تو نے کسی کی صحر میں دنیا اجاڑ دی

تحریر: پاپونش ملک
یہ آخری امید تھی جسے وہ توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے ہاتھ دستک کے لیے بڑھنے سے انکاری تھے۔ زندگی نے اسے کس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا۔ جہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ سچ ہی کہتے ہیں اللّٰہ موت دے دے غربت نہ دے۔ ایک تلخ سوچ اس کے دماغ میں ابھری۔ اتنے میں دروازہ کھولا۔ارے یار ارسلان تو کب آیا؟ مہدی نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ ’’گھنٹہ ہو گیا ہے‘‘، اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’کیاہوا تو اتنا پریشان کیوں ہے؟‘‘ مہدی نے ارسلان کے چہرے پر پھیلی زردی کو بھانپتے ہوئے پوچھا۔ اماں کا آپریشن ہے ڈاکٹر نے پانچ لاکھ مانگے ہیں۔ ارسلان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ یقیناً وہ جانتا تھا کہ مہدی کا جواب انکار میں ہوگا۔ وہ بھی تو اسی کی طرح غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ آج وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا۔ تمام دوستوں سے ناامید لوٹنے کے بعد آخری امید کی کرن یہی بچی تھی۔ مہدی نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔تو یہاں رک میں ابھی آتا ہوں۔ مہدی کہہ کر گھر کے اندر چلا گیا۔ ماں نے اسے کبھی مانگنا نہیں سیکھایا تھا۔ آج ایک ایک کے در پر بھیک مانگنے اور دھتکارے جانے کی اذیت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ اپنے پیاروں کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا؟ چاہے وہ تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو۔ اتنے میں مہدی گھر کے اندر سے نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں پیسوں کی کافی مقدار تھی۔ امید کا دیا جلنے لگا تھا۔
یہ لے میرے پاس اس وقت یہی ایک لاکھ روپے ہیں، رکھ لے۔ یہ وہی پیسے تھے جو مہدی نے موٹر سائیکل لینے کے لیے پائی پائی جمع کی تھی۔ جب پیسے جمع اگر کوئی اور موقع ہوتا تو وہ یہ ہرگز نہ لیتا مگر یہاں بات اماں کی زندگی کی تھی۔اور سن کچھ کھائے گا؟ یقیناً اس کے ہونٹ اس کی بھوک پیاس کی چغلی کر رہے تھے۔ آنکھوں میں نمی لیے وہ اس کے احسان کا شکریہ تک ادا نہیں کر سکا۔ ’’نہیں اماں کے ساتھ ہی کھاؤں گا‘‘، ارسلان نے دھیرے سے جواب دیا۔’’تو جا پتر نکل یہاں سے مجھے کام پر جانا ہے‘‘، مہدی نے مزاحیہ انداز اپنایا۔ ارسلان نے شدت جذبات سے آگے بڑھ کر مہدی کے ہاتھ چوم لیے۔’’سلام چچا شرافت‘‘۔ ’’وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، ارسلان میاں کیسے آنا ہوا؟‘‘ وہ مہدی سے مل کر سیدھا یہاں آیا تھا۔

چچا میں اپنی دکان فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ ارسلان نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ ’’ہاہاہاہاہاہا کیوں جناب اس دن تو میں خود جناب کے پاس چل کر گیا تھا اور محترم نے قیمت فروخت پوچھے بنا ہی مجھے چلتا کر دیا۔ آج کیا موت پڑ گئی ہے کہ خود ہی بیچنے چل دیے‘‘ شرافت کے لہجے میں طنز واضح تھا۔ ’’چچا جان مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے‘‘۔ٹھیک ہے میں تمھیں تین لاکھ دوں گا۔ شرافت بندہ شناس شخص تھا۔ اس نے ارسلان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ چچا جی خدا کا خوف کریں 5لاکھ سے کسی صورت کم نہیں لوں گا۔ ویسے بھی پانچ لاکھ سے زائد کی ہے کم کی نہیں۔ اگر پانچ لاکھ کی دکان فروخت ہو جائے تو مہدی کو بھی اس کے پیسے واپس کر دوں گا۔ ارسلان نے اپنے دماغ میں لائحہ عمل تیار کیا۔

