انبیاء جس علاقے میں آتے ہیں ان کا اس تمدن کے ساتھ تعلق
کیا ہوتاہے ؟انبیاء تمدن کو کس قدر متاثر کرتے ہیں اور ان کی شریعت میں ان
کا کس قدر اثر ہوتاہے ؟ شریعت اس علاقائی تمدن کا لحاظ کرتے ہوئے آتی ہے تو
نبی کے وہ افعال جو عبادات کے قبیل سے نہیں ہوتے ہیں ان کی حیثیت کیا رہ
جاتی ہے ۔ حضرت قاری طیب صاحب ؒ نے اس بحث کو سرسید ؒ کے کچھ شبہات کے جواب
میں ذکر کیا ہے ۔
سرسید اپنی کتاب" تہذیب الاخلاق "میں مختلف دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ
کسی دوسری قوم کے ساتھ مشابہت ممنوع نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں وہ حدیث " من
تشبہ بقوم فھو منھم " پر مختلف اعتراض کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے ۔
سرسید لکھتے ہیں" چوتھے یہ کہ تمام مسلمان اور صحابہ اور خود جناب رسول خدا
ﷺ اور کفار عرب ایک ساہی زی و لباس رکھتے تھے اور دونوں قومیں جو بہ اعتبار
مذہب کے دو تھیں ، بالکل ایک دوسرے کے مشابہ تھیں ۔ اور کوئی تفرقہ کفار
اور اہل اسلام میں تمییز کا قائم نہیں کیا گیا تھا تو پھر حدیث " من تشبہ
بقوم فھوم منھم " کے کیا معنی ؟ کیا عقل سلیم اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ
اگر جناب رسول خدا ﷺ لندن میں یا جرمن میں یا ایشیاء میں پیدا ہوئے ہوتے تو
ان کا لباس ویسا ہی نہ ہوتا جیسا کہ ان ملکوں کے لوگوں کا ہے ۔ پس تشابہ
قومی سے کیا شرعی نتیجہ پیدا ہوسکتاہے ؟ "تہذیب الاخلاق ، جلد چہارم ، ص 41
حضرت قاری طیب صاحب نے اس کے متعدد جواب دیے ہیں جن کے ضمن میں یہ اہم بحث
بھی سمجھنے کو ملتی ہے کہ نبی اور تمدن کا باہمی تعلق کیا ہوتا ہے ۔ فرماتے
ہیں کہ حضور ؑ بھی حلہ پہنتے تھے اور کفار بھی اور حلہ کا معنی چادر اور تہ
بند کے ہیں ، یہ اصل لباس اور مادہ لباس ہے ، فی نفسہ کوئی اور صورت اور
وضع نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ احرام میں اس کوباقی رکھا جاتاہے ، تشبہ کا
تعلق صور و اوضاع سے ہوتاہے نہ کہ اصول اور مواد لباس سے ، کیونکہ چادر اور
تہ بند کے بغیر تو بندہ ننگا ہوجاتاہے اس لئے یہ بنیادی لباس ہے جس کو
پہننا ضروری ہے اور اس میں تشبہ چھوڑنا اسی طرح ہے کہ سرے سے کھانا ، پینا
اور اجزاء جسم رکھنا ہی کفار کی مشابہت کی وجہ سے ممنوع ہو ۔
اگر اس کوکوئی وضع تسلیم کرلیں بایں معنی کہ مادہ لباس ہی اگر کسی قوم کا
امتیازی شعار ہوجائے جیسا کہ مشرکین مکہ تھا تو حضور نبی ؑ نے اس کو اسی
طرح استعمال نہیں کیا تھا جس طرح مشرکین کیا کرتےتھے ، آپ ﷺ ٹخنوں کے نیچے
ازار کرنے یا لٹکا کر چلنے سے منع فرمایا تو اس میں حدود و قیو د لگائی
گئیں ۔
اس کے بعد اس بحث کو تفصیل سے ذکر کرتے ہیں کہ کیا انبیاء لباس و معاشرت
اور خصوصیات وطن میں اپنی قوم کے تابع ہوتے ہیں ۔ سرسید نے لباس کے یکساں
ہونے سے یہ اصول اخذ کیا تھا کہ ان چیزوں میں انبیاء علاقائی تمدن اور اپنی
قوم کے تابع ہوتے ہیں ان کے اصول کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پھر نہ
معلوم ایسے محتمل المراد جزئیہ سے یہ کلیہ کس طرح نکل آتا ہے کہ ہر ایک نبی
لباس و معاشرت مین اپنی قوم یا خصوصیات وطن کا تابع ہوتاہے ۔ ہاں ! اگر
زبردستی نکال لیا جاتاہے تو پھر یہ کس قدر مضحکہ خیر اور بے اصول بات ہے کہ
کسی اصل کا تو وجود نہ ہو اور اس سے قواعد کی تدوین کی جانے لگے ۔مطلب یہ
