دنیا میں ہر وہ آدمی کامیاب وکامران ہوا کرتا ہے جو باادب
ہوکسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’ باادب با نصیب،بے ادب بے نصیب‘‘تو آج کی اس
تحریر میں مسجد کے کچھ نہ کچھ آداب تحریر کرتا ہوں۔وہ آداب جو مسجد سے
متعلق ہیں: مختلف شعبوں میں منقسم ہیں، اور پھر ہر ہر شعبے کے لیے متعدد
جزئی احکام ہیں، مثلاً: آداب کی تقسیم میں مسجد آنے کے آداب، مسجد کی صفائی
وپاکی کے آداب، مسجد میں بیٹھنے اور ذکر وشغل کے آداب وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ان
میں ہر ایک پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ضرورت ہے مذہب کے دلدادہ
مسلمان ان کو فکر ونظر کے ساتھ پڑھیں، ان کی حکمتوں کو سمجھیں اور پھر ان
مسلمانوں کو بتائیں جن کو دنیا نے اپنے دامِ فریب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
نیت پاک اور بخیر ہو:
ہر چیز کی بنیادی اینٹ نیت ہے ۔’’ اِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِیَّاتِ‘‘کی
حدیث جس پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ مسجد کا ارادہ
کرتے ہوئے نیت پاک اور دل صاف ہو، قلب دنیاوی گندگیوں سے پاک اور منزّہ ہو،
نام ونمود، ریا وسمعہ کا چور دل میں چھپانہ ہو، بلکہ دل محبتِ مولیٰ سے سر
شار اور خشیتِ الٰہی سے معمور ہو، اور ایسا معمور جولرزہ برا ندام کر رہا
ہو، اس لیے کہ یہاں ذرا سی پونجی کے لٹ جانے کا خوف ہے ، اور اس سے بڑھ کر
اندھے غار میں گر جانے کا اندیشہ۔
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے جماعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا اور نیتِ صالحہ
کو بتایاکہ یہ ثواب کی زیادتی اس وقت ہے جب اچھی طرح وضو کرے ، پھر مسجد کے
لیے نکلے اور فقط نماز ہی کی نیت سے نکل رہا ہو(بخاری )
باوضو آئے :
گھر سے جب چلنے لگے تو پہلے وضو کرلیا جائے ، کیوں کہ سنت طریقہ یہی ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے جہاں جماعت کی نماز میں ثواب کی زیادتی کا ذکر فرمایا ہے ،
وہاں یہ تصریح کی ہے کہ ثواب کی زیادتی اس وجہ سے ہے کہ وضو کیا اور اس کے
بعد خالص نیت سے مسجد روانہ ہوا۔ اور انھی آداب کے ساتھ چلنے پر درجہ کی
بلندی اور گناہ کی معافی کی بشارت ہے ۔ حدیث میں ہے کہ مرد کی باجماعت نماز
اس کی اس نماز سے جو گھر اور بازار میں پڑھی جائے ، پچیس گنا بڑھی ہوئی ہے
، اور وہ زیادتی اس وجہ سے ہے کہ اس نے وضو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کیا اور
محض نماز ہی کی نیت سے نکلا، اس سلسلے میں جو قدم اٹھائے گا اس کے بدلے میں
ایک درجہ بلند ہوگا اور اس کا ایک گناہ معاف ہوگا(بخاری)
ضرورت بھی ہے کہ دربارِ خداوندی کے لیے پوری تیاری کے ساتھ چلیں، کپڑے بھی
صاف ہوں، بدن اور جسم بھی پاک ہو، اور اعضائے وضو جو وہاں جاکر نمایاں طور
پر مصروفِ مناجات اور اظہارِ تذلل میں پیش پیش ہوں گے ، صاف ستھرے اور
پاکیزہ ہوں۔
دعا پڑھتے آئے :
روانہ ہوتے ہوئے زبان پر یہ دعا ہو، جو دل کی گہرائیوں سے نکل رہی
ہو:اَللّٰہُمَّ اِنِّی أَسْأَلُکَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْکَ،
وَبِحَقِّ مَمْشَائِیَ ہَذا اِلَیْکَ، فَاِنِّی لَمْ أَخْرُجْ بَطَرًا
وَلَا أَشَرًا وَلَا رِیَاءً وَلَا سُمْعَۃً، وَاِنَّمَا خَرَجْتُ
اتِّقَاءَ سُخْطِکَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِکَ، وَأَسْأَلُکَ أِنْ
تُنْقِذَنِیْ مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَلِیْ ذُنُوبِیْ، فَاِنَّہ لَا
یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا أَنْتَ۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص نماز پڑھنے کے
لیے نکلتا ہے اور یہ (اوپر والی) دعا پڑہتا ہے ، اﷲ تعالیٰ اس کی حفاظت کے
لیے ستر ہزار فرشتے مقرر فرماتا ہے ، جو اس کے لیے فراغتِ نماز تک دعا کرتے
ہیں۔ان جملوں کی دعا پڑھنے کا کتنا بڑا اجر رکھا گیا ہے ۔ محنت معمولی اور
مزدوری اتنی بڑی! اس پر بھی ہمارے دل اثر پذیر نہ ہوں تو حیرت کی بات ہے ۔
اچھی ہیئت میں آئے :
روانہ ہوتے ہوئے ایک نظر اپنی ظاہری ہیئت پر بھی ڈال لی جائے ، اور یہ یقین
کرتے ہوئے کہ ہم ایک عظیم المرتبت دربار کو جا رہے ہیں، اتنا عظیم المرتبت
کہ اسے دنیا کی جنت سے تعبیر کیا جائے تو مبالغہ نہیں،تو ادب یہ بھی ہے کہ