میں تمھیں پانچ لاکھ دوں گا۔ ایسے میں نزاکت جو شرافت کا بھائی تھا اور وہیں موجود تھا اس نے مداخلت کی۔ ارسلان کا پر سکون سانس خارج ہوا۔ ٹھیک ہے چچا جی مجھے پیسے ابھی چاہیے۔ میاں ابھی تو میں نہیں دے سکتا تین دن بعد دوں گا اگر منظور ہے تو بولو؟ نزاکت نے بے فکری سے کندھے اچکائے۔ جب انسان مجبور ہوتا ہے۔ تب ہی اس کو لوگوں کی اصل پہچان ہوتی ہے۔ ارسلان دکان سے باہر نکلنے لگا۔ میں ابھی دینے کو تیار ہوں۔ شرافت نے پیچھے سے آواز لگائی۔ میں دکان بیچ دوں وہ بھی اتنے سستے میں تو گزارا کیسے ہو گا؟ نہیں میں ان لالچی لوگوں کے آگے کھلونا نہیں بنوں گا۔ کم ظرف دنیا کتنی ظالم ہے۔ ارسلان کے ذہن میں مختلف خیالات ابھرے۔ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ اماں کے الفاظ یادآئے۔ بیٹا جلدی آنا۔ اماں کی آس کیسے توڑ سکتا تھا۔ جس نے اتنے مان سے کہا تھا جلدی آنا۔ ان کو یقین تھا ان کا بیٹا پیسے لے آئے گا۔ فیصلہ ہو گیا، وہ واپس پلٹا۔

چچا جی مجھے تین لاکھ میں منظور ہے۔ ’’اماں کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ کلثوم نے فکرمندی سے اپنے ساتھ بیٹھے ارسلان سے پوچھا۔ پہلے سے بہتر ہیں۔ فکر نہ کرو۔ وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔ کلثوم نے ارسلان کو ملنے کے لیے پارک میں بلایا تھا۔ اس کی ساس نے صاف کہہ دیا تھا۔ اگر تیرے میکے والوں نے یہاں قدم بھی رکھا تو تم بھی ساتھ چلی جانا۔ اماں نے سمجھایا اچھی بیٹاں گھر بساتی ہیں ہر حال میں۔ تب سے گھر والوں سے چھپ چھپ کر ہی ملنا نصیب ہوتا تھا۔ اماں کی بیماری کی خبر بھی اسے محلے کی عورت نے دی۔ کافی دیر توقف کے بعد پوچھا۔ بھائی آپ کے پاس پیسے۔۔۔۔ ابھی کلثوم کی بات ادھوری تھی کہ ارسلان بول پڑا۔ پیسوں کا انتظام ہو جائے گا تم پریشان نہ ہو۔ تم بس دعا کرو۔ ارسلان کلثوم سے چھوٹا ضرور تھا مگر بہن کو پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا۔کلثوم نے پرس میں سے کچھ پیسے نکالے، یہ رکھ لیں کام آئیں گے۔ تمھارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ ارسلان نے کلثوم کی طرف دیکھا جو کہیں دور کوئی نادیدہ شے تلاشنے میں مصروف تھی۔ زیور فروخت کیے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار کے۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ تمھاری ساس کی متاع جان تھے وہ زیور، تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ ارسلان نے تقریباً چیخنے والے انداز میں کہا۔

