لوگ بے درد ہیں

اس سے قبل کہ کلی کھل کر گلاب ہوجاتی اور اسکی جوانی رعنا ئیوں کی قبا پہن کر دو آتشہ بن جاتی، آتشِ عشق سے رخسارِ گل تمتمانے لگتے، سارا گلشن روح افزا مہک اور خوشبو سے بس جاتا ، دیدہ نظر کو ایک دل فریب نظارہ اور قوت تخیل کو ایک موضوعِ غزل مل جاتا ، شاعر کی روح وجد میں آتی ، اور اسکے ہونٹ ہلنے لگتے ،فن کاروں کے تن بدن میں گدگدی پیدا ہوتی اور ان کے قدم مرمریں فرش پر تھرکنے لگتے ، بلبل کے گلے میں ارتعاش پیدا ہوتا اور وہ نوا پیرا ہوجاتی، بحر وبر کی ہر چھوٹی بڑی زندگی موج ومستی کے ایک انجانے سے احساس سے بد مست ہوجاتی ، آہوان دشت کے کان کھڑے ہوجاتے ، مرغزار چمن ہمہ تن گوش ہوجاتے، مچھلیاں ساحل ساغر پر آکر اٹھکھیلیاں کرنے لگ جاتیں اور خود ساغر موج بن بن کر اٹھتا اور اچک اچک کر دیکھنے لگتا، نسیم صبح سب سے پہلے بیدار ہوجاتی ہے اور دبے پاؤں چمن میں داخل ہوتی ہے، ادھ کھلی کلی سے سرگوشیاں کرتی ہے ، اس کے راز جاننے کی کوشش کرتی ہے، اور پھر اگلے لمحہ میں شاعر مشرق کی رنجیدہ آواز چمن کی فصیلوں سے ابھرتی ہے ،
” بوئے گل لے گئی بیرون چمن رازچمن “

کہ بوئے گل چمن میں کلی کے چٹخنے کا راز لے اڑی، گلچیں بھی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتا ہے، انگڑائی لیتا ہے اور ہواؤں کے رخ پر ہاتھی کی طرح نتھنے پھلا پھلا کر سونگھنے لگتا ہے،اتنے میں نسیم صبح کا پہلا جھونکا اس کی پیشانی پر پڑے ہوئے کے بالوں سے کھیلتا ہوا گزرتا ہے، وہ اپنے سانس لینے کے عمل کو تیزی کے ساتھ دوہرانے اور ہاتھی جیسے کانوں کے پنکھ ہلانے لگتا ہے، کسی چیز کے چٹخنے کی ہلکی سی آواز آتی ہے، اور اس کی قوت شامہ گواہی دیتی ہے کہ چمن میں کلی کھل کر گلاب بن گئی ہے۔

پھر گلچیں کے ظالم ہاتھوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ کلی جو ابھی زیر لب ہی مسکرا رہی تھی ، ابھی پردہ تبسم پنہا بھی اٹھنے نہ پایا تھا کہ وہ گلچیں کی نگاہ انتخاب کا نشانہ بن جاتی ہے، پھر کیا ہوتا ہے کوئی اٹھا کر دستار میں رکھ لیتا ہے اور کو ئی زیب گلو کر لیتا ہے، پھر کیا ہوتا ہے ؟ وہی ہو تا ہے جو کوئی درد آشنا کہہ گیا ہے ،ع”لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں“لوگ پیروں تلے مسل دیتے ہیں یا گنگاؤ جمنا میں بہا دیتے ہیں،یہی چار دن تھے اس کے پاس دو آنکھیں کھولنے میں کٹ گئے اور دو شدت تکلیف سے آنکھیں موند لینے میں ،عمر دراز کے یہی چار دن اس کی قسمت تھے،حق تو یہ تھا کہ وہ ان کو ہنس کر اور خوشنوایان چمن کے ساتھ مل بیٹھ کر گزار لیجا تی مگر ایسا نہ ہو سکا ، باد نسیم کی سازش سے گلچیں کی دست برد نے اس کو چمن سے نکال دیا اور اپنوں سے بے گانہ کر دیا ، اتنی مختصر سی زندگی اور وہ بھی درد وغم سے پُراُف اللّٰہم خیریہ ایک درد بھری کہانی ہے جو گل وبلبل کی دنیاسے متعلق ہے ، اس دنیا سے متعلق جہاں حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لئے ہزار انداز کے سامان فراہم ہیں اور جہاں ہمہ شما کی مشاطگی کی ضرورت بس ایک بے معنی سی ضرورت ہے، اس کی حنا بندی خود قدرت اپنی صواب دید پر کرتی ہے۔

