رحمت دوعالمﷺ کی جب اولادِ نرینہ یکے بعد دیگرے اس دار
فانی سے کوچ کرگئی تو کفار مکہ نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ بہت جلد محمد(ﷺ)
کا کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا اور آپ کی نسل بھی جلد اختتام پذیر ہوجائے
گی۔ اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر نازل فرمائی کہ نسل تو آپ کے
دشمنوں کی ختم ہوگی اور ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا‘جبکہ آپ کے نام
لیوا تو تاقیامت رہیں گے۔ پھر سورۃ الانشراح میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم
آپ کے ذکر کو بلند سے بلند تر رکھیں گے۔ قارئین کرام!آج چودہ سو سال گزرنے
کے بعد جب ہم دنیا کے طول و عرض میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی
ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کا ذکر بلند ترین سطح پر موجود ہے اور
لفظ’’محمد‘‘دنیا کے اکثر لوگوں کے ناموں کا حصہ ہے۔ اسی طرح دنیا میں ہر
وقت گونجنے والی آواز اذان ہے جو ذکر ِمحمد کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی
طرح اب تک لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں آپﷺ پر کتابیں اور مضامین دنیا
کی تمام زبانوں میں لکھے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ آج بھی
مسلسل جاری و ساری ہے۔
اسی ضمن میں ایک کتاب ’’رحمت دوعالمﷺ‘‘ کی تقریب رونمائی گزشتہ روز ای
لائبریری لاہورمیں منعقد ہوئی۔ یہ کتاب محترمہ نبیلہ اکبر صاحبہ کی تصنیف
کردہ ہے۔ کتاب میں باتیں تقریباً وہی ہیں جو ہم چودہ سو سالوں سے پڑھتے
آرہے ہیں‘ بس فرق اتنا ہے کہ ان باتوں کے لکھنے اور سمجھانے کا آغاز ہر بار
مختلف ہوتا ہے۔ میڈم نبیلہ اکبر کا انداز بہت سہل اور آسان ہے‘ گویا قاری
آسانی سے ان کی تحریر کو سمجھ سکتا ہے۔ مصنفہ نے سیرتِ مطہرہ کے اَن گنت
گوشوں میں سے اپنے مزاج کے مطابق چند پہلوؤں پر گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب عام
پڑھے لکھے قارئین اور بچوں کے لئے انتہائی قیمتی اور قابل قدر اضافہ ہے جسے
ہر گھر اور ہر لائبریری میں موجود ہونا چاہیے۔سیرت مطہرہ پر کتاب لکھ کر
میڈم نبیلہ اکبر نے اپنا نام ان افراد کی فہرست میں ڈال دیا ہے جن کا شمار
کل قیامت کے دن رحمت دوعالمﷺ کی مدح سرائی کرنے والوں میں ہوگا۔رسول اﷲﷺ کی
مدح خوانی کے حوالے سے غلام جیلانی سحر نے کیا ہی عمدہ شعر کہاہے :
ایک صورت کی مدح خوانی میں
ایک سو چودہ سورتیں اُتریں!
