نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں انسانیت
سے گرے ہوئے انتہا پسند آسٹریلوی باشندے نے پچاس سے زائد انسانوں کو موت کے
منہ میں دھکیلتے ہوئے سوچا ہوگا کہ اس طرح دنیا سے مسلمان ختم ہو جائیں گے،
مسلمان خوف میں مبتلا ہوجائیں گے یا ان کا مذہب کہیں دب جائے گا۔ اس کا
اظہار اس بدبخت نے اپنے منشور میں بھی کیا جو کہ منافرت سے بھرپور ہے ، کہ
جب تک دنیا میں ایک بھی سفید فام موجود ہے مسلمان ان کے ممالک پر قبضہ نہیں
کر سکتے۔ لیکن یہ انسان نما حیوان نہیں جانتا تھا کہ اسلام کو جتنا بھی
دبایا جائے یہ اتنا ہی زیادہ پھیلتا ہے ، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسلام
زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ یہی وجہ ہے کہ اس سفاک واقعے کے بعد دنیا
بھر میں سفید فام و سیاہ فام،مذہبی اور غیر مذہبی ،یہود، مسیحی، ہندؤ، بدھ،
سکھ ہر مذہب اور مکتبہ فکر نے اس اندوہناک سانحہ کے خلاف موثر آواز بلند کی
اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اس سانحہ کے بعد نیوزی
لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے جس اخلاص کیساتھ اپنے ملک کے
مسلمان شہریوں کی ڈھارس بندھائی، اور مظلوم گروہ سے یک جہتی کا اظہار کیا
وہ مثالی اور لائق تعریف ہے ۔ دکھ کی اس کھڑی میں جیسنڈا آرڈرن نے فوری طور
پر انتظامی اور قانونی اقدامات اٹھائے ، دہشت گرد کی سوچ کے سامنے جھکنے سے
انکار کیا، اور نیوزی لینڈ کے معاشرے کو مساوی شہریت، رواداری اور تمام
معاشرتی اکائیوں میں سچے باہمی احترام کا پیغام دیا۔ نیوزی لینڈ کے باشندوں
نے بھی انسان دوستی کی اعلیٰ ترین مثال پیش کی اور مذہب و عقیدے کے کسی
اختلاف کی پروا کئے بغیر مسلم عبادت گاہوں کی حفاظت پر کمر بستہ ہوئے۔
کرائسٹ چرچ میں یہودیوں اور مسیحیوں نے مسلمانوں کے لیے نہ صرف اپنی عبادت
گاہوں کے دروازے کھول دئیے بلکہ مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کے لیے انتہا
پسندی کا نشانہ بننے والی مساجد میں پہنچے اور ان کے باہر پھولوں اور اپنے
درد مندانہ پیغامات سے بھرے کارڈوں کی بھرمار کر دی۔ نیوزی لینڈ کے مسیحیوں
نے مسلمانوں سے کہا کہ آپ اپنی عبادت کریں ہم آپ کا پہرہ دیں گے۔ کرائسٹ
چرچ کی بڑی یونیورسٹی میں مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اذان کی آواز
یوں گونجی جیسے سبھی اذانیں دے رہے ہوں اور اس موقع پر سینکڑوں طلبہ ادب سے
کھڑے ہو کر اذان سن رہے تھے، اس سے واضع ہوگیا کہ ریاست اور معاشرہ دونوں
اقلیت کے تحفظ پر یکسو اور پرعزم ہیں۔ پچاس لاکھ آبادی کے ملک نیوزی لینڈ
میں مسلمانوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے، اس کے باوجود یہاں قومی
قیادت، ریاستی اداروں اور عام شہریوں نے جس طرح اس سانحہ پر ردعمل کا اظہار
کیا اس سے یقینا یہاں بسنے والے مسلمانوں کے دلوں میں نیوزی لینڈ سے حقیقی
محبت پیدا ہوگی، اور کسی کو اپنی جان بچانے کے لئے نیوزی لینڈ چھوڑ کر کہیں
اور پناہ ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ دوسری طرف نیوزی لینڈ نے اپنے
مثبت ردعمل سے دنیا کے سامنے سانحات سے نبٹنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے
لیے روشن مثال قائم کردی ، اور دنیا کو بتلادیا کہ جمہوری معاشرے میں
انسانی جان کا تحفظ اعلیٰ ترین قدر ہے۔
دنیا کی کسی بھی قوم میں جہاں لاکھوں کروڑوں انسان محبت اور انسان نوازی کے
علمبردار ہوتے ہیں وہاں منافرت کے بیوپاریوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا
