کون سوچ سکتا تھا کہ اسے ماضی میں اس ہیلتھ ورکر نے
ٹھکرایا ہو گا۔۔۔۔! جو آج ایک چھوٹے سے قصبے کے پرائمری اسکول میں پولیو کے
قطرے پلاتی پائی گئی ہے!
بندیا اور وہ بچپن سے ہی منسوب تھے۔ پانچ سال بڑا تھا وہ اس سے ' آپس میں
قریبی رشتے دار تھے' شاید چچا زاد یا خالہ زاد کزن۔۔۔ یا پھر دونوں۔۔۔ ایک
ہی گھر میں بچپن سے عہد جوانی کو پہنچے ۔۔۔۔ فدی ہی تو تھا اس پر' حالانکہ
بلا کی انا پرست اور مغرور تھی جب آنکھوں کو چھوڑ کے ہاتھوں سے بولتی تو وہ
شعر و شاعری سے پیار کرنے والا لڑکا' ان بولتے ہاتھوں کو مسکراتے ہوۓ دیکھے
جاتا۔۔۔۔ ہزاروں اشعار اس کے ذہن میں تازہ ہو جاتے ۔۔۔۔ اس کے ہاتھ تھے بھی
تو بہت خوب صورت' اس کی دائیں ہتھیلی پر بچپن میں کھیل کھیل میں اسی سے چوٹ
لگ گئی تھی جس پر چوٹ کھانے والی سے زیادہ چوٹ لگانے والا رویا تھا۔ وہ زخم
بھرنے کے بعد ' دائیں ہتھیلی کی پشت پہ آدھے چاند کی مانند دائرے کی صورت
ابھر کر ابدی طور پر اپنی نشانی دے چکا تھا ۔ وہ ہمیشہ سوچتا تھا۔۔۔۔ جب یہ
ہاتھ شرعا میرا ہو جاۓ گا ' تو میں اس ساتویں کے آدھے اندھے چاند کو ' اپنی
محبت کے چودھویں کے پورے اور روشن چاند میں بدل دوں گا۔
اسے یونیورسٹی سے پاس آؤٹ کیے ایک سال گزرا تھا ' وہ مختلف جگہوں پہ اپلاۓ
کرتا رہتا تھا' مقابلے کے امتحانات کی تیاری اور کامیابی اس کے وصل کی ضامن
ہونی تھی لیکن نہ ہو سکی۔
بندیا ' یونیورسٹی کے پہلے ہی سال میں ایک جاگیردار کلاس فیلو کے لیے
سنجیدہ ہو گئی۔ گھر والوں کے کورٹ میں فیصلہ رکھا۔۔۔۔ اور بری طرح ہاری۔۔۔۔
یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت دینے والے " نئے روشن خیال والدین" اس بات پر
برہم ہو گئے۔
اس کی سہیلیاں بھی اس کے منگیتر اور اس کی محبت سے اچھی طرح واقف تھیں' ان
کے سمجھانے پر ان کو دشمن اور حاسد قرار دے کر ان سے دور ہو گئی۔ ' یہاں تک
کہ ایک عزیز سہیلی جو کہ رشتہ دار بھی تھی اس سے بھرے کینٹین میں کہہ دیا
کہ " اگر تمہیں میرے منگیتر کا اتنا ہی خیال ہے تو جاؤ تم ہی کر لو اس سے
شادی۔" خود پر ہنستے سارے چہرے دیکھ کر اس کی وہ عزیز دوست روتی ہوئی وہاں
سے چلی گئی تھی۔
پندرہ سال پہلے وہ آخری بار اس کے پاس آئی تھی' اس کے روبرو۔۔۔۔
" میں تمہارے ساتھ شادی کابھی نہیں کروں گی' سمجھاتے کیوں نہیں سب کو؟ " اس
خوب صورت انکھوں سے نفرت جھانک رہی تھی ۔ اس کے نتھنے پھول اور پچک رہے تھے
۔۔۔۔ اس کی چاند ہتھیلی دوسرے ہاتھ میں جکڑی ہوئی تھی۔
|