میں ایسا کر چکی ہوں۔ کلثوم اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے بولی۔ میں بھی ان کی بیٹی ہوں۔ میرا بھی کچھ حق بنتا ہے۔ پر کلثوم میں تمھارے گھر پر کوئی آنچ آتے نہیں دیکھ سکتا۔ تو کیا میں اپنی ماں کو یوں مرتے ہوئے دیکھ سکتی ہوں؟۔کلثوم دھاڑی تو آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے۔ صبح سے ایک ایک در پر جا رہے ہو۔ کسی نے کی مدد نہیں! نہیں نا؟ پر تم نے اپنی بہن سے ایک بار بھی نہیں کہا۔ اتنی غیر تھی میں؟ ایک آنسو نے بند توڑا تو باقی بھی بارش کی بوندوں کی طرح برسنا شروع ہو گئے۔ ارسلان بھی دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ دل مخلص انسان کے سامنے واقعی ہار جاتا ہے مگر وہ مرد تھا وہ کیسے رو سکتا تھا اور اگر وہ رو دیتا تو کلثوم کو حوصلہ کون دیتا۔ وہ اپنے آنسو پی گیا۔

’’مجھے معاف کر دو پلیز مجھے صرف تمھاری ساس کا ڈر تھا‘‘، ارسلان سے جب کچھ نہ بن پڑا تو بہانا گڑھا۔ ’’وہ دو مہینے کے لیے گاؤں جا رہی ہیں۔ تم یہ مجھ سے بطور قرض لو گے اور دو مہینے تک واپس کرو گے تو میں سنار سے سیٹ واپس لے لوں گی۔ مشکل وقت کٹ جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘، کلثوم نے جلدی سے تجویز دی۔

’’اور اگر میں یہ پیسے واپس نہ کر سکا تو؟‘‘ ارسلان نے سوالیہ نگاہوں سے بہن کو دیکھا۔ ’’تو اپنی دکان بیچ دینا اور مجھے پیسے واپس کر دینا۔ تم کوئی نوکری کر لینا۔ سر سلامت تو ٹوپیاں بہت‘‘، کلثوم نے چٹکیوں میں حل نکالا۔ ارسلان نگاہیں چرا گیا۔ اب وہ کیا بتاتا کہ دکان تو وہ پہلے سے ہی فروخت کر چکا ہے۔ ’’اب میں چلتی ہوں، ارشد آفس سے آنے والے ہوں گے۔ اماں کو میری طرف سے پوچھ لینا‘‘، کلثوم پیسے اس کی جھولی میں رکھ کر چلی گئی۔ دور تک اس نے جاتے ہوئے بہن کو دیکھا۔ جس کو ہمیشہ سے اپنے بھائی کا خیال رہتا تھا۔ یہ بہنیں بھی کتنی پیاری ہوتی ہیں۔ بھائیوں کے ہر دکھ درد کی سانجھی۔ کلثوم کے جانے کے بعد اس نے ہسپتال کی راہ لی۔ ٹیکسی روک کے بیٹھ گیا۔ اب اس کے پاس پیسے پورے ہوگئے تھے۔ بیس ہزار دوائیوں کا خرچ بھی اس کے پاس تھا۔ وہ اب جلد از جلد ہسپتال پہنچنا چاہتا تھا۔ اماں اسے دیکھ کر کتنی خوش ہوں گی۔ ایک پر سکون سانس اس کے منہ سے خارج ہوا۔

ٹیکسی کی اسپیڈ آہستہ ہوئی کوئی تیزی سے ٹیکسی کا دروازہ کھول کر اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ساتھ ہی نیفے میں اڑ سے پستول نکال کر اس پر تان لی۔ ’’جو کچھ ہے جلدی سے نکالو ورنہ ابھی کے ابھی اڑا دیں گے‘‘، ٹیکسی ڈرائیور نے آہستہ سے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ارسلان نے حیرت سے ڈرائیور کو دیکھا۔جس کے تیور کافی خطرناک تھے۔’’سنا نہیں بھائی کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ دوسرے بندے نے پستول سے اس کے سر پر ضرب لگائی۔ ’’دیکھو میرے بھائی میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘، ارسلان آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتا گیا۔ میں غریب سا بندہ ہوں۔’’بکواس بند کر تیرے پاس پیسے ہیں اور اگر کوئی چالاکی کرنے کی کوشش کی تو جان سے ہاتھ دھو‘‘ ابھی بات اس کے منہ میں تھی کہ ارسلان پستول پر جھپٹا اور اس کے ہاتھ اوپر کی طرف کر دیے ایسے میں ایک گولی کی آواز فضاء میں گونجی جس نے ٹیکسی کی چھت میں سوراخ کر دیا۔ حملہ اتنا اچانک ہوا کہ سمجھنے کا موقع نہیں ملا۔ پستول ارسلان کے ہاتھ لگ چکا تھا۔

