سفرِ چولستاں

ہمسفر : پروفیسر شازیہ نورین صاحبہ، سر راشد ھاشمی صاحب، عبد الرحمان خان اور چھوٹو عبداللہ

پرامن و پرسکون ریاستِ بہاولپور کی شانت شاہراہ پر گاڑی جتنی دھیمی چل رہی تھی ریاست میں تطمانیت کا اتنا ہی زیادہ احساس ہوتا چلا جا رہا تھا۔ سکون ، راحت اور خاموشی کو ہم قلب و جاں تک محسوس کیئے جا رہے تھے۔ اچانک ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عبد الرحمان (مانی) بھائی کا موبائل بجنے لگا انہوں نے تحمل سے اسے بائیں ہاتھ سے اٹھا کر آنکھوں کے سامنے لایا۔۔۔ سکرین پر نگاہ پڑتے ہی جیسے دوسو بیس وولٹ کا جھٹکا لگ گیا ہو۔۔۔ انہوں نے بغیر تاخیر کیئے موبائل پچھلی نشست پر پھینکا۔ ۔ ۔ میرا تعجب بڑھنے کو ہی تھا کہ موبائل بہ رفتار تیز واپس اچھلتا ہوا مانی بھائی کی گودی میں آن ٹپکا۔۔۔ موبائل اس درجہ خطرناک ہو سکتا ہے یہ میری فہم سے بالا تھا۔ اسی اثنا میں پروفیسر شازیہ نورین صاحبہ کی آواز آئی جو کہ عقبی نشست پر تشریف فرما تھیں۔ ’’ مانی۔۔ میں نے نہیں کرنی ماں جی سے بات۔ تم خود اٹھاؤ کال‘‘
اب معاملہ فہم کے قریب آیا۔ ہم بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کے آہنی دروازوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔۔ ’’ عاقب بھائی! یہ بی وی ایچ نواب صاحب اور ملکہ وکٹوریہ کے باہمی تعاون سے تعمیر ہوا۔ اس میں برقی سہولیات کے تسلسل کے لیئے نواب صاحب نے اپنے ذاتی جہاز کا ایک انجن وقف کیا ‘‘

مانی بھائی نے گاڑی شہر کے منفرد ذائقے کیلیئے مشہور رستوران شاہجاہان گرِل کی پارکنگ کی طرف موڑ دی۔۔۔ پروفیسر صاحبہ نے پرتکلف ظہرانے سے ناچیز کا خیر مقدم کیا۔ ظہرانے کے بعد گاڑی سرکلر روڈ پر دوڑ پڑی۔
ابھی گفتگو دلچسپی کے مراحل میں داخل ہونے کوہی تھی کہ موبائل پھر سے بجنے لگا۔۔۔ تین بار آگے پیچھے پھینکے جانے کے بعد مانی بھائی نے انگوٹھا سکرین پر رکھ کر دائیں سمت کو کھسکایا اور فون کان کے ساتھ لگاتے ہی مصروفیت، بلکہ شدید مصروفیت والے انداز میں گویا ہوئے ’’ ماں جی! پیاری ماں جی۔۔ کیسی ہیں؟ میں آفس میں ہوں ۔۔۔ آپی کا آخری لیکچر ہے کالج۔ وہ ایک گھنٹے تک فری ہوتی ہیں۔ ہم آتے ہیں بس۔۔‘‘

کال کاٹتے ہی مانی بھائی پیچھے مڑے اور اپنے بائیں کندھے پر نامہء اعمال میں سیاہ قلم کی تیزی کا ذکر کر کے پانچ ہزار بطور ہرجانہ طلب کیا۔ ۔ ۔

وقت اور فاصلے کا بالکل پتا نہ چلا یا شائد بہاولپور شہر ہے ہی چھوٹا سا۔ ۔ ۔ ہم بہاولپور کی شہرہء آفاق چائے پینے عبد اللہ بھائی کے چائے خانے پہنچ چکے تھے۔ میں بغیر مبالغہ عرض کروں تو زندگی میں کبھی اتنی لطیف اور پرسکون کرنے والی چائے نہیں پی۔ ۔ میری چھٹی حس، دو احباب کی رائے اور عبداللہ بھائی کے وجہء شہرت کو سامنے رکھ کر بتایا جائے تو چائے میں افیوم اور پوست کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے خوبصورت پیالوں میں چائے پیش کرنا انکی رِیت ہے۔ چائے پینے کے بعد مزید چائے منگوائی گئی۔۔۔ اور ہم دریائے ستلج کی جانب نکل پڑے۔

