ًمائکرو فکشن ۔ افسانہ ۔۔۔ کرائے دار

کسی بیماری کے باعث گل زیب کی جسمانی قوت جواب دے چکی تھی اور وہ کسی بھی قسم کا محنت طلب کام کرنے سے قاصر تھا ۔۔۔ چاروناچار وہ اکثر گھر کے پچھواڑے اٹواٹی کھٹواٹی لیئے پڑا رہتا تھا ۔

گل زیب کے کام نا کرنی کوجہ سے کچھ ہی عرصہ میں اس کے گھر پر افلاس کی چادر پھیلنے لگی ۔۔۔ وقت تیزی سے بیت رہا تھا ۔ جب کہ بہتری کے تمام آثار ناپید تھے۔

گھر کی اس مخدوش معاشی صورتحال میں اسکی بیوی کی تلملاہٹ، جھنجھلاہٹ، بڑبراہٹ، شور شرابہ اور سب سے بڑھ کر کسمساہٹ کا وقفہ وقفہ سے اظہار جائز تھا ۔ روز روز بہو کی پرتشدد اور جارح گفتگو نے گھر کے ماحول کو دگرگوں حالت میں تبدیل کردیا تھا۔ بس کوئی لمحہ جاتا تھا کہ بہو گھر چھوڑ کر میکہ جانے والی تھی۔

رات کے کسی پہر جب آسمان پر تارے چمک رہے تھے گلزیب کی ماں چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں پڑی چارپائی پر تیزی سے بگڑتی گھر کی اس نازک صورتحال کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ پورے چاند کی چاندنی میں نہایا صحن ۔ اور خاموشی کے اضطرابی ماحول میں ایک خیال گلزیب کی ماں کے ذہن میں کوند گیا۔ اسے خیال آیا کہ اپنے گھر کے بالائی حصہ میں بنے دو کمرے جو کاڑھ کباڑ سے اٹے تھے صاف ستھرا رہنے کے قابل کرکے کرائے پر دیدیئے جائیں تاکہ گھر میں کچھ تو خوشحالی آئے یوں بہو کا موڈ بھی اچھا ہوجائے ۔۔۔۔ اپنے اس خیال کو گلزیب کی ماں نے جب بہو سے ذکر کیا تو اس نے اثبات میں منظوری کا عندیہ دیا۔

کچھ ہی دنوں میں ایک شریف النفس انسان نے گھر کا بالائی حصہ کرائے پر حاصل کرلیا ۔۔۔ یوں برسوں سے خالی پڑے کمروں سے معقول کرایہ بمعہ ایڈوانس ملا تو ماں جی نے سکھ کا سانس لیا۔

وقت گزرتا رہا ۔ معمولی کرائے سے گھر میں خوشحالی تو نہیں آئی مگر بہو کی چڑچڑاہٹ رفع ہوگئی اوراسکے چہرے پر شادابی نے ڈیرے ڈال لیئے ۔۔۔