کبھی کبھی ( اوٹ پٹانگ )

انسان کی زندگی قدرت کی کسی کرشمے سے کم نہیں۔ انسانی زندگی کی رنگا رنگی فطرت کو اپنے اندر اسیر کر لینے کے لئے کافی ہے۔ انسان ،فطرت کی رعنائیوں میں خوبصورتی تلاش کرتا ہے لیکن سب سے زیادہ اور سب سے بڑی خوبصورتی خود اس کے اپنے اندر موجود ہے۔ وہ ان چیزوں کو باہر تلاش کرتا ہے جو قدرت نے اس کے اندر سمو دی ہیں۔ اسی لئے جب انسان کو جب اپنا شعور آتا ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی۔

انسان میں دوسروں کو دیکھنے کا جذبہ اپنے آپ کو دیکھنے سے زیادہ محسوس ہوتا ہے اس لئے وہ اکثر و بیشتر اپنے متعلق سوچنے کی بجائے دوسروں سے متعلق ہی ذہن دوڑاتااور گھماتا رہتا ہے۔ اس صورت میں اس کے اندر کئی ایک برائیاں بھی جنم لے لیتی ہیں جن میں غیبت، حسد، بغض، عناد ، نفرت وغیرہ سرِ فہرست ہیں۔ دوسروں سے متعلق سوچ سوچ کے وہ اپنے اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے اور اس کی وہ سوچیں جو اس کے اپنے متعلق ہونی تھیں رستہ بھول کر دوسروں کی طرف بھٹک جاتی ہیں اور بڑی حد تک یا تو ضائع ہو جاتی ہیں یا گمراہ ہو جاتی ہیں اور اچھے کی بجائے برے نتائج پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

جذباتی سیاست کا ہمارے ہاں زیادہ ہی چلن ہو گیا ہے۔ سیاست کا مطلب تو دانائی اور بصیرت تھا لیکن اب اس سے عمومی مراد دھوکہ، جھوٹ، اور دوسروں کو بے وقوف بنانا لی جاتی ہے۔ ہمارے لوگوں نے سیاست کو بطور مشغلہ اختیار کر لیا ہے۔ ہمارے ٹی وی چینل دن رات عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں جذباتی سیاست کا انداز پروان چڑھ گیا ہے ۔ ہمارے نوجوان اگر کسی سیاست دان کو اپنا لیڈر مان لیتے ہیں تو اس کے پیچھے بغیر سوچے سمجھے جان بھی دیتے ہیں۔ جب کہ سیاست جان دینے کا نہیں ’جان ‘لینے کا میدان ہے ۔ میری مراد کسی کی’ جان‘ لینا نہیں بلکہ ملکی صورت حال، بین الاقوامی رجحانات وغیرہ کو جان لینا ہے۔ جانے بغیر انسان کا سیاست میں قدم رکھنا اغوا ہونے کے مترادف ہے جیسا کہ ہمارے بہت سے لوگ ہوچکے ہیں۔ عوام کو شعور کے نام پر بے شعور کرنا ہمارے سیاست دانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔

فضول باتوں کومدت سے فضول ہی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن بات تو شاید کوئی بھی فضول نہیں ہوتی۔ کوئی بھی انسان جو کچھ بھی کہتا ہے اس میں اس کا دماغ ملوث ہوتا ہے اور دماغ جیسی چیز ملوث ہو کر کوئی چیز فضول یا بے کار کیسے رہ سکتی۔ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ کچھ باتیں ، کچھ لوگوں کے لئے فضول ہوتی ہیں لیکن وہ کئی دوسرے انسانوں کے لئے کار آمد بھی ہو سکتی ہیں۔ کبوتر بازوں کی بڑی اہم باتیں کتب فروشوں یا کتاب چھاپنے والوں کے لئے بے معنی یا غیر معقول ہو سکتی ہیں اور اسی طرح سے فلمی دنیا کی باتیں میڈیکل کی دنیا کے لئے دلچسپی سے خالی ہو سکتی ہیں۔ اور یہ بھی کہ نہیں بھی ہو سکتیں۔ کون سی بات فضول ہے اور کون سی بے فضول اس کا کوئی عالم گیر معیار نہیں ہے بلکہ یہ باتیں شخصی نوعیت کی ہیں اور ان کے اصول بھی شخصی ہیں، حتمی یا آفاقی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ کسی ایک تہذیب کی بہت اچھی بات کسی دوسری تہذیب میں بہت بری بات سمجھی جا سکتی ہے ۔اس لئے کسی بات کو فضول بات کہنے کی بجائے نا پسندیدہ یا غیر متعلقہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔

