اس کتاب میں مسلم اورغیر مسلم دونوں کے لیے پیغام ہے:
غیر مسلموں کے لیے:
ضرورت اس امر کی ہے یہ کتاب زیادہ سے زیادہ مغربی اقوام میں عام کی جائے
تاکہ وہ اسے پڑھیں اور وہ تعصب کی عینک ہٹا کر کم از کم اپنے ہی وضع کردہ
تحقیقی اصولوں کو مدنظررکھتے ہوئے سیرت رسول عربی کا مطالعہ کریں ۔اور آج
کے دور میں جب آپ ﷺ کی ذات مبارکہ پر پھر رقیق حملے ہورہے ہیں۔حضور ﷺ کے
بارے میں انہیں اپنے رویہ پر ندامت ہو اور وہ اپنی اصلاح کرلیں۔تو وہ آپ ﷺ
کا اسوہ کمال کی انتہائی بلندیوں پر پائیں گے۔اوراس میں ایسی لچک (Flexibility)،وسعت(Scope)،عملیت
(Practicality) اور جامعیت (Comprehensiveness) ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موجودہے
جوہر دور،ہرخطہ کے ہر انسان کے لیے نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ ترقی کی ضامن
بھی ہے ۔آج بھی چودہ سو برس سے زائدعرصہ گزرجانے کے باوجود، زمانے کے
ہزاروں نشیب و فراز ،تغیر وتبدل،دلوں کے مزاج،خطوں کی آب وہوا،تہذیبوں
اورثقافتوں کے تنوع اور اختلاف، زبانوں کی تفریق،اہلیتوں وصلاحیتوں میں
انفرادی تنوع کے باوجود جب بھی کوئی تعلیم یافتہ فردخواہ اس کاتعلق سائنس
وفلسفہ،تعلیم و نفسیات،فلکیات وجغرافیہ،طب و علم تشریح الابدان،الغرض علوم
وفنون کے کسی بھی شعبہ کا انتہائی ماہر اورقابل ترین فرد جب تعصب اورمفادات
کے دائرے سے باہر آکر آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی طرف دیکھے گا تو وہ ضرور پکار
اٹھے گابقول اسکاٹش (Scottish) شاعر پروفیسرجیمس ہوگ(James Hogg) ''ہرزمانے
میں اصلاح معاشرہ (Society) کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسلام کی
تعلیمات کو رائج کیاجائے ''یا جیسا کہ برنارڈ شا (Bernard Shaw)نے (Genuine
of Islam) میں لکھا:
Muhammad was a saviour of Humanity, the Mercy for all men and an
exemplar in every age.
''محمد ﷺ انسانیت کے نجات دہندہ ،تمام لوگوں کے لئے باعث رحمت وبرکت اور
تمام زمانوں کے لئے مثالی شخصیت ہیں ۔''
مسلمانوں کے لیے :
کل بھی ہماری نجات اسوہ حسنہ میں تھی اورآج بھی راہ نجات سیرت طیبہ پر عمل
کرنے میں ہے۔ہمیں پلٹنا ہوگا قرآن اورصاحبِ قرآن سیدلولاکﷺ کی طرف۔ ڈاکٹر
حافظ محمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ نے اپنی ساری زندگی اس دعوت کو
عام کرنے میں صرف فرمائی آپ کا یہ مشہور قول ''لوٹ آؤ قرآن اورصاحبِ قرآن
کی طرف''آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔خلوصِ نیت اورصدقِ دل سے یہی ہمارا
نعرہ ہوناچاہئے اوریہی ہمارا طریقہ ہونا چاہئے ۔قرآن مجید فرقان حمید
اورحضور اکرم ﷺ کی سیرت اورسنت ہمیشہ کی طرح آج بھی واحد ذریعہ ہدایت اور
راستہ نجات ہے۔جیسا کہ والد ماجدجناب ابوعلی محمد رمضان صاحب نے ان اشعار
میں پیغام دیا ہے:
