ترقی کے لیے دوپٹہ اتارنا لازم ہے

دنیا بھرکی طرح8مارچ کو پا کستان میں بھی عورتوں کا عالمی دن بھرپور جوش خوروں سے منایا گیا لیکن جوش خروش اتنا تھا کہ اس دن کہ اصل مقصدکوہی فراموش کر دیا گیا.

عورتوں کہ حقوق کہ لیے پہلی امریکی خواتین نے کی 1908 میں پہلی دفعہ امریکی خواتین نے بہتراجرت اور ووٹنگ کہ حق کہ لیے مارچ نکالیں جسکو گھڑسواروں کی مدد سے ناکام بنانے کی کوشش کی گئ اسکے بعد سے باقاعدہ فیمینزیم مومنٹ کا آغاز ہوا اسکا مقصد عورتوں کو بنیادی اور مساوی حقوق دلوانا تھا .اس کوشش کے نتیجے کا فی حد تک عورتوں کے کو ان کہ حقوق ملے اور 8 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن قرار دے دیا گیا.

روایت کو بر قرار رکھتے ہوئےپاکستان میں مارچ نکال کر عورتوں کا عالمی دن منایا گیا فرق صرف اتنا تھا کہ پاکستان میں منعقد کی جانے والی عورت مارچ میں عورتوں کہ اصل مسائل کو اجاگر کرنے کہ بجائے اس سال بھی ایک تماشا کیا گیا،وہ خواتین جو اپنے ڈرائیور کہ بغیر گھر تک سے نہیں نکلتی وہ جنہیں یہ تک نہیں معلوم کہ ہر سال ان کہ اپنے ہی ملک میں کتنی خواتین زچگی کہ دوران طبی سہولیات نہ ملنے کی وجہ لقمہ اجل بن جاتی ہیں وہ خواتین کہ حقوق مانگتی نظر آئیں ،عورت مارچ میں لہراے جانے والے پلےکارڈ سےمعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی خواتین کہ مسائل صرف کھاناگرم کرنا،دوپٹہ نہ لینا ،بستر نہ گرم کرنا ہی ہیں .

وہ ملک جہاں غیرت کہ نام پہ قتل ہوتے ہوں ،جہاں عورتوں کی عصمت دری کی جائے لیکن کیس تک نہ درج کیا جائے جہاں انکار پہ تیزاب میں جھلسا دیا جائے کیا ایسے ملک میں ایسی مارچ کرنا کیا ان عورتوں کی تزلیل نہیں جو واقعی میں اپنے حقوق سے محروم ہیں .

عورت مارچ میں موجود عورتوں کہ حقوق کی علمبرداروں سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا دوپٹہ اتار کر خود آوارہ اور بد چلن کہہ کر ہی ترقی اور آزادی حاصل کی جا سکتی ہے تو پھر رضیہ سلطانہ جیسی عورت کا کیا جنہوں نے خود کو بغیر آوارہ کہے ہی پورے برصغیر پہ حکومت کی.فاطمہ جناح ،بیگم رانا لیاقت علی اور شائستہ اکرام علی جیسی خواتین کا کیا جنہوں نے مردوں کہ شانہ بشانہ کھڑے رہ کر پاکستان کے لیے کوشش کی اور ایسی خواتین جو محنت مزدوری کر کہ اپنے گھر کا چولہا جلاتی ہیں ان ذکر اس عورت مارچ میں کہاں تھا. عورت مارچ کو دیکھ کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب زیادہ پسی ہوئ خواتین تو ہمارے اشرفیاں طبقے کی ہیں.عورت مارچ میں مرد خضرات کو خوب لتڑا گیا کیا مخلاف جنس کو کمتر ثابت کیےبغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے.

یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دن کی اہمیت کو سمجھا جائے اس دن کو مخض تماشے کیلئے استعمال نہ کریں بلکہ ان مسائل کہ بارے میں بات کریں جن کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کے حل کیلئے کوشش کریں .
 

Afsheen Khalid
About the Author: Afsheen Khalid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.