سنن ابی داؤد

سنن ابی داؤد تعارُف

سنن ابی داؤد کی تصنیف سے پہلے کتب احادیث میں مسانید اور جوامع کا رواج تھا جس میں سنن اور احکام اخبار اور قصص اور مواعظ اور آداب سب قسم کی احادیث شامل ہوئی تھی ۔امام ابو داؤد نے سب سے پہلے مجرد سنن میں یہ کتاب تالیف کی ۔جب اس کتاب کو انہوں نے امام احمد بن حنبل پر پیش کیا تو انہوں نے بے حد تحسین کی۔یحیی بن یحیی زکریا ساجی نے کہا اسلام کی بنیاد قرآن کریم اور اس کا ستون سنن ابو داؤد ہے۔ابن عربی نے کہا کہ دین کے مقدمات کا علم حاصل کرنے کے لئے کتاب اللہ اور سنن ابو داؤد کافی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ علم حدیث میں اجتہاد کرنے کے لئے سنن ابو داؤد میں کافی سرمایہ ہے۔
حسن قبول
اس کتاب کو اللہ تعالی نے بے پناہ مقبولیت عطا فرمائی اور تمام طبقات فقہاء میں باوجود اختلاف مذاہب کے یہ کتاب یکساں مقبول رہی ہے۔مصر عراق بلاد مغرب بلکہ مسلمانوں کے ہر علاقے میں اس کتاب کا درس دیا جاتا ہے حسن بن محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ایک بار انہیں خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ نے فرمایا جو شخص سنن کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ سنن ابو داؤد کا علم حاصل کریں۔(شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی ۱۲۲۹ھ بستان المحدثین صفحہ ۲۸۷ )حضور کے اس فرمان سے ظاہر ہوا کہ یہ کتاب بارگاہ رسالت میں مقبول ہے اور غالبا اسی سبب سے اس کتاب کو قبول خاص و عام حاصل ہوا۔
کلمات الثناء
سنن ابو داؤد کی حسن افادیت جامعات اور احکام فقیہ کے ماخذ ہونے کے لحاظ سے اس کو بعد کے علماء اور محققین نے بے حد پسند کیا اور تقریبا ہر دور کے علماء اس کو اپنے تعریفی کلمات سے نوازتے رہے۔امام حافظ ابو جعفر بن زبیر غرناطی صحاح ستہ کی خصوصیات پر تبصرہ کے ضمن میں لکھتے ہیں احادیث فقیہ کے حصراحصاء ابوداؤد کی جو خصوصیت حاصل ہے وہ صحاح ستہ کے مصنفین میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔(حافظ جلال الدین سیوطی متوفیٰ ۹۱۱ ھ تدریب الراوی صفحہ۵۶)
ابو سلیمان خطابی لکھتے ہیں امام ابو داؤد کی کتاب السنن بلا ریب ایسی نفیس کتاب ہے کہ اس جیسے کتاب علم دین میں آج تک تصنیف نہیں ہوئی۔اس کتاب کو ہر قسم کے لوگوں نے پسند کیا اور یہ کتاب علماء کے سب فرقوں اور فقہاء کے تمام طبقات میں باوجود اختلاف مذاہب کے حکم مانی جاتی ہے۔سب لوگ اسی گھاٹ پر آتے ہیں اور یہیں سے سیراب ہوتے ہیں اسی کتاب پر اہل عراق نےاہل مصر بلاد مغرب اور روئے زمین کے اکثر دہنے والوں کا اعتماد ہے۔البتہ خراسان میں بہت سےلوگ محمد بن اسماعیل مسلم بن حجاج اور ان لوگوں کی کتابوں کو پسند کرنے والے ہیں جو جمع صحیح میں ان دونوں حضرات کے تابع اور ان کے شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوں۔لیکن ابو داؤد کی کتاب ترتیب کےاعتبار سے بہت عمدہ اور فقہ کے لحاظ سے ان سے بہت بڑھی ہوئی ہے۔(امام ابو سلیمان احمد بن محمد خطاب متوفیٰ۳۸۸ھ معالم السنن جلد نمبر ۱ صفحہ۶)
اسلوب
امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں احادیث کو جمع کرنے اور ترتیب دینے میں جو اسلوب اختیار کیا وہ بہت سی خوبیوں اور نکات پر مشتمل ہے چند خوبیاں ذکر کی جاتی ہے۔
(۱)امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں یہ التزام کیا ہے کہ اس میں صرف احکام سے متعلق احادیث لائے ہیں۔چنانچہ اھل مکہ کے نام مکتوب میں انہوں نے خود لکھا ہے۔میں نے زہد اور فضائل اعمال وغیرہ کے اثبات میں روایات جمع نہیں کی ہے میری اس کتاب میں ۴۸۰۰ احادیث ہے اور وہ سب احکام سے متعلق ہے۔
(۲)اس کتاب میں امام ابو داؤد نے اپنے علم کے مطابق زیادہ ترصحیح ترین روایت ذکر کی ہے چنانچہ وہ اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں۔اور جن روایات میں کوئی ضعف یاعلت ہو تو امام ابوداؤد اس کو بیان کر دیتے ہیں جیسا کہ عنقریب آئے گا۔