ڈارون کا نظریہ ارتقاع ،یورپ کے ڈارون نے پیش کیا اور یورپ کے باشندوں نے اسے سچ کر دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ وہاں شخصی آزادی ایک بہت بڑی سماجی اور قانونی قدر ہے اس کا بہت واضح اظہار ساحلِ سمندر پے جا کے کیا جاتا ہے اور یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جا تی ہے کہ جنابِ ڈارون صاحب کا نظریہ صرف کاٖغذی نظریہ نہیں بلکہ ساحلی بھی ہے اسی لئے توساحلِ سمندر پر جانے والے لا تعداد انسان اس نظریئے کے حق میں اپنی ذاتی رائے کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ ساحلِ سمندر انسان کو تمام سماجی بندھنوں سے آزاد کر کے صرف فطرتی حیثیت میں واپس لے جاتا ہے۔ ڈارون کے مطابق انسان دوسری مخلوقات کے ارتقاع کے نتیجے میں ظہور میں آیا ہے اور تخلیق کا سب سے بڑا سر چشمہ سمندر ہے اس لئے اس نظریئے کے ماننے والوں کو سمندر کی آغوش میں آ کر کسی قسم کی پردہ داری کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ان کے مطابق حقیقت صرف جسم ہے اس لئے اسے چھپانے کی کیا ضرورت !

فرائڈ نے بھی انسانی رشتوں میں اپنے علیحدہ قسم کے نظریئے، فلسفے یا سوچ کا بیج بویا ہے اور ایڈیپس کمپلیکس اور الیکٹرا کمپلیکس کے خیالات دیکر خاندانی رشتوں کے درمیان پایا جانے والا ادب واحترام کا رشتہ بھی کسی اور سمت میں موڑ دیا ہے۔ اس طرح ان رشتوں سے ملنے والے سکون و اطمینان میں شک شبے کی ’ کِرک ‘ شامل ہو گئی ہے جو ان رشتوں کو بڑی حد تک بے مزا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اگر انسانوں کو وہی نظریات دیئے جائیں جو الہامی مذاہب اور خاص طور پر اسلام نے دیئے ہیں تو زندگی بہت خوش گوار اور پر سکون ہوسکتی ہے۔

انسان اس وقت پریشان ہوتا ہے جب اسے نیند نہیں آتی اور نیند اس وقت نہیں آتی جب وہ پریشان ہوتا ہے یا اس نے پہلے ہی کافی زیادہ نیند بھر لی ہوتا ہے۔ انسان کو اپنے آپ کوسکون فراہم کرتے رہنا چاہیئے جس کا سب سے آسان ذریعہ دوسروں کو پر سکون رہنے دینا ہے۔ جس میں ہمارا کوئی خرچہ بھی نہیں آتا۔ زندگی کا ’ماٹو ‘اگر دوسروں کا سکون بن جائے تو کوئی انسان بے سکون نہ رہے گا۔

خیال ہے کہ بے راہ روی کی آخری منزل دیکھ کر انسان دوبارہ روایتی سماجی زندگی کی طرف لوٹے گا اور پھر سے لباس میں سکون تلا ش کرے گا کیوں کہ ترقی کے نام پر اختیار کی گئی بے راہ روی سے انسان اور زیادہ بے سکون اور بے وقار ہو گیا ہے۔ ترقی کیا ہے؟ ابھی تک کوئی تسلی بخش ،حتمی جواب نہیں مل سکا اور اگر کوئی جواب آئے بھی تو ہماری مرضی ہے کہ اسے مانیں یا نہ مانیں۔کیوں کہ کسی بات یا دلیل کا ماننا کسی کے لئے ضروری نہیں اگر کوئی بات ہماری سوچ کے مطابق ہو تو اسے مانا جا سکتا ہے اور اگر نہ ہو تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

نظر انداز کرنا دنیا کا سب سے زیادہ آسان کام ہے۔ کیوں کہ انکار کرنے میں یا تو زبان ہلانی پڑتی ہے یا پورا سر ہلانا پڑتا ہے لیکن نظر انداز کرنے میں صرف پلکیں یا پپوٹے ہلانے پڑتے ہیں جو ویسے بھی ہلانے ہی ہوتے ہیں۔ یاوہ ہلتے ہی رہتے ہیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کیوں زبان کی آواز آتی ہے اور سر ہلانے سے ہوا پر دباؤ پڑتا ہے جب کہ نظر انداز کرنے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو محسوسات کو متاثر کر سکے۔ اس لئے سب سے بہتر ہے کہ دوسروں کی نا پسندیدہ باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے کیوں اس سے لڑائی نہیں ہو گی کیوں کہ دوسروں کو پتہ ہی نہیں چلے گا یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ لیکن گزارش ہے کہ آپ میری اس تحریر کو نظر انداز نہ کریں کیوں کہ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ’ جیہڑا بوالے اوہو کنڈی کھولے‘ یا میاں کی جوتی میاں کے سر والی بات ہی ہو جائے۔ دوسروں کے لئے مفت مشورے دینے والا خود ہی ان مشوروں کی زد میں نہ آجائے ، لیکن اگر آپ نظر انداز کر بھی دیں گے تو مجھے کون سا پتہ چلنا ہے یا میرے کانوں پر کون سی جوں رینگنی ہے کیوں کہ جب سر میں جوئیں ہوں گی نہیں تو کانوں پے کیسے رینگ سکیں گی۔ لہٰذا اس تحریر کو نظر انداز کرنے کا آپ کے پاس مکمل قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے لیکن میں پھر بھی آپ سے التماس ہے کہ نہ کریں !

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284452 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More