از افادات: حضرت مولانا پیر محمد رضاثاقب مصطفائی
نقشبندی(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
اولیاء اﷲ کی عموماً کرامتیں بیان کی جاتی ہیں؛ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن جب ’صرف‘ کرامات ہی بیان کی جائیں گی ؛ معیارِ ولایت بیان نہیں ہوگا
تو مختلف لوگوں کی شعبدہ بازیوں کو لوگ کرامت سمجھ لیں گے۔ اور اُن کے
پیچھے چل کے اپنی دنیا اور آخرت برباد کریں گے۔ اس لیے ہمیں اِس بات کا
پورا پورا ادراک ہونا چاہیے کہ ’’ولی‘‘ کسی کہتے ہیں؟اور اُس معیار پر ہم
کسی کو دیکھیں۔ اِس کے باوجود اُس کا معاملہ اﷲ کے ساتھ ہے۔ کیوں کہ نبی
اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے۔ ولی اپنی ولایت کا اعلان نہیں کرتا۔ نبی کے
اوپر لازم ہے، واجب ہے کہ وہ بتائے کہ مَیں نبی ہوں۔ لیکن یہ چیز ولی پر
نہیں ہے۔ وہ تو کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپ جائیں۔ لوگوں سے
پوشیدہ رہیں۔ وہ (آج کے نام نہاد پیروں کی طرح)اپنی ولایت کے لیے تشہیری
مہم نہیں چلاتے۔ بلکہ وہ خلقِ خدا کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
اور اﷲ کی رضا جوئی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
کرامات کا صدور ہوجانا ممکن ہے۔ اگر کوئی کرامت صادر ہوجائے تو اچھی بات ہے۔
لیکن یہ ان کا مقصود نہیں ہوتا کہ ہم سے کسی کرامت کا ظہور ہو۔ کبھی کبھار
کسی حالت میں کسی کرامت کا صدور ہوجاتا ہے۔
ولی دو صفات کا حامل ہے۔ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ۔ (سورۃ
یونس، آیت ۶۳)جو قرآن نے بیان فرمایا۔ ایک تو وہ مومنِ کامل ہوگا۔ کامل
مسلمان ہوگا۔ اور دوسرا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ وہ پرلے درجے کا متقی ہوگا۔
اعلیٰ درجے کا پرہیز گار ہوگا۔ اس کی زندگی تقوے سے عبارت ہوگی۔ اس کے شب و
روز حزم و احتیاط سے گزریں گے۔ شریعتِ بیضا پہ عمل پیرا ہوگا۔ اور شریعت کی
جانب سے منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو بچا کے رکھے گا۔ اس کی زندگی کے اندر
لغویات نہیں ہوں گی۔ ا س کی زندگی کے اندر فضولیات نہیں ہوں گی۔ اس کی
زندگی منظم اور مرتب ہوگی۔ وہ خواہشات کا اسیر نہیں ہوگا۔آرزوؤں کا بندہ
نہیں ہوگا۔ وہ مال و زر کا پجاری نہیں ہوگا۔ وہ ہوس زدہ نہیں ہوگا۔ وہ
لالچی نہیں ہوگا۔ متکبر نہیں ہوگا۔ متمرد نہیں ہوگا۔ سرکش نہیں ہوگا۔ اس کی
نظر لوگوں کے دلوں پہ ہوگی؛ لوگوں کی جیبوں پہ نہیں ہوگی۔ وہ خواہشات کی
دنیا کا باسی نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اﷲ کے قرب کا متلاشی ہوگا۔ اور قرب کی جو
منزل اسے میسر ہے؛ اس سے وہ آگے جانا چاہے گا۔ اس کی آرزو یہ ہوگی کہ مجھے
اﷲ کی قربتیں اور نصیب ہوں۔
ہر لحظہ نیا طور نیا برقِ تجلّٰی
اﷲ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
وہ آگے بڑھتا رہے گا، آگے بڑھتا رہے گا۔ اس کی آرزو یہ ہوگی کہ مجھے اﷲ کا
جتنا قرب نصیب ہوجائے وہ ہی میرے لیے غنیمت ہے۔ اور و ہی اس کی زندگی کا
مطمحِ نظر ہے۔ اس کی زندگی کا سرور اور عبادت کا جمال بس اسی میں ہے کہ
مجھے اﷲ کی قربتیں حاصل ہوں۔ اور وہ رضائے الٰہی کے لیے کوشاں ہوگا۔ مخلوق
اس کے گرد جمع ہوں، لوگ آئیں وہ اُن کی ضرورتیں ہیں؛ لیکن اُس کی ضرورت
نہیں ہوگی۔ اُس کی ضرورت رب کی رضا ہے۔ اور آنے والی مخلوق پر شفقت اس کا
مزاج ہوگا۔
آپ ’’تصوف‘‘ کا خلاصہ سُننا چاہیں؛ اﷲ کے ولی کا مزاج دیکھنا چاہیں تو ان
دو جملوں میں ہر شئے سمو دی گئی ہے۔ التعظیم لأمر اللّٰہ والشفقۃ علیٰ خلق
اللّٰہ۔ اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ کے احکام کی تعظیم۔ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے جو
حکم بندے کے اوپر عائد ہوتے ہیں ان کی تکریم اور ا ن کی تعظیم کرنا یعنی ان
کو تعظیم و تکریم کے ساتھ بجا لانا ۔ اور دوسرا والشفقۃ علیٰ خلق اللّٰہ اﷲ
کی مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش آنا۔ مخلوق کے ساتھ رویے خوب صورت ہونا۔ حقوق
اﷲ اور حقوق العباد؛ دونوں کی خوبصورتی کے ساتھ ادائیگی یہ اﷲ کے ولیوں کا
شعار ہے۔ وہ اﷲ کے حقوق کو بھی پامال نہیں ہونے دیتے۔ اور اُس کی مخلوق کے
حق کو بھی پامال نہیں ہونے دیتے۔ اور حقیقی صوفی وہی ہوتا ہے جو اپنے رب کے
حقوق کی بھی پاس داری کرے اور لوگوں کو بھی اذیت نہ دیں۔ لوگوں کے حقوق کا
بھی پورا پورا خیال رکھے۔ اس کا وجود ضرر کا سبب نہ ہو؛ نفع کا ذریعہ ہو۔
اس کا وجود لوگوں کے لیے ہدایت کا سبب ہو گمراہی کا سبب نہ ہو۔ اور وہ
لوگوں کے لیے راحت اور رحمت کا ذریعہ ہو؛ زحمت کا سبب نہ ہو۔ …… تو اﷲ کا
ولی ’’ایمان اور تقویٰ‘‘ کے نور سے مالامال ہوتا ہے۔
٭٭٭ |