(۳)اگر کوئی حدیث دوصحیح طریقوں سے مروی ہو اور ان میں سے ایک طریقہ کاراوی اسناد مقدم ہو اور دوسرے طریقے کا راوی حفظ میں بڑا ہوا ہو تو امام ابوداودایسی صورت میں پہلے طریقہ کا ذکر کر دیتے ہیں۔
(۴)بسا اوقات ایک حدیث کو دو تین سندوں کے ساتھ ذکر کرتےہیں بشرطیکہ بعض سے متن میں کچھ زیادتی ہو جیساکہ آپ نے اپنے مکتوب میں فرمایا ہے۔
(۵)جن احادیث کی اسانید میں کوئی ضعف ہو یا کوئی علت خفیہ ہو اس کو امام ابوداود بیان کردیتے ہیں اور جس حدیث کی سند کے بارے میں امام ابو داؤد کوئی کلام نہیں کرتے وہ عام طور پر صالح للعمل ہوتی ہے چنانچہ امام ابوداؤد مکتوب میں فرماتے ہیں۔"مالم اذکرفیہ شیافھوصالح"۔(امام ابوداؤدسلیمان بن اشعت المتوفی۲۷۵ھ سنن ابی داؤدص۱۸)
شرائط
حافظ ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ امام ابوداؤد نے اپنی اس کتاب میں احادیث درج کرنے کے لئے شرط مقرر کی ہے کہ وہ احادیث متصل السند اور صحیح ہوں اور وہ ایسے راویوں سے مروی ہو جن کےترک پر اجماع نہ ہوا ہو اور علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ ابوداؤد کے کتاب صحیح اور حسن دونوں قسم کی احادیث کی جامع ہیں اور ان کی اس کتاب میں احادیث سقیمہ میں سے مقلوب اور مجہول روایات اصلاً نہیں ہے۔(فخر الحسن مقدمہ التعلیق المحمودصفحہ۴)
تعداداحادیث
امام ابو داؤد نے اپنے مکتوب میں بیان کیا ہے کہ ان کے سنن مراسیل سمیت ۱۸ اجزا پر مشتمل ہے ایک جز مراسیل کا ہے اور باقی اجزا پر دوسری احادیث مشتمل ہے اور کل احادیث کی تعداد چار ہزار آٹھ سو ہے اور چھ ہزار مراسیل ہے۔جدید نمبرنگ کے مطابق کل احادیث کی تعداد۵۶۷۴ہے۔
شروحات
سنن ابو داؤد کی افادیت اور مقبولیت کے پیش نظر اس کے متعدد شروح تصنیف کی گئی ہے چند شروح کے اسماء یہ ہیں۔
(۱)معالم السنن
یہ شرح ابو سلیمان احمد بن محد ابن ابراہیم الخطابی المتوفیٰ۳۷۸ کی تصنیف ہے یہ ایک مبسوط شرح ہے حافظ شہاب الدین ابو محمود احمدابن محمد مقدسی متوفی۷۶۵ ھجری نے اس شروح کا خلاصہ لکھا ہے اور اس کا نام عجالہ العالم من کتاب المعالم لکھا ہے۔
(۲)شرح سنن ابو داؤد
یہ شرح کتب الدین ابوبکر بن احمد الشافعی المتوفی ۷۵۲ھ کی تالیف ہے اور چار صخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔
(۳)شرح سنن ابو داؤد
یہ شرح حافظ علاء الدین مغلطائی متوفی762ھ کی تصنیف ہے اور نامکمل ہے
(۴)شرح الزوائد علی الصحیحین
یہ شرح شیخ سراج الدین عمر بن علی الشافعی المتوفی 840ھ کی تالیف ہے
(۵)شرح سنن ابو داؤد
یہ شرح ابوذر اور احمد بن عبد الرحیم الراوی متوفی۷۶۲ھ کی شرح ہے اور نامکمل ہے یہ شرح بہت مقصود انداز پر لکھنی شروع کی گئی تھی صرف سجدہ صاحب تک کی شرح سات جلدوں پر مشتمل ہے۔
(۶)شرح سنن ابو داؤد
یہ شرح حافظ بدرالدین عینی متوفی ۸۵۵ھ کی تالیف ہے۔
(۷)مرقاۃ الصعود الی سنن ابو داؤد
یہ شرح حافظ جلال الدین سیوطی متوفیٰ 911 کی تصنیف ہے۔
(۸)غایۃ المقصود
یہ شرح علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی کی ایک مقصود تالیف ہے جس کا صرف ایک جزو دستیاب ہے۔
مختصرات
سنن ابو داؤد کا اختصار بھی کیا گیا ہے اس مختصر کی متعدد شروح بھی لکھی گئی ہے جن کی تفصیل یہ ہے۔
(۱)مختصر سنن ابی داؤد
یہ مختصر الحافظ ذکی الدین عبدالعظیم بن عبد القوی المنذری المتوفی ۶۵۶ھ جری کی تالیف ہے علامہ جلال الدین سیوطی نے اس مختصر کی شرح لکھی ہے اس کا نام زہر الربی علی المجتبی رکھا۔
(۲)تہذیب السنن
ابن قیم محمد بن ابی بکر الجوزی المتوفی ۷۵۱ھ نے سنن ابو داؤد کی تہذیب کی اور اس کی شرح لکھی جس کا نام تہذیب السنن رکھا۔(حاجی خلیفہ متوفی۱۰۶۷ھ کشف الظنون ج۲ص۱۰۰۴تا۱۰۰۵)

Arshad Madni
About the Author: Arshad Madni Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.