پیسے دے دوں ہاں؟ کیسے دے دوں؟ ان میں ایک دوست کا خلوص، ایک بہن کے آنسو، ایک بھائی کی محنت شامل ہے اور میں اتنی آسانی سے تم لوگوں کو دے دوں؟ اب ارسلان نے ان پر پستول تان لی تھی۔ ٹیکسی رک چکی تھی۔ وہ حیران پریشان ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں پولیس کے تین لوگوں نے ٹیکسی کا شیشہ بجایا۔ وہ ایک مصروف شاہراہ تھی۔ یقیناً گولی کی آواز سن کر وہ وہاں پہنچے تھے۔کیوں ابے بڑی چربی چڑھی ہے۔ اتنی مصروف شاہراہ پر ڈکیتیاں کرتا پھرتا ہے۔ ایک پولیس والے نے ارسلان کے ہاتھ سے پستول لیتے ہوئے ایک تھپڑ ارسلان کے منہ پر جڑ دیا۔ صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی، ابھی ارسلان کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ لاتوں مکوں کی بارش ہونے لگی۔

صاحب ہمارا بیگم بیمار ہے۔ ہم نے ٹیکسی کے مالک سے کچھ پیسے ادھار لیا اور یہ وہ بھی ہم سے چھیننا چاہتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور تفصیل بتاتے ہوئے رونے لگا۔ اس میں سے کچھ پیسے آپ رکھ لو باقی ہمیں دے دو۔ اس کے ساتھی نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجاء کی۔ کچھ پیسے قانونی کاروائی میں لگ جائیں گے۔ تقریباً بیس تیس ہزار اے ایس پی نے پانچ ہزار کے چھ نوٹ نکل کر پیسے ان کو تھاما دیے۔ ارسلان کی پیٹائی کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا مگر اس کے ہونٹ تو جیسے سل گئے ہوں۔ کوئی آہ و بکا کوئی صدا کوئی التجاء کوئی ماتم کچھ بھی نہیں۔ بس ایک کرب تھا جو اس کی آنکھیں بیان کرتی تھیں۔ ایک گھنٹے کی اذیتوں کے بعد اس کو چھوڑ دیا گیا اور اگلے لمحے وہ ہسپتال کے لان کے ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک جنازہ نکلا۔ وہ بنا دیکھے بھی بتا سکتا تھا کہ یہ جنازہ کس کا ہو سکتا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتا ہوا قریب آیا۔

’’ارسلان بھائی آپ کہاں چلے گئے تھے‘‘، وارڈ بوائے نے پوچھا مگر ارسلان چپ رہا۔ پتا ہے بھائی آپ کی ماں نے آپ کو کتنا یاد کیا؟ وہ بار بار کہتی میں آخری بار اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ آپ کا فون بھی بند تھا۔ ارسلان کو چپ دیکھ کر وہ مزید گویا ہوا۔وہ کہہ رہی تھیں، ’’ارسلان کو کہو پانچ لاکھ کو چھوڑو تین ہزار کا بندوبست کرو‘‘۔ ہم نے پوچھا تین ہزار کیوں؟ تو کہنے لگیں، ’’قبر کی جگہ خریدنے کفن دفن پر تین ہزار لگتے ہیں‘‘۔ ’’الہیٰ آج کچھ انوکھا ہو جائے۔ زندہ کو دفنا دیا جائے‘‘، ارسلان کی ایک فلک شگاف چیخ نکلی اور زمین پر گر گیا۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023510 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.