بارود کا ڈھیر اور ہیروں کی کان

حالات کی بھی عجیب عادت ہے کہ اچانک بدل جاتے ہیں، سب کچھ اچھا چل رہا ہوتا ہے اور اچانک ”دی اینڈ“ آ جاتا ہے! اور اس کے بعد مشکلات شروع ہو جاتی ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کی واردات اور گرفتاری حکومت کے ہنی مون پیریڈ کے خاتمے کا اعلان بن کر نمودار ہوئی ہے۔ حکومت کی گاڑی جیسے تیسے چل ہی رہی تھی۔ چند ایک رکاوٹیں ضرور تھیں مگر خیر، راستے میں کوئی کھائی تو نہ تھی! ریمنڈ ڈیوس نے ہماری پیاری سرکار کو ”اگنی پریکشا“ سے دوچار کردیا ہے! اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اب ”لکشمن ریکھا“ پار کرنے سے کس طرح گریز کیا جائے! جو راج سنگھاسن پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے اب ان کے نصیب میں شاید ”بَن واس“ رہ گیا ہے!

کتنے اسلامی ممالک ایسے ہیں جو امریکہ سے متصادم ہوسکتے ہیں؟ (واضح رہے کہ خود امریکہ آکر ٹکرائے تو اور بات ہے، اِس عمل کو متصادم ہونا قرار نہیں دیا جاسکتا!) ہم اپنے حکمرانوں سے امریکہ کے معاملے میں جرات آزمائی کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ بھلا ہو ریمنڈ ڈیوس کا جس نے ہم پاکستانیوں کو ایک ایسا آئینہ بخشا ہے جس میں بہت کچھ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے! پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی اس کیس نے دو واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اور اچھا ہی ہوا کہ بہتوں کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹّی اُتر تو گئی۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے خُم ٹھونک کر جس طرح امریکہ کو منہ دیا ہے اُس کی داد نہ دینا اِن دونوں سے زیادتی ہوگی! بعض تجزیہ کار اور تجزیہ نگار بھی امریکہ کی حاشیہ برداری کا حق (یعنی نمک کا حق) ادا کرتے ہوئے ریمنڈ کی وکالت کے لئے کُھل کر میدان میں آگئے ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں جب یہ پوچھا گیا کہ آخر امریکی حکومت ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے اِس قدر بے تاب کیوں ہے تو تجزیہ کار نے برملا کہا کہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح 80، 90 امریکی پاکستان میں آزادانہ گھوم رہے ہیں اور ان کے اِرادوں سے بھی کوئی بے خبر نہیں! یعنی یہ کہ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں جو کچھ کیا ہے وہ ایک باضابطہ معاہدے کے تحت تھا لہٰذا اُسے مقید رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں! سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہ کیا گیا تو امریکی امداد بند ہو جائے گی اور قوم کو گھاس کھانی پڑے گی! سردار صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریمنڈ کی رہائی کی صورت میں دنیا زیادہ آسانی سے سمجھ جائے گی کہ ہم وہ قوم ہیں جسے کوئی بھی، جب چاہے گھاس کھلا سکتا ہے!

لاہور میں ریمنڈ نے جو کچھ کیا اُس نے تمام پاکستانیوں کو مشتعل کیا ہے اور اشتعال کا گراف اِس قدر بلند ہے کہ اب کسی بھی سطح کے حکمران اِس چوہے دان سے اپنی گردن چھڑا نہیں سکتے! حکومتیں جس گراس روٹ لیول کا رونا روتی رہتی ہیں اُسی گراس روٹ لیول پر ریمنڈ نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور زمین میں جڑیں رکھنے والے گھاس کے تنکے اب تناور درخت بن کر اُس کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں!

ریمنڈ نے تین افراد کو لاہور میں قتل کیا۔ معاملہ پنجاب کا تھا اس لئے صوبائی حکومت کی ذمہ داری بڑھ گئی (یا بڑھا دی گئی!)۔ امریکہ نے پنجاب کے پنجرے سے اپنے پنچھی کو نکالنے کے لئے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالا۔ وفاق کے لئے شیر کے منہ سے نوالہ چھیننا یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے اپنی بات منوانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا! پنجاب پولیس پر غیر معمولی دباؤ تھا کہ اگر امریکی چھوٹ گیا تو عوام کچّا چبا جائیں گے۔ صوبائی حکومت نے بھی بہتر یہ جانا کہ ریمنڈ ڈیوس کی گیند عدالت کے کورٹ میں ڈال دی جائے!

وفاق اور پنجاب دونوں کا معاملہ یہ ہے کہ جائے رفتن نہ پائے ماندن! اِدھر کھائی ہے اور اُدھر پہاڑ! مسلم لیگ (ن) کے لئے ریمنڈ کیس زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اگر عدالتی کاروائی کو skip کرتے ہوئے ریمنڈ کو رہا کردیا جاتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ عوامی جذبات کا سیلاب مسلم لیگ (ن) کو بہا لے جائے گا اور عدلیہ کی ساکھ بھی داؤ پر لگ جائے گی۔ اور اگر تمام قانونی اور عدالتی تقاضوں کو نبھایا جاتا ہے تو ریمنڈ کو سزا سنائے جانے تک مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن مستحکم ہوتی رہے گی اور سزا سنائے جانے کی صورت میں ووٹ بینک راتوں رات shoot up کرجائے گا۔ پاکستانی سیاست میں تو ایسا منت مرادوں سے بھی نہیں ہوتا!