پروفیسر شازیہ نورین صاحب حالیہ انتخابات میں اے پی ایم ایل کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست کیلیئے الیکشن میں حصہ لے چکی ہیں۔ انکی رکشہ پر الیکشن کمپین اولاً قومی بعد ازیں بین القوامی میڈیا پر سراہے جانے والی اول کمپین تھی۔ انسانیت کیلیئے انکی بےشمار قربانیاں ہیں۔ الیکشن کے بعد اسلام آباد سے واپسی پر انہیں اپنے بھائی کے ہمراہ ایم ٹو پر حطرناک حادثہ پیش آیا تھا۔ جس میں معجزاتی طور پر دونوں سلامت رہے تھے لیکن گاڑی مکمل تباہ ہو گئی تھی۔ اس حادثے کا احوال سنتے سناتے ہم ستلج کنارے پہنچ چکے تھے۔۔۔ اولاً پل کے مغربی سمت حسین مناظر سے لطف اندور ہوئے پھر بتایا گیا کہ یہاں بہاولپور کی دوسری مشہور چائے ’’چرسی چائے‘‘ ملتی ہے۔ سو، فوراً سے خشک میوہ جات سے لبریز چائے سے نبردآزما ہوئے بعد ازیں پل کے مشرقی جانب جا کر خانہ بدوشوں کے بچوں کی لطیف اداؤں سے محظوظ ہوتے رہے۔۔۔ سورج ڈھلتا جا رہا تھا۔۔۔

نور محفل کی تعمیر نواب صادق عباسی (پنجم) نے اپنی اہلیہ کے لیئے کروائی ۔ لیکن جناب عالیہ کو اس واسطے پسند نہ آیا کہ اس کی چھت سے قریبی قبرستان دکھائی دیتا تھا۔ غالباً روز اول ہی شام کے وقت انکا ترآ نکل گیا۔ سو ، انہوں نے دوبارہ اس محل کی راہ نہ لی۔ ہم ایسے وقت نور محل پہنچے کہ شام ڈھلنے سے قبل اور شبینہ دونوں مناظر سے لفط اندوز ہوئے۔

پنجم نواب آف بہاولپور نواب صادق عباسی کا طرز حکومت لاجواب تھا۔ بہاولپور کی اپنی فوج تھی۔ معیشت نہ صرف بر صغیر میں بلکہ دنیا میں مانی جاتی تھی۔ بہاولپور کے ہسپتال اپنے وقت کے دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں گردانے جاتے تھے۔ ریلوے ٹریکس سے لے کر سڑکوں اور عمارات کی ساخت انکی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

انیس سو سینتالیس میں تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان کے پاس زر مبادلہ بلکہ ناپید تھا۔ نواب صادق عباسی نے پاکستان کو پانچ برس کے لیئے خاطر خواہ خزانہ دیا۔ اسی قومی خزانے سے پاکستان کی معیشت کا آغاز ہوا اور نواب صاحب نے اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کر دیا۔ نواب صاحب کےذاتی ریل انجن ، لگژری گاڑیاں اب میں بہاولپور میں موجود ہیں۔ عصر حاضر میں تعمیر ہونے والی بیسیوں عمارات اور سڑکیں خستہ حالی کی بدولت زمیں برد ہو گئی ہیں لیکن ایک صدی پرانی نواب صاحب کی عمارات تاحال من و عن بہترین ہیں اور کارآمد بھی۔

نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں تعلیم و تربیت کی علامت ’’ الصادق پبلک سکول‘‘ بھی نواب صاحب کا شاہکار ہے۔

عشائیے کیلیئے فرید گیٹ کے پاس سے کہیں منفرد ذائقے مانی بھائی بٹور لائے۔۔۔۔ بہاولپورکے کھانوں کے ذائقے منفر اور لاجواب ہیں۔۔۔۔ لاثانی۔۔۔۔

