ایف اے ٹی ایف: پاکستان پر لٹکتی بدنامی کی تلوار

پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) سے پاکستان کے مذاکرات آج سے شروع ہو رہے ہیں۔
 

image


وزارت خزانہ کے ترجمان ڈاکٹر خاقان ایچ نجیب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اے پی جی کے وفد اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ 26 مارچ سے 28 مارچ تک جاری رہے گا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اے پی جی کا وفد اسٹیٹ بینک، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، وزارتِ خارجہ، وزارت داخلہ، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسداد دہشت گردی کے دیگر محکموں کے حکام سے ملاقات کرے گا۔

ڈاکٹر خاقان ایچ نجیب کا کہنا تھا کہ پاکستان کی وزارتوں اور دیگر اہم اداروں کے حکام کے پاس اے پی جی کو پاکستان کی کارکردگی کے بارے میں بتانے کا بہترین موقع ہے۔

پاکستان نے ایشیا پیسیفک گروپ کو پہلی میوچیول ایولویشن رپورٹ پر 22 جنوری 2019 کو جواب جمع کروایا تھا جس میں پاکستان نے اپنی مجموعی ریٹنگ میں بہتری کی سفارش کی تھی۔

پاکستان نے اپنے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
گذشتہ ماہ فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان نے 'دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق اپنی پالیسی' کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ مثبت اقدامات کیے ہیں مگر شدت پسند تنظیموں کی طرف سے لاحق خطرات سے متعلق پاکستان کو مناسب سمجھ بوجھ نہیں۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو اس سلسلے میں فوری اقدامات کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اور اس ضمن میں جن تنظیموں کا ذکر کیا گیا ان میں داعش، حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے ساتھ ساتھ لشکرِ طیبہ، جماعت الدعوۃ، جیشِ محمد اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کا نام بھی شامل ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں جماعت الدعوۃ، جیشِ محمد اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف اٹھائے گئے حالیہ اقدامات بہت اہم ہیں۔
 

image


ایف اے ٹی ایف چاہتا ہے کہ پاکستان 'دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق اپنی پالیسی، قانون سازی اور اس پر عمل درآمد میں موجود خلا کو ختم کرے۔ لیکن اب بھی ہم نے پچاس فیصد کام نہیں کیا ہے۔

تاہم پاکستان کو اب یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک میں دہشت گردی کے روک تھام کے لیے سنجیدہ ہے۔

ایف اے ٹی ایف مذاکرات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بین الاقوامی تنظیم اور دنیا کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان تنظیموں سے منسلک ذیلی فلاحی ادارے مثلاً فلاح انسانیت کو فوری طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اس کا انتظامی و مالی کنٹرول تو فوری طور پر لیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ڈھانچے کو مکمل طور پر حکومتی سرپرستی میں فعال کرنے میں وقت لگے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف بھی اپنے مطالبات تبدیل کرتی رہی ہے۔ پہلے انھوں نے پاکستان سے کچھ اور مطالبات کیے تھے جن کو پاکستان نے جب پورا کیا تو ان کے نئے مطالبات سامنے آ گئے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو 10 نکاتی ایکشن پلان پر جنوری 2019 تک عمل درآمد کرنے کو کہا گیا تھا اور پاکستان کی محدود پیش رفت کے باعث انھیں فوری اقدامات اٹھانے کی تلقین کی۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو دیے گئے منصوبے پر مکمل عمل درآمد کرنے پر زور دیا ہے اور خصوصی طور پر ان منصوبوں پر جن کی ڈیڈ لائن مئی 2019 ہے۔

جس کے بعد پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے اثاثے منجمند کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے تمام صوبوں کو ہدایات بھی جاری کی تھیں۔

دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اقدامات عالمی امن و سلامتی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس قانون کو اقوام متحدہ اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے معیار کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے تمام کالعدم تنظیموں کے ہر قسم کے اثاثہ جات اور ان سے منسلک فلاحی ادارے اور ایمبولینسز بھی حکومتی کنٹرول میں لیے گئے۔

ایف اے ٹی ایف کے مطابق پاکستان کو دیے گئے 10 نکاتی ایکشن پلان کے مطابق اسے یہ واضح کرنا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی سے متعلق اقدامات کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کی معاونت کرتی رہے گی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس کا نام تنظیم کی 'گرے لسٹ' سے ہٹا دیا جائے۔
 

image


مذاکرات کی ناکامی یا کامیابی کی صورت میں کیا ہوگا؟
ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کے وفد سے مذاکرات کی ناکامی پر پاکستان کیا کرے گا کے سوال پر نیکٹا کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کے اداروں کو پسند نہیں۔ جب بھی یہ معاملہ اٹھا اور ریاستی و حکومتی اداروں سے اس متعلق پلان بی کا پوچھا گیا تو ان کے پاس کوئی پلان نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہوگا اور حکومت کے پاس کوئی پلان نہ ہونے کی صورت میں حکومت اس وقت سوچے گی کہ اب کیا کرنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اگر پاکستان گرے لسٹ میں ہی رہا تو پاکستان کو ابھی بہت کام کرنا ہے، پاکستان کو کالعدم تنظیوں کی مالی معاونت کو مکمل طور روکنا ہے۔
 

image


پاکستان کو دوبارہ کیوں شامل کیا جا رہا ہے؟
پاکستان 2012 تا 2015 تک گرے لسٹ کا حصہ رہ چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ برس اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنایا۔

گذشتہ سال انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'امریکہ پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دے چکا ہے مگر اس کے بدلے میں صرف دھوکہ اور فریب ملا ہے۔'

صدر ٹرمپ جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بھی پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔

گرے لسٹ کا پس منظر کیا ہے؟
پاکستان کو گذشتہ برس جون میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں اس وقت شامل کیا گیا تھا جب پاکستان اس عالمی ادارے کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق مطمئن نہ کرسکا۔

اقوام متحدہ کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے گذشتہ سال پیرس میں منعقدہ اجلاس میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے پاکستان کا نام دہشت گرد تنظیموں کے مالی معاملات پر کڑی نظر نہ رکھنے اور ان کی مالی معاونت روکنے میں ناکام رہنے یا اس سلسلے میں عدم تعاون کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کی تھی۔

ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔

اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔

اس تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا بھی شامل ہیں، البتہ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔

اس کے ارکان کا اجلاس ہر تین برس بعد ہوتا ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل درآمد ہو رہا ہے۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: