خامہ تلاشی کے کالم کے لیے
ہاتھ اٹھا یا تھا۔واضح رہے کہ اس وقت تک خامہ تلاشی کی نقاب کشائی نہیں ہو
ئی تھی۔
ٍ ۲۰۰۹ء میں جامعہ صمدیہ پھپھوندشریف میں تقرری کے بعد ان سے بار ہا
ملاقاتیں ہوئیں۔آستانہ عالیہ صمدیہ مصباحیہ پھپھوندشریف ان کا نانیہال ہے
اس لیے وہ اکثر پھپھوند شریف تشریف لایا کرتے تھے ،جب بھی پھپھوند شریف ان
کی آمد ہوتی جامعہ صمدیہ ضرور تشریف لاتے ، جامعہ کے حالات اورعلمی سر گر
میوں کے بارے میں پوچھتے ، اگر کبھی کسی وجہ سے جامعہ نہیں آپاتے تو مجھے
تو اپنی آمد کی اطلاع دے کرآستانہ طلب فر مالیا کرتے، میں ان کی خدمت میں
حاضر ہو تا، حال احوال پوچھتے ، علمی موضوعات پر قیمتی نکات ارشاد فر ماتے
،اکثر فرمایا کرتے بہت سارے موضوعات پہ کام کر نے کی ضرورت ہے ،منصوبہ بندی
کے ساتھ کام کیجیے، آدمی کام ہی سے پہچا نا جاتا ہے اور یہی آخرت کا سر
مایہ بھی ہوتا ہے ۔
مولانا اسید الحق قادری خودبھی علمی کا موں میں مصروف رہتے اور اپنے احبا ب
کو بھی کا موں میں مصروف دیکھنا چاہتے تھے ،ابتداً میں ان سے کسی موضوع پر
تبادلہ خیال میں تکلف کرتا تھا ، لیکن چند ملاقاتوں میں میں نے ان کو اخلاص
کا پیکر پایا، وہ علمی تعاون میں کبھی کو تا ہی نہیں کیا کرتے تھے ۔پہلی
بار میں نے ان سے ان کے ما موں حضرت مولانا سید مظہر میاں صاحب قبلہ کے
توسط سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تالیف ’’ الغزالی بین مادحیہ وناقدیہ ‘‘کی
فر مائش کی ، اتفاق سے اس کتاب کی pdf ان کے لیپ ٹاپ میں موجود تھی، انہوں
نے میری میل آئی ڈی پر فوارا میل کر دیا، ان کایہی برتاؤ ہر علمی کام کر نے
والوں کے ساتھ تھا۔۲۰۱۲ء میں جب وہ اپنے ماموزادبھائی مولانا سید غلام
الصمد میاں کے نکاح کی تقریب میں تشریف لائے تو مجھے یاد فر مایا ،اور خلاف
معمول دو ڈھائی گھنٹے تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے ، انھوں نے دوران
گفتگو فر مایا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی کے بعد ہم لوگوں کا منصوبہ حضرت
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر کام کر نے کا ہے ، اس کام کے لیے ہم لوگوں نے
کچھ افراد کی نشان دہی کی ہے ، بہتر ہو گا کہ آپ بھی کسی عنوان کا انتخاب
کر کے کام میں لگ جائیے ، میں نے کتابوں کی کمی اور مواد کی عدم فراہمی کا
شکوہ کیا تو فر مایا کہ آپ اس کی فکر نہ کیجیے ، مدرسہ قادریہ کے کتب خانے
میں اس حوالے سے اچھا خاصہ مواد موجود ہے ، آپ کسی موقع سے دو تین دن کی
چھٹی لے کر بدایوں آجایئے۔مواد کی فراہمی کے ساتھ دیگر ضروری امور کی بھی
نشان دہی کر دوں گا،مجھے افسوس ہے تدریسی مصروفیات کے سبب میں ان کے اس حکم
کی تعمیل نہیں کر سکا۔
مولانا اسید الحق رحمہ اللہ کا ایک امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ اپنے چھوٹوں
کی حوصلہ افزائی میںبڑی فراخ دلی سے کام لیا کرتے تھے ،ان کے یہاں تنگ نظری
کا کوئی خانہ نہیں تھا،اگر انہیں کسی کا کوئی علمی کام پسند آتا تو دل کھول
کر سراہتے۔ماہ نامہ اشرفیہ (شمارہ مئی ۲۰۱۳ئ) میں میرا مضمون ’’ کیا عالم
عرب میں جمہوریت کی بحالی ممکن ہے ‘‘ شائع ہوا توانھوں نے میل کے ذریعہ
اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہو ئے بڑے حوصلہ افزا کلمات تحریر کیے۔ وہ بار