میزبانان گرامیان نے سوغاتِ بہاولپور کے گراں تحفے کے ہمراہ مجھے الوداعی مقام تک لایا۔ آخری جذباتی و دعائیہ الفاظ کا تبادلہ ہو چکا۔ ماحول یکدم حساس اور جذباتی سا ہو گیا اور پھر پتا چلا کہ ہم لیٹ ہو چکے ہیں۔۔۔ اب الوداع ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ سب نے اپنے اپنے جذباتی الفاظ واپس لیئے اور لونگ لاچی گانا لگا کر ماحول تبدیل کیا۔

؁؁؁۔

ایک گیارہ سالہ معصوم لڑکا اپنے کمرے میں قیلولہ کر رہا تھا۔ ۔ ۔ اسکا آخری پیپر تھا اور طے ہوا تھا کہ ابا جان اسے ایک ’’اچھے والی‘‘ گھڑی لے کر دینگے۔ اسکے ابو چولستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ لڑکا بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیئے لاڈلا تھا۔ اچانک چڑیوں نے کمرے کے روشن دان میں بیٹھ کر شور کرنا شروع کر دیا۔ لڑکے نے کانوں پر ہاتھ رکھا اور پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ دو ہزار چار کے تیسرے ماہ کی سترہ تاریخ تھی۔ موسم نہ زیادہ ٹھنڈا تھا اور نہ زیادہ گرم ۔ وہ سونا چاہتا تھا لیکن چڑیاں لڑنے لگیں اور شور زیادہ ہونے لگا۔ معصوم مانی کو کیا پتا کہ یہ چڑیاں کوئی حکم پروردگار کا سندیس پہنچانے آئی ہیں۔ وہ لڑتے لڑتے اُڑیں اور کمرے میں چلتے پھنکے کے پروں سے جا ٹکرائیں۔ ۔ ۔ کمرے کی چاروں دیواریں لہو کی سرخی سے لال ہو گئیں۔ مانی کی جونہی آنکھ کھلی تو منظر نے اسے خوفزدہ کر دیا۔ خوف سے اس معصوم کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی چلی گئی۔ وہ روتا ہوا کمرے سے بھاگ کھڑا ہوا۔

صحن میں روتا ہوا پہنچا تو بھابھی نے بتایا کہ ابو کی طبیعت زرا خراب ہوئی ہے۔ وہ بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں ہیں۔۔ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔۔ معصوم ننگے پاؤں ہسپتال کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔ راستے میں ایک دوست سائیکل پر نظر آیا اس سے سائیکل لی اور ننگے پیروں سے پیڈل دباتے دباتے بی وی ایچ پہنچا۔ اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ اسے سڑک پر کسی گاڑی کا احساس نہ تھا۔ ہسپتال میں داخل ہوا تو سی ڈی اے کے ڈائریکٹر سے لے کر پیئن تک تمام عملہ وہاں موجود تھا۔ ڈائریکٹر کی بھی آنکھیں تر تھیں۔۔ یہ بھاگتا ہوا سیدھا اندر گیا تو آپی شازیہ نورین اور والدہ بیڈ کے پاس بےبس اور تقریبا بے حس کھڑی تھیں ۔۔۔ تین ڈاکٹر سٹیتھو سکوپ لٹکائے برقی جھٹکوں والی مشین گھسیٹتے ہوئے بھاگے چلے آ رہے تھے۔۔۔۔

لیکن۔ ۔ ۔
وزیر تعلیم ریاستِ بہاولپور جناب خان بقا محمد خان کے بھتیجے، بہاولپور ریاست کی فوج کے جرنیل خان وزیر علی خان کے فرزند اسسٹنٹ ڈائریکٹر چولستان ڈیویلیپمنٹ اتھارٹی جناب قادر مصطفیٰ خان اپنے فرزند کو گھڑی کا تحفہ دیئے بغیر ہی جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے تھے۔ ڈاکٹرز بورڈ نے بتایا کہ ہم حیران ہیں یہ اپنے پیروں پر چل کر ہسپتال کیسے پہنچے جب کہ انکی حرکت قلب بند ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

