ان باتوں کو یہ سوچ کر نظر انداز کرنا کہ بچہ ابھی چھوٹا
ہے تو یقین کیجۓ یہ عادات ساری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اکثر گھروں میں
ماٸیں بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہیں۔پیار کے اظہار سے زیادہ اس کی
وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچہ خود کھانا کھاتے ہوۓ گندگی پھیلاۓ گا۔لیکن یہ غلط
رویہ ہے بچے کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے دینا چاہیۓ ۔ہاں اس کی رہنماٸ
ضرور کریں پاس بیٹھ کر نگرانی میں کھلاٸیں ۔ایک اہم بات یہ کہ بچوں میں
شروع سے احساس ذمہ داری پیدا کریں وہ اسطرح کہ ان سے چھوٹے چھوٹے کام
کرواٸیں ۔چند آسان کام ان کے ذمہ لگا دیں جیسے اپنی کتابیں سمیٹنا اپنے
کھلونے سیٹ کرنا اپنا بستر ٹھیک کرنا وغیرہ۔احساس ذمہ داری شخصیت کی بنیادی
خصوصیت ہے ۔اس خصوصیت سے عاری شخصیت ساری زندگی نا صرف اپنے لیۓ بلکہ
دوسروں کے لیۓ بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ہم ماٸیں بچوں کی محبت میں بعض
اوقات ان سے ایسی بات کہ دیتی ہیں جو ان کی شخصیت پر منفی اثر ڈالتی
ہے۔جیسا کہ اکثر ماٸیں صبح ٹفن دیتے ہوۓ کہتی ہیں ”بیٹا سارا خود کھانا
دوستوں کو کھلا کر نہ آجانا“۔یہ فقرہ ان میں خود غرضی اور بے حسی پیدا کر
سکتا ہے۔اس کے بجاۓ یوں کہنا چایۓ کہ ”بیٹا میں نے ایک سینڈوچ زیادہ رکھا
ہے دوست کے ساتھ مل کر کھانا“۔کبھی ایک پنسل کی بجاۓ دو پنسلیں اس کے بیگ
میں رکھیں اور تاکید کریں کہ کسی دوست کو ضرورت پڑی تو اسے دینا ۔یہ چھوٹی
چھوٹی باتیں بڑے انسانبناتی ہیں۔دروازے پہ آنے والے ساٸل کو بچے کے ہاتھ سے
خیرات دلواٸیں ۔چھت پر پرندوں کو دانہ ڈلواٸیں ۔یقین کیجۓ یہ چھوٹی چھوٹی
باتیں بچوں کی شخصیت پر بڑے اثرات چھوڑتی ہیں۔ماں کی یہ چھوٹی سی کوشش
معاشرے کی بہتری کے لیۓ بڑا کام کرواے کا باعث بنتی ہے۔اسی طرح انسانیت
کوعبدالستار ایدھی اور مدر ٹریسا جیسے لوگوں سے مستفید ہونے کا موقع ملتا
ہے۔ایک فرد کے سنورنے سے ایک گھرانہ ۔ایک معاشرہ ۔ایک ملک اور پھر دنیا
سنورتی ہے۔جس دن ہم نے یہ بات جان اورسمجھ لی کہ اس ربّ ِ کاٸنات نے ہمیں
کس قدر اہم کام کے لیۓ چُن رکھا ہے یقین کیجۓ آپکو اپنا آپ بہت معتبر محسوس
ہوگا ۔آپ جو خود کو غیر اہم اور غیر ضروری سمجھتی ہیں اور بس زندگی آپکو
گزارے جارہی ہے ۔خدا کی جانب سے سونپی ہوٸ ذمہ داری کو سمجھنے کے بعد یہ
سوچ اور احساس خود بخود اعتماداور فخر میں تبدیل ہو جاۓ گا۔تو آج سے ہی
اپنی سوچ اور احساس کو بدل دیجۓ ۔دنیا کو سنوارنے کے کام میں اپنا حصہ
ڈالیۓ۔اپنے بچے کی اچھےسے تربیت کیجۓ کیونکہ یہی تو ہمارا اصل سرمایٸہ حیات
ہے۔
|