مجھے جاب کرنی ہے

تحریر: ام کلثوم ، لاڑکانہ
وہ شادی کے شروع سے ہی ایک اچھی اور فرمانبردار بیوی تھی مگر کچھ عرصے سے اس کی دوستی مسز عفت سے ہوئی تھی جو خود کو حقوق نسوان کی علمبردار کہلواتی تھیں اور ان سے ملاقات کے بعد سے اس کا رویہ بدل گیا تھا۔ ایک دوپہر کا واقعہ ہے کہ جب فرقان گھر واپس ہوئے تو کافی دیر دروازا کھٹکھٹانے کے بعد دروازہ کھلا اور فریحہ کی بیزار سی صورت نظر آئی جبکہ فرقان کے سلام کے جواب میں روکھے انداز میں جواب دیا گیا۔

کیا ہوا؟ آج بیگم کی طبیعت تو بخیر ہے نہ!، فرقان نے فکرمندی سے کہا۔ فریحہ نے اس کے جواب میں بھی فقط ہوں ہاں پہ اکتفا کیا۔ کھانا لا دو بیگم بھوک شدید لگی ہے۔ فرقان نے کمرے کی طرف جاتے جاتے کہا۔میں نے کچھ نہیں بنایا آج۔ اس نے نظریں ادھر ادھر گھماتے ہوئے کہا۔ کیوں بیگم روزا رکھوانا تھا کیا آج، فرقان نے رکتے ہوئے کہا۔

مجھ سے نہیں ہوتے یہ گھر کے کام اب۔ مجھے جاب کرنی ہے۔ فریحہ کے ایسے جواب اور اگلی بات پہ فرقان حیرت زدہ ہوگیا۔ کیا کیا! فرقان مزید کوئی بات نہ کرسکا۔

جی میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں اور آپ برابر ہیں۔ میں نوکر نہیں کہ میں سارا دن گھر میں کام کروں، آپ کے کھانے، پینے، کپڑوں کے پیچھے پاگل بنی رہوں اور آپ مزے سے حکم دیتے رہیں۔ فریحہ پھٹ پڑی۔ فریحہ تمہیں کیا ہوگیا ہے اچانک! آج سے پہلے تو کبھی تم نے ایسی بات نہیں کی اور میں سارا دن گھر سے باہر ہوتا ہوں تو کس کے لیے کماتا ہوں؟ تمہارے لیے، تمہارے سکھ کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے۔ فرقان نے سمجھانے والے انداز میں کہا اور بہت پریشان ہوگیا تھا۔

میں اپنے لیے خود کما سکتی ہوں۔ میں ان پڑہ نہیں ہوں۔ مجھے بہت اچھی نوکری مل سکتی ہے۔ گھر کی اور باہر کی دونوں ذمے داریاں ہم نبھا سکتے ہیں آپس میں بانٹ کر اور آپ مجھے نوکری سے نہیں روک سکتے۔ اس نے خود سر انداز میں کہا۔ ٹھیک ہے، اگر تم نے یہ ٹھان ہی لیا ہے تو کر گزرو جو کرنا ہے، میری طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی، فرقان نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔

وہ پریشان ہوگیا تھا کہ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی ان کے ہنستے بستے گھر کو کہ ان کی فرمانبردار اور محبت کرنے والی بیوی اس قدر ضدی ہوگئی تھی۔

دوسرے روز صبح کو اس نے صرف اپنا ناشتہ بنایا اور ناشتہ کر کہ دفتر کی طرف چلی گئی، جس کا پتا اس کو مسز عفت نے دی تھا۔ وہ دفتر پہنچی اور اپنی باری کے لیے بیٹھ گئی کہ دفعتا اس کی نظر کسی شناسا چہرے پر پڑی۔ وہ اس کی پرانی سہیلی مہوش تھی۔ مہوش نے بھی اسے دیکھ لیا اور دونوں گرمجوشی سے ملیں۔