گیارہ سالہ معصوم بچہ اپنی کلائی کو دیکھتے ہوئے نگاہیں اٹھا کر پروردگار کی بارگاہ میں التجا کرنے لگا کہ یا خداوند ذوالجلال مجھے گھڑی نہیں چاہیے پلیز میرے بابا کو لوٹا دے۔۔ میرے بابا کو زندگی دے دے۔۔۔
لیکن دھیرے دھیرے اسے دنیا کے نظام کا پتا چلا کہ جانے والے نہیں لوٹتے۔۔۔

؁؁؁۔

اگلے دن پروفیسر صاحبہ کا آخری لیکچر اڑھائی بجے ختم ہونا تھا۔ انہوں نے یونین آف جرنلسٹ کے وائس پریزیڈنٹ جناب راشد ہاشمی کو بھی تیار کیا ۔ جنہوں نے ہمارے لیئے چولستان کے ہر دروازے کی کنجی کا اہتمام شاندار و پروقار اندار میں کیا۔

ہم بہاولپور سے جنوبی شاہراہ پر درآوڑ کی جانب نکل پڑے۔ قلعہ درآوڑ کی محبت کا سبب محمد احسن بھائی کی کتاب ’’چولستان میں ایک رات ‘‘ ہے۔ اللہ مرشد کو سلامت رکھے۔ کہ مکمل کتاب موبائل سے لکھ ڈالی۔ ذوق کی باتیں ہیں۔

بہاولپور سے نکلتے ہی ریگستان کے واضح اثرات دکھائی دینے لگے۔ جوں جوں ہم چولستان میں اترتے گئے اور درآوڑ کے قریں تر ہوتے چلے گئے یوں یوں سبزہ اور کھیت کھلیان گھنے ہوتے چلے گئے۔۔۔ ہے ناں تعجب کی بات؟ میں بھی انگشت بدندان ہوا۔ اچانک گاڑی میں جھٹکا لگا اور میری انگشت دندان میں آ کر مجروح ہو گئی ۔ سو، خیال تبدیل کر لیا گیا۔

راشد ہاشمی صاحب چولستان کا چلتا پھرتا انسائکلوپیڈیا ہیں۔ دلچسپ شخصیت ہیں۔

راشد بھائی نے ہمیں چولستانی جھاڑی نما پودے سے ملوایا جسے مقامی لوگ ’’کھار‘‘ کہتے ہیں۔۔۔ ایک گڑھا کھود کر اس پر آہنی جالی پچھائی جاتی ہے ۔ کھار کی جھاڑیوں کو اس جالی پر رکھ کر جلایا جاتا ہے ۔ کھار کی جاڑیاں راکھ نہیں بنتیں ، بلکہ سیاہ رنگ کا مائع بن کر بہہ جاتی ہیں۔ نیچے گڑھے میں مائع وافر مقدار میں جمع ہو جاتا ہے۔ بعد ازیں وہ مائع ٹھوس بن جاتا ہے اور دنیا بھر میں سپلائی ہوتاہے۔۔ دنیا کے بہترین کاسمیٹکس اس کے بنا نامکمل ہیں۔

چولستان میں پانی کے گھاٹ کو ’’ٹوبہ‘‘ (جمع جس کی ’’ٹوبے‘‘ یا ’’ٹوباز‘‘ ہوتی ہے) کہا جاتا ہے۔ خانہ بدوشانِ چولستان ٹوبے کے پہلو میں مقیم رہتے ہیں۔ سورج کی تپش جب ٹوبے کو خشک کر دیتی ہے تو پورا ٹولہ کسی اور ٹوبے کی تلاش میں چولستان میں نکل پڑتا ہے۔ یوں انکے بچوں کی تعلیم بہت متاثر ہوتی تھی۔۔۔۔ راشد ہاشمی صاحب نے کمال کا مشورہ دیا۔ حکومت پاکستان نے اس مشورے پر عمل بھی کیا۔ ھاشمی صاحب کے مطابق ٹوبہ موبائل سکول اس ’’دُرگھٹنا‘‘ کا واحد تھے۔ ایک معزز استاد صاحب کو سرکار ایک بائیک اور پیٹرول کی فراہمی یقینی بنائے استاد صاحب خانہ بدوشوں کے ہمراہ چاک جیب میں ڈال کر تختہ سیاہ اپنے سیاہ طلبا کے حسین گدھوں پر سوار فرما دیں ۔۔۔۔ اور یوں بچوں کی تعلیم چولستان میں جاری و ساری ہے۔