ظاہری ہیئت عمدہ سے عمدہ ہو، ایسی عمدہ جو شریعت کی نظر میں خراجِ تحسین
حاصل کرسکے ۔
باوقار واطمینان آئے :
مسجد آتے ہوئے یہ خیال رہے کہ ہم ایک بڑی عبادت کے لیے بڑے گھر کی طرف جا
رہے ہیں، اس لیے رفتار میں پورا وقار، اعتدال اور سکینت نمایاں ہو، ایسی
رفتار ہرگز نہ اختیار کی جائے جس سے دیکھنے والا ہلکا پن محسوس کرے اور عام
نظروں میں مضحکہ خیزی کی حد تک پہنچ جائے ، ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ نماز
کا ارادہ کرنا بھی نماز ہی کے حکم میں ہے ۔ لہٰذا راستہ میں چلتے ہوئے لہو
ولعب، ہنسی مذاق اور ناجائز چیزوں پر نظر سے پرہیز کیا جائے ، نگاہ نیچی،
دل میں محبت وخشیّت اور امید وبیم کی کیفیت طاری ہو، چہرہ پر تواضع اور
تذلل کے آثار ہوں، مگر یہ سب کسی اور کے لیے ہرگز ہرگز نہ ہو، محض رب
العالمین کے لیے ہو۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان آیا ہے :تم جب اقامت
سنو تو نماز کے لیے اس طرح چلو کہ تم پر سکینت ووقار طاری ہو، اور دوڑو مت
،نماز کے لیے اس طرح آؤ کہ تم پر وقار واطمینان ہو، جو پالو پڑھ لو، اور جو
چھوٹ جائے اسے پورا کرلو، جب تم میں کا کوئی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو ہ
حکماً نماز ہی میں ہوتا ہے (مسلم)
پیدل آئے :
مسجد پیدل چل کر آنا چاہیے ، بغیر عذرِ شرعی سواری سے آنا اچھا نہیں، تاکہ
ہر قدم کا اجر نامۂ اعمال میں لکھا جائے ، جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے ۔
آنحضرت ﷺ کا دستور بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہ پیدل مسجد آنا باعثِ
کفارۂ گناہ ہے ، جیسا کہ ایک لمبی حدیث میں پورا واقعہ مذکور ہے کہ جس میں
آ نحضرت ﷺنے اپنا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رؤیت غنودگی کی
حالت میں میسر آئی، رب العزت نے مجھ سے ملائے اعلیٰ کے بارے میں سوال کیا،
میں نے اپنی لاعلمی ظاہر کی، آخر کار اس نے اپنا دستِ قدرت مجھ پر ڈالا جس
کا اثر میں نے محسوس کیا۔ اس کے بعد رب العزت کی طرف سے پھر وہی سوال ہوا،
اب میں نے کہا کہ فرشتے کفاراتِ گناہ میں جھگڑ رہے ہیں، یعنی کون ایسے عمل
ہیں جو گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتے ہیں، میں نے تفصیلی جواب دیا۔ اسی
حدیث میں پہلا جملہ یہ ہے جماعت کے لیے پاؤں پاؤں چلنا(باعثِ کفارۂ گناہ ہے
)
پہلے دایاں پیر داخل کرے :
راستہ اس طرح طے کر کے جب مسجد کے دروازے پر پہنچ جائیں تو داخل ہوتے ہوئے
مسجد میں پہلا دایاں پیر رکھیں، پھر بایاں۔ اور فارغ ہو کر جب نکلنے لگیں
تو اس کے خلاف کریں، یعنی پہلے بایاں پیر نکالیں پھر دایاں، مگر جوتا وغیرہ
پہلے داہنے ہی پیر میں پہنیں کہ طریقۂ مسنونہ یہی ہے ۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں
کہ سنت ہے کہ جب مسجد میں تو داخل ہو تو پہلے دایاں پاؤں ڈال اور جب نکلے
تو پہلے بایاں پیر نکال۔صحابۂ کرام ؓ کا اسی پر عمل رہا، اور ادب کا تقاضا
بھی یہی ہے کہ نسبتاً دائیں کو بائیں پر فضیلت ہے ۔
دعا پڑھی جائے :
دایاں پاؤں رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھی جائے :اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ
أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔اے اﷲ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب
نکلیں تو بایاں پاؤں پہلے نکالیں، اور یہ دعا پڑھتے ہوئے :اَللّٰہُمَّ
اِنِیْ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ۔اے میرے اﷲ! تجھ سے تیرے فضل وبخشش کی
درخواست کرتا ہوں۔
نماز تحیہ المسجد:
موقع ہو تو پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز تحیۃ المسجد پڑھیں، وقتی نماز کا
وقت ہو یا کوئی اور وقت ہو، البتہ اوقاتِ مکروہ میں سے کوئی وقت نہ ہو،
جیسے آفتاب کے طلوع وغروب کا وقت یا زوال کا۔ حضرت کعب بن مالک ؓ سے مروی
ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایاتم میں کوئی مسجد میں جب داخل ہو تو اس کو بیٹھنے
سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے (بخاری)
اگر کوئی اوقاتِ مکروہہ میں یا صبح ومغرب میں تحیۃ المسجد کی تلافی کرنا
چاہے ، تو اس کو چاہیے کہ قبلہ رو بیٹھ کر ایک ساعت ذکر وتسبیح وتہلیل میں
گزارے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں آداب مسجد کے سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطاء فرمائے(آمین) |