تازه جہاں ميں سنت آقا کريں گے ہم
جيسا کيا حضور (ﷺ)نے ويسا کريں گے ہم
آقا ترا پيام جہاں کو سنائيں گے
تيری حديث پاک کا چرچا کريں گے ہم
سنت رسول ﷺ کی بلیغ اورجامع تشریح:
یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے نزدیک سنت
رسول ﷺ عبادات واعمال کے صرف ظاہری خدوخال (رسمیات) اداکرنے کا نام نہیں کہ
عبادات میں خالی الذہن یا تفکرات میں مشغول ہوکر مخصوص ہیئتیں یا حالتیں
تبدیل کی جائیں یا الفاظ اداکئے جائیں بلکہ اس سے بہترین کردار سازی کی
تمارین مراد ہیں ، یہ باطنی وروحانی کیفیات اورصفات ہیں ۔جن کی بہت ہی بلیغ
اورجامع تشریح آپ علیہ الرحمہ Islam to the Modern Mind میں درج The Inner
Dimensions of the Sunnah کے تحت فرماتے ہیں :
"دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اورآپﷺنے ہرلحاظ سے کامل واکمل نمونہ
پیش فرمایالیکن ہم نے بدقسمتی سے دین اسلام کو چندمخصوص عبادتوں تک محدود
کرلیا ہے۔یہ عبادات بلا شک وشبہ دین کا ایک بہت بڑا اوراہم حصہ ہیں ۔ لیکن
اگر صحیح طریقہ سے ادا کی جائیں نہ کہ روبوٹ کی طرح مشینی انداز سے ادا کی
جائیں۔ جہاں تک "سنتِ رسول ﷺ" کا تعلق ہے تو یہ زندگی گزارنے کا وہ طریقہ
ہے جس پر حضور ﷺ نے مداومت فرمائی۔ لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اسلام
روحانیت پر زیادہ زور اور تاکید کرتا ہے نہ کہ جسمانی اور ظاہری اظہار پر۔
یعنی بنیادی اہمیت روحانیت اور باطنیت کو حاصل ہے اور ثانوی ظاہری جسم
کو۔جس سے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ سنت صرف ظاہری اتباع (لباس وخدوخال)
کا نام نہیں۔ بلکہ سنت باطنی خواص کے ظاہری اظہار کانام ہے۔ تبدیلی باطن
میں پہلے واقع ہوگی اور بعد میں اس کا اظہار خدوخال پر ہوگااوروہ باطنی صفت
جو یہ تمام تبدیلیاں رونما کرے گی تقویٰ ہے، جیسا کہ قرآن کریم اوراحادیث
مبارکہ میں کثرت سے اس کی صراحت آئی ہے۔یعنی فردہمیشہ رب کے حضور حاضری اور
احتساب کو مدنظررکھے۔ہاں جب ایک بارباطنی اقدار متحقق ہوجائیں گی(مثلاً وہ
کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتا ، جھوٹ نہیں بولتا ، گالی نہیں دیتا، سود خوری
نہیں کرتا ، ملاوٹ، دھوکہ دہی نہیں کرتا، رشوت نہیں لیتا،اوردیگر اخلاقی
اقدار سے متصف ہوجاتاہے) اوراس فرد کا باطنی ڈھانچہ (مااستطعتم) اپنی
استطاعت کے مطابق حضور ﷺ کی سیرت کی کامل اتباع میں مصروف ہوجاتاہے تووہ
باطنی تبدیلی اس کی ظاہری شخصیت یعنی کردار اور خدوخال سے ضرورمنعکس
ہوگی۔لیکن اہمیت بہرحال باطنی خواص یعنی تقویٰ کو حاصل ہے۔کیونکہ اگر دل
میں ایمان اورتقویٰ نہ ہو لیکن چہرے پر داڑھی سجائی ہوئی اور خاص قسم کا
لباس زیب تن کیا ہوتو یہ ظاہری سجاوٹ صرف منافقت اوردھوکہ دہی کے زمرے میں
داخل کی جائے گی۔بلکہ بعض اوقات تو یہ رویہ اسلام اورنبی اکرم ﷺ کی سنت
مبارکہ کی تحقیر کے زمرے میں داخل ہوگا۔