ہم شام کو مغرب سے ایک گھنٹہ قبل درآوڑ پہنچے۔ سی ڈی اے کے ریسٹ ھاؤس میں قیام کا اہتمام تھا۔ قبل از غروب عکاسی کا مکمل اہتمام کیا گیا۔ قلعہ اور قلعے کے عقب میں مسجد، مسجد کے عقب میں شاہی قبرستان کا درشن کیا گیا۔ چولستان کے روائتی گھاس پھوس سے گھنے طویل الجثہ مینار نما گھر میں ہمارے لیئے محفل موسیقی کا اہتمام تھا۔ گلوکار حضرات چولستانی چوغوں میں ملبوس تھے۔ عجیب الطرحی آلات سے آراستہ فولک گلوکاروں نے زبردست سماں باندھا۔۔۔۔ رات ہو چلی تو قلعہ کو ستاروں سمیت عکس بند کیا ۔ ۔ ۔۔ عشائیہ سی ڈی اے کے ریسٹ ھاؤس میں نوش کیا اور واپسی کی راہ لی۔

صحرائے چولستان میں اضطراب ہی اضطراب ہے..... ہر قدم آپکو مضطرب کر دیتا ہے... لطف ہے.... چاہ ہے..... لذت ہے
جہاں میں اضطراب ہے ؟
نہیں نہیں۔۔۔
جہاں ہی اضطراب ہے
ہزار ہا کواکب و نجوم ہائے کہکشاں سے
ایٹموں کی کوکھ تک
مدار در مدار ہر وجودد بے قرار ہے
یہ مہر و ماہ و مشتری سے ہر الیکٹران تک
یہ جھوم جھوم گھومنے میں جس طرح کا رقص ہے
مجھے سمجھ میں آگیا ،
جہان تیرا عکس ہے
وہ عکس جوجگہ جگہ قدم قدم ردھم پہ ہے
جہان عین سُر میں ہے، جہان عین سم پہ ہے
جہاں ترنموں کی لسٹ میں سے انتخاب ہے
جو تجھ حسیں دماغ کے حسین لاشعور میں بنا ہو،
ایسا خواب ہے
جہان اضطراب ہے
مجھے سمجھ میں آگیاہے یہ جہاں
خلا ، مکاں، زماں کے چند تار سے بنا ہوا ستار ہے
اسے کہو کسی طرح ستار چھیڑتی رہے
اسے کہو کہ تھوڑی دیر اور بولتی رہے

چولستان میں تقریبا دو لاکھ انسان بستے ہیں اور بارہ لاکھ جانور ہیں۔ چولستان میں سفر کریں تو آپکو وافر مقدار میں جانوروں کے مردہ اجسام اور ہڈیاں ملتی ہیں۔ صحرا کا شبینہ منظر جتنا پرلطف ہے اتنا ہی بھیانک بھی۔ ۔ ۔ ۔

چولستان کی چائے عبداللہ بھائی کی چائے جیسی بلکل بھی نہیں تھی۔
عبد اللہ بھائی کی چائے بہاولپور کے لوگوں کی خوش قسمتی ہے۔ علاوہ ازیں بہاولپور میں ذائقوں کا بادشاہ نگار ریسٹورنٹ ہے۔ نگار ریستوران بہاولپور کا اول ریستوران ہے جس کے سامنے گزشتہ روز پرامن و پرسکون ریاستِ بہاولپور کی شانت شاہراہ پر گاڑی جتنی دھیمی چل رہی تھی ریاست میں تطمانیت کا اتنا ہی زیادہ احساس ہوتا چلا جا رہا تھا۔ سکون ، راحت اور خاموشی کو ہم قلب و جاں تک محسوس کیئے جا رہے تھے۔ اچانک ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھے عبد الرحمان (مانی) بھائی کا موبائل بجنے لگا انہوں نے تحمل سے اسے بائیں ہاتھ سے اٹھا کر آنکھوں کے سامنے لایا۔۔۔ سکرین پر نگاہ پڑتے ہی جیسے دوسو بیس وولٹ کا جھٹکا لگ گیا ہو۔۔۔

وما علینا الا البلاغ

Aqib Shafiq Pirzada
About the Author: Aqib Shafiq Pirzada Read More Articles by Aqib Shafiq Pirzada: 7 Articles with 6475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.