ارے فری یہ تم ہو مگر تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ مہوش نے اس سے پوچھا اور فریحہ نے اس کو اپنے تمام خیالات اور ارادہ بتا دیا جس پہ مہوش دنگ رہ گئی۔

فریحہ مجھے یقین نہیں آرہا تم ایک گھر کی بادشاہی کو چھوڑ کہ اس باہر کی دنیا کے دھکے کھانے کے لیے آئی ہو، مہوش نے کہا۔ ہونہہ بادشاہی! سارا دن نوکروں کی طرح کام کرو، بچے سنبھالو، بھاڑ میں جائے ایسی بادشاہی۔ فریحہ نے نخوت سے سر جھٹک کہ کہا اور مزید کہنے لگی، تم بھی تو یہاں ہو! کیوں تم آزادی سے جی رہی ہو زندگی؟

مہوش پہلے اداسی سے مسکرائی اور پھر سمجھ گئی کہ ضرور اس کی کسی نے اچھے سے برین واشنگ کی ہے جس کو اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

فری تمہیں یہ آزادی لگ رہی ہے مگر اس سے بڑی قید کوئی نہیں۔ جب تک میرا شوہر زندہ تھا، تب تک میری اصل زندگی تھی۔ میں اپنے خوبصورت گھر میں ایک پرسکون زندگی جی رہی تھی مگر ان کی وفات کے بعد جب مجھے گھر سے نکلنا پڑا، جب اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اٹھنا پڑا تب جا کہ مجھے پتا چلا کہ میں نے کیا گنوا دیا۔ مہوش سانس لینے کو رکی پھر گویا ہوئی، دن بھر مردوں کی نظریں، غیر مردوں سے بات کرنا، ان کے حکم ماننا، ان کی ڈانٹ سہنا، کتنا مشکل ہے۔ تم مجھ سے پوچھو، کچھ وقت یہاں گزار کہ دیکھو گی تو تم جان لو گی کتنا مشکل ہے یہ سب۔ مہوش مسلسل بولتی رہی اور فریحہ چپ چاپ اس کی باتیں سنتی رہی۔

میں۔۔ میں گھر چلتی ہوں۔۔ دیر ہو رہی ہے۔ فریحہ نے رکتے رکتے یہ الفاظ کہے اور مہوش نے مسکرا کر اسے گلے سے لگایا۔ وہ گھر کی طرف واپس ہوئی اور سوچتی رہی کہ کیا ہوگیا اسے کہ اس نے اتنی بڑی غلطی کرلی۔ اپنی اچھے بھلے گھر کو ایسے ویران کرنے کا سوچ لیا۔ اسی سوچ میں وہ گھر پہنچی تو گھر کے دروازے پہ اسے فرقان نظر آگئے تھے۔

فریحہ تم کہاں چلی گئی تھیں اچانک؟ میں کتنا پریشان ہوگیا تھا! مجھے لگا تم مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئی ہو۔ فرقان کل کی سب باتیں بھلا کہ اس سے فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔

میں یہیں تھی فرقان بس تھوڑا سا راستہ بھول گئی تھی۔ چلیں اندر میں ناشتہ بنا کر دوں آپ کو، اس نے کہا۔
مگر کل تو تم۔۔۔ فرقان نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔ چھوڑیں آپ کل کو۔ اس نے بات بدل دی اور فرقان اس کایا پلٹ پہ حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ اسی وقت فریحہ کی موبائل ٹون بج اٹھی۔ اس نے فون کی طرف دیکھا اور غصے سے کال کاٹ دی کیونکہ وہ کال مسز عفت کی تھی اور وہ کسی ایسی عورت کے سائے سے بھی دور رہنا چاہتی تھی جو خود تو اپنا گھر بسا نہ سکے بلکہ اوروں کے گھر اجاڑتی پھرے۔

Anabiya Choudhry
About the Author: Anabiya Choudhry Read More Articles by Anabiya Choudhry: 27 Articles with 20876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.