کہنے کو انسان آزاد ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ کسی قید
میں ہوتا ہے ۔ کوئ رسم و رواج کا قیدی ، کوی رشتہ ازدواج کا قیدی جہاں اگر
نفرت ہے تو قید بامشقت اور پیار ہے تو با برکت ۔
کوئ سماج کی قید میں ہوتا ہے ، کوئ ماضی کی یادوں کے کل اور کوی آج کی قید
میں ہوتا ہے۔
کوی محبت کا قیدی ہے جو بلا جبر خوشی خوشی اپنے آپ کو پابند کرتا ہے ۔ نفرت
کے قیدی بڑی مشکل میں ہوتے ہیں ۔
مال اور بہتات کی محبت میں گرفتار قیدی کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے جو بہت
تیزی سے غفلت کی وادی سے ہوتا سیدھا قبر میں جا کر " یہاں تک کے قبروں میں
جا پہنچے " کی ماضی کی ایک تصویر بن کر رہ جاتا ہے ۔
ہم سب اپنی اپنی خواہشات کے قیدی ہیں جو ہمیں آزاد زندگی گزارنے نہیں دے
رہیں۔
پیار کا قیدی وہ واحد قیدی ہے جو آزاد نہیں ہونا چاہتا ۔
جو آزاد رہنا چاہتا ہے وہ پیار نہیں کر سکتا۔
حامد آزاد رہنا چاہتا ہے ۔ جب وہ آزاد تھا تو کتنا خوش تھا ۔ اب وہ سانولی
کی محبت کی قید میں ہے لیکن سماج کے بندھن سے آزاد ہے جبکہ سانولی آزاد ہے
مگر سماج کی دیوار میں چنوا دی گئ ہے ۔
تو نہ ملا تیرا روگ ہی سہی
تمام عمر اک سوگ ہی سہی |