صاحب کتاب کی بات کریں تو میڈم نبیلہ اکبررشتے میں میری پھوپھو لگتی ہیں۔
اکثر دوست پوچھتے ہیں کہ میڈم آپ کی سگی پھوپھو ہیں۔ تو میں ہنس کر یہی
کہتا ہوں کہ پھوپھو ہمیشہ سگی ہی ہوتی ہیں۔اس نسبی رشتے کے علاوہ ان کے
ساتھ میرا اصل رشتہ یہ ہے کہ ہم دونوں لکھاری قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور
مجھے میڈم کو اس فیلڈمیں لانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو میرے لیے بہت مسرت
کا باعث ہے۔ چونکہ میرا ان کے ساتھ فیملی تعلق ہے تو میں ان کی بہت سی ذاتی
خوبیوں سے بھی واقف ہوں۔ درحقیقت میں نے ان میں کوئی کمی کوتاہی دیکھی ہی
نہیں ‘لہٰذایہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میڈم خوبیوں کا پیکرہیں۔
میڈم نبیلہ اکبر انتہائی باہمت اور صبر کرنے والی خاتون ہیں۔گھریلومشکلات
اور انتہائی گھمبیر حالات میں بھی انہوں نے نہ صرف صبر کا دامن ہاتھ سے
نہیں چھوڑا‘بلکہ کالم لکھنے اور مختلف ادبی تقریبات میں جانے کا سلسلہ بھی
جاری رکھا اور آج ان کی کتاب’’رحمت دوعالمﷺ‘‘میرے ہاتھوں میں موجود ہے اور
ادبی حلقوں میں ان کا ایک بلندمقام بن چکا ہے۔ان کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے
کہ یہ اتنہائی دردِ دل رکھنے والی اور مددکرنے والی خاتون ہیں۔مثلاً آپ نے
کسی پروگرام میں جانا ہے اور آپ کا گھر میڈم کے گھر سے کوسوں دور ہے تو آپ
کے ایک بار کہنے پر انتہائی پُرخلوص طریقہ سے میڈم آپ کو پک اینڈ ڈروپ کی
سروس دیں گی۔اگرکسی نے کہہ دیا کہ میری بیٹی کا رشتہ نہیں ہورہا تو میڈم
رشتہ ڈھونڈے نکل پڑیں گی۔الیکشن کے دوران اپنے علاقے کے ممبر قومی و صوبائی
اسمبلی کے ساتھ گھر گھر جاکر ووٹ مانگنا اور وہ بھی بغیر کسی لالچ کے انہی
کا طرۂ امتیاز ہے۔تیسری خوبی یہ کہ میڈم بہت ذہین وفطین ہیں اور ان کا
حافظہ بھی بہت زیادہ ہے۔کسی سے ایک بار مل لیں تو اس کا نام‘کاسٹ‘کہا
ملے‘کیوں ملے‘اس کا فیملی بیک گراؤنڈ غرض اس شخص سے متعلق ہر چیز ان کے ذہن
میں محفوظ ہو جاتی ہے۔چوتھی خوبی کہ میڈم کو اگر کسی میں کوئی برائی یا
خامی یا کوتائی وغیرہ نظر آئے تو اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتیں بلکہ اس کی
پردہ پوشی کرتی ہیں اوراکیلے میں متعلقہ شخص کو بتا دیتی ہیں۔لیکن کبھی
موقع کی مناسبت سے برملا بھی اظہار کردیتی ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں
لاتیں۔
میڈم کی ایک خوبی تقریباً ۱۹سال کی ہوگئی ہے اور اسے دنیا ’’زخرف منال‘‘کے
نام سے جانتی ہے جو میڈم کی بیٹی ہیں۔ماں اور بیٹی سہیلیاں ہوتی ہیں یہ تو
آپ کو تقریباً ہر جگہ دیکھنے کو ملے گا‘لیکن ماں بیٹی کا بیسٹ فرینڈ ہونا
یہ بہت کم ہوتا ہے۔ زخرف اور میڈم نبیلہ ایک دوسرے کی بیسٹ فرینڈ ہیں اور
اس کتاب کی اشاعت میں زخرف کابھی بہت کردار ہے اور وہ بھی اپنی ماں کی طرح
اس کتاب کے حوالے سے مبارک باد کی مستحق ہے۔بات بیسٹ فرینڈ کی ہورہی ہے تو
میڈم منزہ سموئیل کا ذکر بہت ضروری ہے جو اس وقت کینیڈا میں رہائش پذیر
ہیں۔میڈم منزہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ میڈم نبیلہ کی سکول کے
زمانہ سے دوست ہیں۔انکا کہنا ہے کہ مذہب کے علیحدہ ہونے کے باوجود ہم دونوں
میں تیس سالوں میں کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا ۔
قارئین کرام! میڈم نبیلہ بہت خوبیوں کی مالک ہیں جن کا احاطہ ایک تحریر میں
آنا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہے۔بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ میڈم نبیلہ اکبر کی
کتاب ’’رحمت دوعالمﷺ ‘‘نہ صرف ان کے لیے‘بلکہ ان کے والدین اور خصوصاً ان
کی والدہ محترمہ کے لیے صدقہ جاریہ ہے اور ان شاء اﷲ اس کتاب کی برکت سے
میڈم نبیلہ اکبر دنیا میں بھی کامیابیاں سمیٹے گی اور آخرت تو ہے ہی رحمت
دوعالمﷺ کی مدح سرائی اور مدح خوائی کرنے والوں کے لیے!
|