(It is an insult to Islam and to the practice of Holy Prophet)
Islam to the Modern Mind, (The Inner Dimensions of the Sunnah (ملخصاً)
اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے آپ علیہ الرحمہ ایک شاندار مثال پیش
فرماتے ہیں:
"اگر ہم دیدہ زیب رنگوں سے مزین دیمک خوردہ لکڑی سے کچھ تعمیر کرنے کی کوشش
کریں گے تو وہ ڈھانچہ قائم نہ رہے گا اس کے برعکس اگرمضبوط اورٹھوس لکڑی سے
ہم کچھ تعمیر کر نے کی کوشش کریں تو وہ قائم رہے گا اگرچہ اس پر رنگ و روغن
بھی نہ کیا گیا ہو۔
اس تمام کا لب لباب ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں:
کئی لوگوں سے میل جول کے بعد میں اس حتمی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر میں
بحیثیت ایک روحانی استاد کسی شخص کو ظاہری صفات مثلاً داڑھی رکھنے کاکہوں
تو میں اس کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں ناکام ہوجاتاہوں ۔ لیکن جب میں ان
باطنی اقدار جو ایک اچھے مسلمان کی صفات ہیں سے آغازاصلاح کروں اور ان سے
کہوں کہ جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ" میرا بدن میری روح کی مرہون منت ہے
میری شناخت بدن سے نہیں ۔ "اور یہ کہہ کر جب میں اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا
ہوں تو خود بخود اس کی مکمل اصلاح ہوجاتی ہے ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ
اصلاح کا آغاز باطن سے کیا جائے نہ کہ خارج سے۔(ملخصاً)
جیسا کہ اس عبارت سے مترشح ہے کہ آپ علیہ الرحمہ اسلام،شریعت اسلام اوراس
کے ظاہری خدوخال کا نفاذ بالقوۃ کے فلسفہ پر کاربند نہ تھے بلکہ قلب میں
اسلام وایمان کا بیج ڈال کراس کی آبیاری کرتے ہوئے اس شخص کو باعمل لیکن
شعوری مسلمان بنانے کے خواہاں تھے جس کے نتیجے میں اس انسان کی شخصیت میں
ظاہری انقلاب خودبخود رونماہوجائے گا۔
آپ علیہ الرحمہ اپنی کتاب "قرآن کے بنیادی اصول اورمسلم سماج کاڈھانچہ" میں
مسلمانوں کے میکانکی اور مشینی انداز میں سنت رسول پاک ﷺ کے صرف ظاہر پر
عمل پیرا ہونے پراظہار تاسف کرتے ہیں اوراسے "سنت کے نام پر رسمیات" کا
عنوان دیتے ہیں:
"یہ مشاہدہ دل شکنی کا باعث ہے کہ امرواجب "سنت کی(کامل) اتباع" کے جس
حقیقی تصور کو بنیادی طور پر واضح کیاگیا ہےوہ مسلمانوں کے درمیان آہستہ
آہستہ معدوم ہوتاجارہاہے ، جب کہ سنت کے نام پر ظاہری رسمیات کی رغبت اوروہ
بھی اتنی زیادہ باضابطہ باریکیوں کے ساتھ"مذہبیت" کے نام پرنہاد روایت پرست
پیروکاروں کے درمیان روزافزوں طورپراپنی جگہ بناتی جارہی ہے اوران سب کے
نتیجے میں غیر متوازن اسلامی مذہبی شخصیات وجود میں آتی جارہی ہیں۔"
(قرآن کے بنیادی اصول اورمسلم سماج کاڈھانچہ،ص 33)
نیزاسی کتاب میں سنت رسول پاک ﷺ پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرنے کی
تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں:
"اگرسنت رسول پاک ﷺ کی باریکیوں کو ایک مسلمان بخوبی سمجھ لے تو ایک طرف تو
یہ اسے بدعتوں میں آلودہ ہونے سے محفوظ کرتی ہیں اور دوسری طرف اس کے
اندرقرآن پاک کے ذریعہ پیش کردہ اخلاقی مذہبی تصوریت کے مطابق اپنی شخصیت
کو اپنی انتہائی بساط کے مطابق ڈھالنے کے لئے شدید جوش وجذبہ کوتحریک بھی
دیتی ہیں۔
سنت رسول پاک ﷺ کو تفصیلی طور سے پیش کرنے کے لیے یہ کتاب ناکافی ہے،
کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسی پاک ومقدس شخصیت سے ہے جو تاریخ کی سب سے زیادہ
ثروت مند،سب سے زیادہ جید و عمیق اورسب سے زیادہ کامل شخصیت ہیں۔ تاہم صرف
ایک بنیادی تصور فراہم کرنے کی غرض سے سرسری طور پر منتخبہ بعض پہلوؤں کو
یہاں پیش کرسکتے ہیں۔وہ یہ ہیں:
1۔ خدائے باری تعالیٰ کی انتہائی اطاعت
2۔ زندگی کے ایک ایک لمحہ کو نتیجہ خیز طورپر اورمنصوبے اوروقار کے ساتھ
گذارنا اورمہمل اورلاحصل باتوں میں وقت کو ضائع نہ کرنا۔ان سبھی پر زاہدانہ
زندگی کی جفاکشی اورسختیوں کے بغیر عمل کرنا،بلکہ زندگی کو خداتعالیٰ کے
احکامات کے تحت مثبت شعور وبیداری کے ساتھ گزارنا۔
3۔ انتہائی آزمائش اورہولناک حالات میں بھی صبروتحمل کو پر مسرت ضبط
واستقلال اورانمٹ مسکراہٹ کے ساتھ برقراررکھنا
4۔ دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں نرمی اورپاس ولحاظ کا مظاہرہ کرنا
5۔ بدترین دشمنوں کے لئے بھی عفو ودرگزر؛
6۔ ہر طرح کے حلات میں رحمدلی ۔فتح مکہ اس کے اظہار کی انتہاء تھی؛
8۔ دوسروں کی بھلائی کے لئے ایثار وقربانی کاانتہائی جذبہ؛دوسروں کو کھانا
کھلایا جبکہ خود بھوکے رہے،دوسروں کے جسم ڈھکے جبکہ خود موٹے کھردرے اورجگہ
جگہ پیوند لگے کپڑے پہنے۔ اپنے لیے نہ تو نقد ،نہ ہی اجناس میں کوئی سرمایہ
رکھا، بلکہ ہر روز غروب آفتاب سے پہلے اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا۔
9۔ کامل وقار کے ساتھ انتہائی عجزوانکساری؛
10۔بلند ترمعقول برداشت ورواداری؛
11۔سب کے لئے خیر خواہی ،بدخواہی کسی کے لئے نہیں؛
12۔کم کھانا،کم سونا اورکم بولنا؛
13۔جھگڑالو پن سے مکمل اجتناب؛
14۔جسم،لباس اورماحول کے لحاظ سے بے داغ صفائی ستھرائی ؛
15۔بلندترین سچائی ،ایمانداری،خیرخواہی اورضبط نفس پر عمل"
(قرآن کے بنیادی اصول اورمسلم سماج کاڈھانچہ،ص 31 تا 33)
ہاں جیساکہ حضرت صاحب نے فرمایا : اگر ہم قرآن وسنت کی تمام کیفیات (باطنی
، ظاہری خواص) کو سمجھتے ہوئے اوران پر عمل پیراہونے کے بعد ان کی طرف رجوع
کرتے ہیں تو کچھ شک نہیں کہ ہم بھی ماضی کی گمشدہ شان و شوکت ،جاہ وجلال،
حشمت و عظمت حاصل کرلیں گے۔ آپ علیہ الرحمہ نے شاندارماضی کی اس حشمت وعظمت
کو اپنی سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی کتاب Muhammad: The Glory of the Ages
میں مندرج فرمایا ہے۔ |