صدر زرداری کے لئے صورت حال انتہائی پریشان کن شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے ”زندہ دل“ صدر معاملات کو بالعموم دل پر لیتے نہیں مگر خیر یہ معاملہ تو خود ہی اُچک کر سینے پر پتھر کی سِل بن گیا ہے! ریمنڈ کیس کی پچ پر حکومت کی کئی وکٹیں گری ہیں۔ شاہ محمود اور سلمان بشیر تو ہاتھ سے نکلے ہی تھے، اتحادی بھی صدر زرداری کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یعنی اِس فلم کو فلاپ ہی سمجھنا چاہیے!

ریمنڈ ڈیوس وہ کانٹا ہے جس میں کئی مچھلیاں آ پھنسی ہیں۔ ایک طرف پنجاب کی حکومت ہے اور دوسری طرف وفاقی حکومت۔ دونوں کے درمیان ریمنڈ کے معاملے پر چپقلش ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ پنجاب حکومت کو کوئی ایسا معاملہ درکار تھا جس پر وفاقی حکومت کو جی بھر کے دباؤ میں رکھا جاسکے۔ ریمنڈ کیس نے یہ موقع بخوبی فراہم کیا ہے۔ ریمنڈ نے جرم بھی اس قدر دیدہ دلیری سے کیا کہ پنجاب حکومت چاہتی تب بھی اُسے رہا نہیں کرسکتی تھی! عدلیہ کے لئے حقیقی ٹیسٹ کیس تو اب آیا ہے۔ واحد سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے گریز عدلیہ کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دے گا۔

اور ان دونوں سے کہیں بڑھ کر خود اوبامہ انتظامیہ ہے جو ریمنڈ ڈیوس کو ہر قیمت پر آزاد اور امریکہ میں دیکھنا چاہتی ہے۔ امریکی فوج کو افغانستان میں سخت حالات کا سامنا ہے۔ کچھ تو طالبان نے اوبامہ انتظامیہ کو مشکل میں ڈال رکھا ہے اور رہی سہی کسر ریمنڈ نے پوری کردی۔ اگر ریمنڈ امریکی خواہشات کے مطابق رہا نہ ہوسکا تو براک اوبامہ کو دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہونے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے بارے میں امریکی عوام میں عمومی تاثر یہ ہے کہ جب جی میں آئے، اِس ملک کے کان مروڑ کر جو بات بھی چاہو، منوا لو! مگر اِس بار معاملہ خاصی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوا ہے! امریکیوں کو پنجاب حکومت سے اِس قدر مزاحمت کی توقع نہ رہی ہوگی۔ ظاہر ہے لاہور میں ہر بار تو امریکیوں کی پھجّے کے پائے اور لسّی سے تواضع نہیں کی جاسکتی! امریکیوں کا خیال تھا کہ دو ایک دن میں معاملہ رفع دفع ہوجائے گا۔ ہو بھی جاتا مگر زہے نصیب! اب تو سوال عوام کے جذبات کا ہے، اگر وہ بپھر گئے تو اُن پر کون قابو پاسکے گا؟ امریکہ بہادر کا خوف بھلے ہی دامن گیر رہا ہو، مگر حکومت نے تیونس، مصر، بحرین اور یمن کی صورت حال کو بھی ضرور سامنے رکھ کر ممکنہ اقدامات پر غور کیا ہوگا۔ امریکہ بہت دور ہے اور عوام زمینی حقیقت ہیں!

ریمنڈ کی رہائی کے لئے خود امریکی صدر نے بے تابی کا مظاہرہ کر کے بہت کچھ بیان کردیا ہے۔ اِس بے تابی سے براک اوبامہ کے ”اناڑی پن“ کے ساتھ ساتھ ریمنڈ کی خصوصی حیثیت بھی ظاہر ہوتی ہے! یہ اندازہ درست ثابت ہوتا جارہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس واقعی کوئی توپ چیز ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس معاملے میں اپنا کردار مجموعی طور پر بہت عمدگی سے نبھایا ہے۔ ڈان نیوز کے طلعت حسین نے (یقیناً تفتیش کے نکات کی بنیاد پر) کہا ہے کہ سوال دو یا تین افراد کے قتل کا نہیں، ریمنڈ ڈیوس سے لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے سمیت دہشت گردی کی تمام بڑی وارداتوں کے حوالے سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے! اس اعتبار سے دیکھیے تو ریمنڈ کی گرفتاری کو آخری اوور میں چھکّا مارنے سے تعبیر کیا جانا چاہیے!

اب تو امریکی ویب سائٹس نے بھی لکھنا شروع کردیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کا اہلکار ہے! اِس کے بعد اُس کی شناخت کا معاملہ تو طے ہوجانا چاہیے۔ ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد سے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی بند ہیں۔ یہ گویا اس امر پر تصدیق کی مہر ثبت کرنا ہے کہ ریمنڈ کا ڈرون حملوں سے براہ راست تعلق ہے۔ اُس کے سامان سے ڈرون حملوں میں استعمال ہونے والی چپ بھی برآمد ہوئی ہے! اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ریمنڈ کی گرفتاری خود امریکہ پر ڈرون حملے سے کم نہیں!

ریمنڈ ڈیوس کیس ہمارے لئے بارود کا ڈھیر بھی ثابت ہوسکتا ہے اور ہیروں کی کان بھی! فیصلہ عدلیہ، حکومت، عوام۔۔ سبھی کے ہاتھ میں ہے! ہر قوم کے لئے ایک نہ ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب اُسے اپنے وجود کو دوبارہ دریافت کرنا پڑتا ہے، اپنی شناخت کا نئے سرے سے تعین کرنا پڑتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہو جانے جیسے سانحے کو بھی ہم بھول گئے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم بیدار ہوں اور دنیا کو بتا دیں کہ ہم صرف جی نہیں رہے بلکہ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں؟
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524794 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More