کہ لباس کے ایک جیسا ہونے میں متعدد احتمالات ہیں ، اب جبکہ جزئی میں ہی
متعدد احتمالات ہیں تو اس سے اصول کیسے اخذ کیا جاسکتاہے ۔ اس جزئی میں
احتمالات کیا ہوسکتے ہیں اس کی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
اگر حضور اور مشرکین کا لباس یکساں تھا بھی تو اس سے حضور کا ان کی پیر وی
کا اراد ہ نہیں تھا بلکہ محض اتفاقی چیز تھی ۔ اس معاملے میں اگر اتباع کا
دخل تھا بھی تو مشرکین کی اتباع مقصو د نہیں تھی بلکہ مسلمین اولین کی
اقتداء مطلوب تھی اور قرآن میں آپ کو انبیاء کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے ۔
حضرت اسماعیل ؑ حلہ پہنا کرتےتھے جیسا کہ فاروق اعظم نے آذر بائیجا ن کے
عربوں سے کو حلہ پہننے کا حکم دیا کہ ازار اور رداء کا استعمال کرو اور
اپنے باپ اسماعیل ؑ کا لباس پہننا ضروری سمجھو ۔
حضرت عیسیٰ جب نازل ہوں گے تو ان پر دو چادریں ہوں گی ۔ اس سے ثابت ہوتاہے
کہ حضرت عیسیٰ کالباس بھی یہی ہوگا ۔ نیز ابراہیم ؑ کا لباس بھی حلہ معلوم
ہوتاہے ، اس لئے کہا جاسکتاہے کہ حلہ انبیاء و صالحین کا لباس تھا اور آپ
ان کی پیروی کررہے تھے ۔ کیونکہ صالحین اور عام مقتدایان مذاہب سادہ لباس
پہنتے ہیں اور ان کا لباس عام طور پر اسی طرح کا ہوتاہے ۔
اگر انبیاء لباس و معاشرت میں اپنی قوم اور تمدن کی پیروی کریں تو یہ ان کی
بعثت کے مقاصد اور مطاع ہونے کے الٹ قرار پاتاہے ، اس چیز کو واضح کرتے
ہوئے لکھتے ہیں ۔ خدا کا نبی مطاع بن کر آتاہے اور اس کی اتباع کی جاتی ہے
، یہ نبی کی توہین ہے کہ لباس و معاشرت میں اس کے پا س کوئی سامان ہدایت
نہیں ہوتاہے اور وہ بھی معاشرے کا ایک فرد ہوتاہے جو اپنی قومی معاشرت کا
پابند اور رسم و رواج کا مقلد بن کر آتاہے ۔ اور مقلد بھی اس قوم کاجس کی
ہدایت و رہنمائی کے لئے اس کی بعثت ہوئی تھی ۔ بہرحال یہ کلیہ کسی طرح عقلا
، نقلا ، عرفا ، تجربتا ، مشاہدتا باور کرنے کے قابل نہیں کہ انبیاء لباس و
معاشرت میں اپنے ابنائے وطن کے تابع اور ملکی خصوصیات کے زیر اثر ہوتے ہیں
۔ کیونکہ اس کے باور کرنے میں حقیقی متبوع کا تابع ہونا اور تابع کا متبوع
ہونا لازم آئے گا اور یہ موضوع رسالت کو الٹ دینا ہے ۔
قرآن کریم کی مختلف آیات ذکر کرتے ہیں جن میں آپ ﷺ کا مطاع ، اسوہ حسنہ
ہونا اوراپنی مرضی سے کچھ نہ کرنا مذکور ہے ۔
اس کے بعد نبی کے لباس و معاشرت اور معاشرے کے دیگر رہنے والے لوگوں کے
لباس و معاشرت کے مقاصد میں فرق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انبیاء کا لباس و
معاشرت ان کے نور تقویٰ و طہارت ، صبر و قناعت ، زہد فی الدنیا اور رغبت فی
الاخرۃ کے تابع ہوتے ہیں ان کے لباس پران ہی اخلاق فاضلہ کا رنگ چھایا
رہتاہے ، ان کی معاشرت زاہدانہ اور قانعانہ ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ اپنی قوم
کے تابع نہیں ہوتے ہیں جس میں عبد یت ، تواضع کے جذبات ماند پڑچکے ہوتے ہیں
اور تکبر و عیش و عشرت غالب ہوتی ہے ۔
اس کے بعد اس فرضیے کہ نبی ؑ اگر کسی اور علاقے میں آتے تو انہی کا لباس و
معاشرت اپناتے کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک تو یہ صرف فرضیہ اور وہم
ہے اور حقیقت چھوڑ کر اس میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔ لیکن اس جزئیہ کو اگر
سے تعبیر کرنے کی بجائے ، یوں کہو کہ حضور اکرم ﷺ لندن و جرمن تشریف لے گئے
اور پھر بھی وہاں کی زی و ہیئت کو ناپسند فرمایا اور کراہت کے سبب ٹھکرادیا