جا سکتا۔ مگر آفرین ہے اس مغربی قوم پر جنہوں نے نہ صرف درندے کو درندہ کہا
بلکہ اس سے آگے بڑھ کر منافرت کی آواز نکالنے والے کی حوصلہ شکنی کی۔ سوا
صدی پر محیط جمہوریت کا ثمر یہ ہے کہ دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعے کے
باوجود کسی کو نیوزی لینڈ کے ریاستی بندوبست، سیاسی قیادت اور معاشرتی
رویوں پر انگلی اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، بلکہ پوری دنیا یہ تسلیم
کرنے پر مجبور ہے کہ جدید جمہوری اقداروں کی تاریخ میں نیوزی لینڈ میں صف
اول کی رہنما ریاست موجود ہے۔ سب سے زیادہ قابل ستائش رویہ نیوزی لینڈ کی
خاتون وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کا رہا، جنہوں نے مسلم کمیونٹی کی دلجوئی و
ہمدردی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا، اور سیاہ لباس اور سر پر دوپٹہ
اوڑھ کر مسلم کمیونٹی کے زخموں پر مرہم رکھا۔ اگلے روز انہوں نے اپنی
پارلیمنٹ میں خصوصی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کرواتے ہوئے اپنی
تقریر کا آغاز السلام علیکم سے کیا اور کہا کہ آپ سب پر خدا کی سلامتی و
رحمت ہو، میں یہاں اس شخص کا نام بھی لینا نہیں چاہتی جس شہرت کے بھوکے نے
ہمارے ملک میں دہشت گردی کرتے ہوئے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا۔ وہ ایک
دہشت گرد، مجرم اور انتہا پسند ہے، وہ بے نام رہے گا۔ اس کا ہمارے ملک سے
کوئی تعلق نہیں، میں ان مظلوموں کے نام لینا چاہتی ہوں جنہوں نے اپنی جانیں
قربان کر دیں اور یہ شہید ہو جانے والے ہی اصل ہیرو ہیں۔ انہوں نے یقین
دہانی کروائی کہ قاتل ضرور کیفر کردار کو پہنچے گا۔ اس موقع پر نیوزی لینڈ
کی وزیراعظم نے اس بہادر پاکستانی کا خصوصی طور پر ذکر کیا جس نے جوانمردی
سے سنگدل دہشت گرد کو دبوچنے کی کوشش کی۔ اس واقعے کی بعد امریکی صدر ٹرمپ
نے جب انہیں فون کرتے ہوئے جب یہ پوچھا کہ میڈم پرائم منسٹر امریکہ اس دکھ
بھری گھڑی میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہے تو نیوزی لینڈ کی نیک دل وزیراعظم
نے فوری جواب دیا کہ امریکہ دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی سے اظہار محبت و
ہمدردی کرے، جس پر صدر ٹرمپ نے اپنا پہلے والا ٹویٹ ڈیلیٹ کرتے ہوئے اس
سانحہ کو دہشت گردی قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ جبکہ گزشتہ جمعتہ المبارک
کے روز بھی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے علاوہ ہزاروں غیر مسلم افراد نے بھی
نمازجمعہ کے اجتماع میں شرکت کی، نماز جمعہ سے قبل وزیر اعظم نے تقریر کا
آغاز آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکرسے کیا ، اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ
غیر مسلم خواتین بھی حجاب میں نظر آئیں جبکہ مسلمانوں سے اظہار یکجہتی میں
2منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ مسلم کمیونٹی کے ساتھ اس یکجہتی پر
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو سوشل میڈیا پر جان سے مارنے کی
دھمکیاں تک موصول ہوئیں مگر انہوں نے اپنے مثالی اقدامات سے دنیا کو
بتلادیا کہ انسانی جان کی حرمت کسی مذہبی، سیاسی یا معاشی مفاد سے بالاتر
ہے، ان کا پیغام واضح تھا کہ دہشت گردی کاکوئی جواز نہیں، دہشت گردی ایک
جرم ہے اور اس کی عذر خواہی سے ہی دہشت گردی کو فروغ ملتا ہے۔ضرورت اس امر
کی ہے کہ اقوام عالم نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی تقلید
کرتے ہوئے دنیا سے نفرت اور دہشت گردی کے خاتمے اور محبت و امن کے فروغ میں
اپنا کردار ادا کرے۔ |