ریڈرز کلب

گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
12 مارچ کو جامعہ گجرات کی سوسائٹی ریڈرز کلب کے زیر اہتمام ہونے والے سیشن میں شرکت کی تو مجھے لگا میں علم کی ایک علیحدہ ہی دنیا میں آ گئی ہوں۔ اس تقریب میں موجود ہر شخص اپنے اندر علم کے خزانے سموئے ہوئے تھا۔ میں ان کی سوچ اور اپروچ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ریڈرز کلب کی زیرِ صدارت ہونے والی اس تقریب کا موضوع 8 مارچ کو گزارنے والا اور دنیا بھر میں منایا جانے والا خواتین کا عالمی دن تھا۔ اس تقریب کا عنوان بہت ہی خوبصورت تھا۔ " آج مجھے انسان ہی رہنے دو"۔
اس تقریب میں جامعہ گجرات کے بہت سے سینئر پروفیسرز نے شرکت کی اور مہمانوں میں گجرات چائے خانہ سے وابستہ بہت اہم شخصیت محمد ابوبکر فاروقی صاحب بھی موجود تھے۔ اس تقریب میں جامعہ گجرات کے طلباء وطالبات نے شرکت کرکے اس محفل کو رونق بخشی۔

ریڈرز کلب ایک ایسی سوسائٹی ہے جو اس انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی طلبہ کو کتاب سے جوڑے ہوئے ہیں۔ جو طلبہ کے دلوں میں کتاب سے محبت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس سوسائٹی کی کوآرڈینیٹر میڈیم رخسانہ ریاض صاحبہ ایک بہت ہی عظیم خاتون ہے۔ آپ نے ہی جامعہ گجرات میں ریڈرز کلب کی بنیاد رکھی۔ مختلف تقریبات کا انعقاد کروا کے طلبہ کے اندر کتاب محبت کو بیدار کرنے میں آپ کا کردار قابل ستائش ہیں۔

تقریب کے خوبصورت عنوان کو دیکھ کر ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقریب کس نوعیت کی تھی۔ عورت کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی کا درجہ تو مل جاتا ہے مگر شاید اس انسان کم ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس موضوع پر سب نے اپنے خوبصورت خیالات کا اظہار کر کے محفل کو چار چاند لگائے۔ اس محفل کو بہت خوبصورت انداز میں آرگنائز کیا گیا تھا۔ اس کو آرگنائز کرنے کے پیچھے بڑا ہاتھ اس کے hierarchy members اور سوسائٹی کوآرڈینیٹر مڈیم رخسانہ ریاض صاحبہ کا ہے۔ جنھوں نے تقریب کو اپنی دن رات کی محنت سے کامیاب بنایا۔ اور ان افراد اور میمبرز کا کرادار بھی بہت اہم تھا جنہوں نے اس میں شرکت کی اور اپنے خیالات سے لوگوں کو سوچنے کے لیے ایک نئی سوچ دی۔ اس تقریب میں معروف رائٹر بانو قدسیہ کی کتاب راجہ گدھ اور ان کے اپنی کتاب میں لکھے گئے عورتوں کے بارے میں خیالات کے بارے میں بھی بات کی گئی۔

کسی نے خود کی لکھی ہوئی تحریر پیش کی، تو کسی نے کسی عظیم رائٹر کا کلام پیش کیا۔ یہ طلبہ کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جس کے ذریعے سے وہ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے تھے اور اپنا مطالعہ کو دوسروں کے ساتھ شئیر کرسکتے تھے۔ اس تقریب میں عورتوں کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے بات کی گئی۔

میرے خیال میں اس طرح کی تقریبات تمام سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں منعقدہ ہونی چاہیئں۔ تاکہ طلبہ کی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔ اور وہ سوشل میڈیا سے ہٹ کر ان کو ایک نئی اپروچ سے روشناس کرایا جاسکے۔ تاکہ ان کو سوچنے کا شعور ملے اور وہ اس دنیا اور اس کے لوگوں کے ساتھ الگ طرح سے ٹریٹ کر سکے۔ اللہ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور ان کو تقسیم کرنے کا شرف بھی عطا فرمائے آمین۔

 

Ayesha Tariq
About the Author: Ayesha Tariq Read More Articles by Ayesha Tariq: 28 Articles with 22761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.