ہا مجھے بدایوں آنے کی دعوت دیتے رہے لیکن میں اپنی مصروفیات کے سبب حاضر
نہ ہو سکا،انہوں نے اپنی بے پناہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۲۰۱۲ء میں مدرسہ
قادریہ میں طلبہ کے سالانہ مقابلہ جاتی پروگرام میں بحیثیت فیصل شرکت کر نے
کا حکم دیا لیکن عجیب اتفاق کہ انہی تاریخوں میں میری شادی کا پروم گرام
تھا ، بادل نخواستہ مجھے معذرت کر نی پڑی، پھردوسرے سال ۲۰۱۳ کے طلبہ کے
مسابقہ کے پروگرا م میں شر کت کا حکم فر مایا ،مدرسہ قادریہ کے پروگرام سے
چند دن قبل جامعہ صمدیہ میں طلبہ کے تحریری وتقریری مسابقے کا پروگرام تھا
، جس میں بحیثیت مہمان خصوصی حضرت مولانا اسید الحق قادری رحمہ اللہ مدعو
تھے۔ وہ اپنی بے پناہ علمی مصروفیات کے باجود تشریف لائے ، طلبہ کے مقالات
کو دیکھا، ان کا خطاب سنا اور قیمتی نصیحتوں سے نوازا، اس موقع پر انھوں نے
دعوت دین میں اخلاق حسنہ کی اہمیت پر ایک بڑا قیمتی اور اثر انگیز خطاب فر
مایا،روانگی کے وقت ان کے ماموں جامعہ صمدیہ کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا سید
انور میاں صاحب قبلہ نے نذرانے کا ایک لفافہ پیش کیا ،انھوں نے نذرانہ قبول
کر نے سے سختی سے منع کر دیا، جب حضرت سید انور میاں دام ظلہ نے زیادہ
اصرار کیا تو لفافہ لے کر اس میں اپنی جیب سے کچھ نوٹ لفافے میںرکھ کر یہ
کہتے ہو ئے واپس کردیا کہ یہ میری طرف سے جامعہ صمدیہ کے لیے پیش ہیں
۔مولانا جب گاڑی میں بیٹھنے لگے تو مجھ سے مخاطب ہو کر بڑی محبت سے فر مایا
آپ ۱۵؍ اپریل کو تشریف لارہے ہیں نا!ضرور تشریف لائیں ، آپ کا انتظا ر ہو
رہا ہے ۔میں ان کے اس شفقت بھرے لہجے کی چاشنی اب بھی نہیں بھول پا رہا
ہوں۔حکم کے مطابق بدایوں حاضر ہوا ، دودن کے قیام کے دوران انہوںنے اخلاق
اور مہمان نوازی کا وہ نمونہ پیش کیا جسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے ۔یقینا یہ
ان کی شفقت اور خرد نوازی ہی تھی ورنہ ہم جیسے طالب علموں کی کیا حیثیت ہے۔
مجھ بے نوا پرمولانا اسید الحق قادری کی عنایتوں کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ
جب بھی کوئی نئی کتاب تاج الفحول اکیڈمی سے چھپتی تو وہ ضرور بھیجواتے ،
اور ساتھ ہی تاثرات لکھنے کا حکم دیتے ، تاثرات بھیجتا تو شکریے کا میل
بھیجتے، ابھی جنوری ۲۰۱۴ ء میں آپ پھپھوند شریف تشریف لائے تو مجھ سے فر
مایا کہ تاج الفحول اکیڈ می کی مطبوعات آپ کے پاس ہیں ، اگر آپ کو فرصت ملے
تو کسی کتاب کا انتخاب کر کے اس پر تبصرہ تحریر کر دیجیے ، انہوں نے یہ بھی
فر مایا کہ میرا مقصد یہ نھیں ہے آپ کتاب کی تعریف وتوصیف کے پل باندھیے
بلکہ تبصرہ ایسا ہو کہ کتاب کا صحیح تعارف ہو جائے اور اس کی واقعی خوبیاں
اور خامیاں سامنے آئیں ۔
مولانا موصوف مجھ سے اکثر فر مایا کرتے تھے کہ تحریر میں سنجید گی اور
سائشتگی کا خاص خیال رکھا کیجیے ، جارحانہ لب ولہجہ اور سخت تیور تحریر کی
اہمیت کو ختم کر دیتا ہے ۔وہ ہمیشہ مفید مشورے دیا کرتے تھے ، ان سے ملنے
اور تبادلہ خیال کر نے کے بعد میں اپنے اندر توانائی محسوس کرتا تھا ، بلکہ
ان سے جوبھی ملتا وہ کام کر نے کی ترغیب دیتے ، ناکارہ سے ناکارہ شخص بھی
