نواحی بستی کے شکستہ گھروں میں صبح صادق کا اجالا پھیلنا
شروع ہوگیا تھا۔ مگر بابو رام کے خستہ حال گھر میں امیدوں کی روشن صبحیں
افلاس سے بھرپور دن کا آغاز کرتیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک بابو رام بھلا چنگا
تھا کام کاج پر جاتا بیوی بچوں کا خاطر خواہ خیال بھی رکھتا ۔ مگر پھر
اچانک سب کچھ بدلنے لگا۔ کام سے اس کا جی اچاٹ ہوچکا تھا۔ گھر کی ذمے
داریوں سے بے پرواہ بابو رام نشہ کی لت میں ایسا پڑا کہ گھر پر غربت نے
مستقل ڈیرے جمالئے ۔۔۔
حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے۔ گھر کا راشن ختم ہوچکا تھا۔ کوئی پڑوسی
اور جان پہچان والا بابو رام کی حالت دیکھ کر اسےادھار پیسے دینے کو تیار
نا تھا۔ بچے بھوک سے بلکنے لگے تو بیوی نے اچھے وقتوں میں بچت کرکے سو کا
نوٹ اپنی انگیہ سے نکال کر بابو رام کے ہاتھ میں تھمایا کہ وہ بازار سے
جاکر بچوں کے لئے ڈبل روٹی لیکر آئے۔ تاکہ وہ چائے کے ساتھ انھیں ڈبل روٹی
کھلا سکے۔
بابو رام کا سر چکرا رہا تھا آنکھیں لال تھیں اور نشہ کی طلب اپنے عروج پر
تھی۔ سو کا نوٹ دیکھ کر بابو رام کی جان میں جان آئی۔ اس نے جیب سے بیڑی
نکال کرماچس سے سلگائی دو تین لمبے کش لئے۔ دھواں اڑاتا گروسری کی دوکان کی
جانب بڑھ گیا۔
دو ہفتوں سے اس نے شراب نہیں پی تھی۔ اس کے دماغ میں خیالات کی رفتار
ناقابل گرفت تھی۔ جسم پر لرزہ طاری تھا۔ اسکی نس نس میں نشہ خون کے ساتھ
سرائیت کر چکا تھا۔ شراب اسکی زندگی کی ناقابل تردید حقیقت کا روپ دھار چکی
تھی۔
مڑا تڑا اسکی بیوی کے سینہ بند میں اڑسا ہوا میلا کچیلا بوسیدہ سو کا نوٹ
اب اسکی مکمل دسترس میں تھا اسکی مٹھی میں بند نوٹ اب زندگی کا ضامن تھا۔
سرد موسم کی صبح ہوچکی تھی مگر بادلوں میں ڈھکا سورج نکلنے کا نام نہیں
لیتا تھا۔ سردی کی شدت میں اضافہ تھا مگر موسم کی سختی کے باوجود بابو رام
گروسری کی دوکان میں داخل ہوچکا تھا۔ جہاں زندگی کو برقرار و بحال رکھنے
والی اشیاء ہر سمت پھیلی دکھائی دیتی تھیں۔
بابو رام فکری سطح پر داخلی انتشار کی مکمل زد میں تھا۔ اس کے باطن میں
گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ جنگ کے ایک لمحہ میں جب وہ زیر ہوا تو اسےمعصوم
بھوک سے نڈھال بچوں کا خیال آیا بیوی کے برہنہ جسم پر چیتھڑے نما کپڑوں میں
سے سو روپے کا نوٹ نکل کر اس کے ضمیر کو ملامت کرتا دکھائی دیا۔ بیوی بچوں
کے سوالوں سے لبریز انکی آنکھوں کی چیخ و پکار نے بابو رام کے شکستہ دل کو
جھنجھوڑ کر رکھدیا۔ اسی لمحے بابو رام نے ایک فیصلہ کرلیا ایسا فیصلہ جو
موت کو شکست دے سکتا تھا۔ اسکے منہہ سے زندگی کو واپس لے سکتا تھا۔ محبتوں
کو فنا ہونے سے بچا سکتا تھا۔ خود اعتمادی یقین استقامت کا ایک طوفان اس کے
باطن میں موجزن ہونا شروع ہوا اور وہ اب ایک قوت کے ساتھ گروسری میں کسی
فاتح کی مانند داخل ہوچکا تھا۔
گرم تازہ ڈبل روٹی کی مہک اس کے حواس پرسوار تھی۔ وہ دیوانہ وارڈبل روٹی کو
ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر کار اس تک پہنچ ہی گیا۔ مگر اچانک وہ ٹھٹھک کر رہ گیا۔
جہاں تازہ ڈبل روٹی رکھی تھی اس کے ساتھ ہی شیلف میں اس کے ضبط کا امتحان
بھی رکھا تھا ۔ |