، کیونکہ کسی موطن کی طرف جانا یا کسی چیز سے قریب و بعید ہونا محض مکان ہی
کی حیثیت سے نہیں ہوتا بلکہ علم کی حیثیت سے بھی ہوسکتاہے ۔
جناب نبی اکرم ﷺ ان تمام ممالک میں تشریف لے گئے لیکن نہ مکانی حرکت سے
بلکہ علمی حرکت سے اور یہی آپ کی اعلی ٰ شان کو زیب بھی دیتاتھا ۔ کیونکہ
جب آپ نے علمی و اصولی حیثیت سے لندنیوں و جرمنوں کےتمام ان مخصوص ملبوسات
سے ہمیشہ کے لئے ممانعت فرمادی جو کسی دور میں ان کا شعار اور مابہ
الامتیاز قرار پائیں تو بلا شبہ آپ نے لندن و جرمن کی طرف تشریف ارزانی
فرمائی جو نقل مکانی سے کہیں بڑھ کر قوی اور مفید احکام ثابت ہوئی ۔ (
التشبیہ فی الاسلام ، باب دوم ، درایتی شبہات ، ص 227 تا 240۔ مکتبۃ
البشریٰ )
قاری صاحب ؒ کی اس تمام گفتگو سے جو اصولی چیزیں معلوم ہوتی ہیں وہ درج ذیل
ہیں :
انبیاء مطاع اور متبوع کی حیثیت سے مبعوث ہوتے ہیں ، ان کا قوم کی معاشرت
کی پیروی کرنا ان کی بعثت کے الٹ قرار پاتاہے اس لئے یہ تصور درست نہیں ہے
کہ نبی قوم کی اتباع کرتاہے ۔
انبیاء اپنی قوم کی مشابہت اصل اور مادہ میں تو اختیار کرتے ہوئے نظر آتے
ہیں لیکن وہ مشابہت نہیں ہوتی ، وہ تو اسی طرح ہے جیسا کہ کھانے ، پینے اور
سانس لینے میں مشابہت ۔ اوضاع اور خاص اشکال میں قوم کی مشابہت اختیار نہیں
کرتے ہیں ۔
انبیاء کی معاشرت، لباس اور طرز زندگی کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں ا س لئے
بظاہر کسی چیز میں قوم کے رسوم و عادات میں شریک ہونے اور مشابہت پائے جانے
کے باوجود مقاصد کا مختلف ہونا دونوں کے طرز عمل کو مختلف بنا دیتاہے ۔
نبی کسی بھی کام کو بعینہ قوم کی طرز پر سر انجام نہیں دیتاہے بلکہ اس میں
ضروری تبدیلیاں کرکے اپنا تاہے ۔ نبی کا اپنانا ہی اس کے مستحسن اور اچھا
ہونا کے لئے کافی ہوتاہے ، نبی جب اس میں ضروری تبدیلیوں کے ساتھ اس کو
اپنا تاہے تو یہی فعل رسم و رواج کی حدود سے نکل کر نبی کا طریقہ قرار
پاتاہے اب بعد والوں کے لئے اس کو اپنانا بطو ر نبی کے طریقے کے ہوتاہے نہ
کہ کسی خاص قوم کی عادات کی پیروی کے طور پر ۔
انبیاء جس چیز میں بظاہر اپنی قوم کی عادات و معاشرت کی مشابہت کرتے ہیں وہ
در اصل سنۃ اللہ اور انبیاء کے طرز کی پیروی ہوتی ہے جو کہ بظاہر قوم کی
مشابہت معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں وہ سلف صالحین ، انبیاء اور اتقیاء کے
طریقے کی پیروی ہوتی ہے کیونکہ تمام انبیاء کی رہنمائی ایک ہی جانب سے ہوتی
ہے اس لئے ان کے طریقے ، عادات اور معاشرت بھی ملتی جلتی ہوتی ہے ۔
انبیاء کو اس زمانے میں موجود تمام کلچرز اور قوموں کی عادات معلوم ہوتی
ہیں اس کے باوجود نبی کسی خاص قوم کی عادات کو اپنا تاہے اور دوسروں کی
مشابہت سے منع کرتاہے جیسا کہ اصولی طور پر بھی حضور اکرم ﷺ نے دوسری قوموں
کی مشابہت سے منع کیا اور بہت سی چیزوں سے بھی صرف اس بناء پر کہ ان میں
دوسری قوموں کی مشابہت ہوتی ہے منع فرمایا ہے ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ
کلچر و ثقافت نبی کی ہدایت و اصلاح کے ساتھ مطلوب شارع ہوتی ہے اور دوسری
قوموں کی امتیازی چیزیں شارع کے نزدیک غیر مقبول قرار پاتی ہیں ۔ اس لئے
دوسری قوموں کی امتیازی چیزیں ہر دور میں ممنوع رہیں گی اور جو چیزیں اسلام
کی امتیازی بن چکی ہیں ان کو ا پنا نا یا ان کی حفاظت کرنا بھی ہردور میں
ضروری ہوگا ۔
|