ان سے ملنے کے بعد کچھ کر نے کا حوصلہ اپنے اندر محسوس کر تا تھا ، افراد
سازی کا جوہران کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا، وہ طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو
بھانپ کر ان کے حسب حال ان کی تربیت فر مایا کرتے تھے ،انہوں نے مدرسہ
قادریہ کے جواں سال اساتذہ اوراپنے زیر تربیت طلبہ کو علمی وتصنیفی کاموں
میں لگا دیا تھا ۔ مولانا مر حوم وقت کی بڑی قدر کیا کرتے تھے فضول کاموں
کے لیے ان کے پاس کوئی وقت نھیں تھا،اور نہ وہ کبھی بے کار کاموں میں اپنا
وقت ضائع کرتے تھے ، ایک ملاقات کے دوران میں نے ان سے ایک بد نام زمانہ
کتاب کا تذکرہ کیا جس میں جماعت کی مسلّم بزرگ شخصیات پر کیچڑ اچھالیا گیا
تھا،اس کتاب کا نام سن کر مجھ سے فر مایا مولانا میرے پاس ان فضول کاموں کے
لیے نہ وقت ہے اور نہ ان میں کوئی دل چسپی ، جب ایسی کوئی کتاب میرے سامنے
آتی ہے تو یہ شعر پڑھ لیتا ہوں۔
ان کی زلفوں کے پیچ وخم کو سلام
کس کو فرصت ہے ان کو سلجھائے
چند برسوں کی ملاقاتوں کے در میاں میں نے انھیں اپنے بڑوں کا مودب اور
چھوٹوں پر حددرجہ شفیق پا یا،ماہ ذی الحجہ۱۴۳۴ھ میں درگاہ کمیٹی اجمیرشریف
کی جانب سے ایک فقہی سمپوزیم کا انعقاد ہوا ، جس میں شرکت کے لیے حضرت مفتی
انفا س الحسن چشتی قبلہ کے ساتھ میں اور جامعہ صمدیہ کے استاذ مولانا غلام
جیلانی مصباحی اجمیر شریف کے لیے روانہ ہو ئے ، اسی گاڑی میں دارالعلوم
علیمیہ جمدا شاہی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا قمر عالم مصباحی بھی تھے، اس
سمپیوزیم میں شرکت کے لیے مولانا اسید الحق قادری بھی مولانا دلشاد قادری ،
مولاناعبد العلیم قادری وغیرہ کے ہمرا ہ اجمیر شریف تشریف لے جارہے ہیں ،
راستے میں جب انھیں معلوم ہوا کہ ہم لوگوں کا قافلہ بھی روانہ ہو چکا ہے تو
وہ بھرت پور کے ایک ہوٹل میں رک کر انتظار کر نے لگے،حضرت مفتی انفاس الحسن
چشتی چوں کہ ان کے استاذ بھی ہیں اس لیے خاص طور سے انہوں نے فر مایا کہ آپ
حضرات آجائیں جبھی یہاں سے روانہ ہو ںگے ۔تقریبا دو گھنٹے کی تاخیر سے ہم
لوگ وہا ں پہنچے ،آپ نہ صرف یہ کہ وہاں ہم لوگوں کے منتظر تھے، بلکہ انھوں
نے نہایت پر تکلف کھانے کا آڈر بھی دے رکھا تھا۔انواع واقسام کا کھانا
سامنے آیا تو فر مانے لگے ،یہاں جو کچھ روکھا سوکھا موجودہے ،آپ حضرات کی
خدمت میں پیش ہے ، گھر ہو تا توصحیح طورسے آپ حضرات کی ضیافت کا شرف حاصل
کرتا۔یہ ان کی حدر درجہ بلنداخلاقی اور اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے ۔اس سفر میں
میں نے انہیں اپنے بزرگ علما کے سامنے مودب اور عاجزی وانکساری کا نمونہ
دیکھا،سمپیوزیم کے مندوب علماکی قیام گاہوں میں ملاقات کے لیے تشریف لے
جاتے ،تاج الفحول اکیڈمی کی مطبوعات پیش کرتے ، مستقبل میں مزید دینی خدمات
کے لیے علما سے دعاؤں کی درخواست کرتے ۔
مولانا مر حوم ہر جہت سے نئی نسل کے لیے آئیڈیل اور قابل تقلید تھے۔ اب وہ
بظاہر ہمارے در میان نہیں ہیں لیکن ان کے نقوش قدم ہماری رہنمائی کرتی رہیں
گی ، وہ اپنی گونا گوں خوبیوں کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ و
تابندہ رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبو لیت بخشے، ان کے در
جات بلند فر مائے ۔ اٰمین۔
|