مگر اس دنیاں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے جہاں مشاطگی آدم کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جس کے بعد وہ بجا طور پر یہ کہنے کا مستحق ہوجا تا ہے،ع ”تو شب آفریدی چراغ آفریدم“اس دنیا میں بھی ایک گلنار کی کہانی شاید اتنی ہی روح فرسا ہے بلکہ اس سے دوچند وسہ چند بھی۔

جب فرط جوانی سے چہرے گلنار ہوجاتے ہیں ،آنکھوں کے ساغر میں سرور عشق کی لہریں پلکوں کے ساحل پر سر پٹخنے لگتی ہیں تو با دصبح گاہی اپنا کام کر جاتی ہے، ساری بستی کی فضا مہک اٹھتی ہے، اور بوالہوسوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، بساط ہوائے دل کے نو وارد متوجہ ہو جاتے ہیں،زبانیں نغمہ سنج ہو جاتی ہیںآنکھیں پیاس سے بھر جاتی ہیں، پھیری والوں کی آواز میں لے پیدا ہوجاتی ہے، سائیکل والے کی پنڈلیوں میں خدا جانے کہاں سے جان آجاتی ہے، فن کار کی انگلیاں وجد میں آتی ہیں،قلم کار اور مصور کے قلم میں توانائی آنے لگتی ہے ،ایک قلم کار پر ہی کیا منحصر ہے خود قلم بھی طرب آمیز ترنگ سے بھر جاتا ہے،
خط کو اپنے مصور پر بھی کیا کیا نازہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے

مندر کی گھنٹیوں اور دیر کے ناقوس میں بھی عجیب طرح کا سرُ پیدا ہو جاتا ہے، جیسے وہ بھی کسی کو متوجہ کرنا چاہتے ہوں، خانقاہوں میں بیٹھے مجاور کروٹ بدلتے ہیں جیسے انہیں فرشتہ غیب نے پہلے ہی خبر کر دی ہو کہ کوئی آیا چاہتا ہے، لوگ دکانیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، پگڑیوں والے تعویز گنڈے شروع کردیتے ہیں، اہل علم قد آدم آئینہ کے سامنے پینٹ پتلون درست کرتے ہیں اور میز کرسی سجا کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر انہیں میں سے کو ئی مسیحا بن کر آتا ہے، مہر کے نام پر چند ٹکے ادا کرتا ہے لڑکی کے ہا تھ پر مہندی رچی جاتی ہے اور مسیحا کی ڈولی میں سوار کردیا جاتا ہے، بالکل وہی عمل جو گلچیں نے کیا تھا یہاں مسیحا نے کر دکھایا، اس موقع پر مسیحا کو بہت ساری نصیحتیں کیجاتی ہیں مگر وہ سب یاد کس کو رہتی ہیں ، انسان کو ”مرکب من الخطاء والنسیان“ کہا گیا ہے ، اس لئے بھول جانا اس کی فطرت ہے ، اور پھر ویسے بھی یاد ماضی کو عذاب سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس لئے یہ درد سر کون پالے ، بھول جانا ہی بہتر ہے۔پھر کیا ہوتا ہے وہی جو ایک درد آشنا کہہ گیا ہے ” لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں “کتنی دلہنیں ہیں جن پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے،ان کو طرح طرح کی اذیّتیں دی جاتی ہیں یہاں تک کہ آگ میں بھی ڈال دیا جاتا ہے،لوگ سیرو تفریح کے بہانے گنگا وجمنا پر لے جاتے ہیں اور پل پر سے گرا دیتے ہیں ،جیسے رقص گاہوں اور دیوی دیوتاؤں کے چرنوں سے اٹھائے گئے پھول دریا میں بہائے جاتے ہیں اسی طرح ناری کو بھی دریا میں بہا دیا جاتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ دیوی کے چرنوں سے اٹھا گئے پھول جب دریا میں ڈالے جاتے ہیں تو اس میں تقدس واحترام ہوتا ہے اور جب عورت کو دریا میں دھکیلا جاتا ہے تو اس میں صرف نفرت ہوتی ہے صرف اور صرف نفرت کتنی یکسانیت ہے گلچیںو گل ِبہار کی کہانی اور مسیحا و گلنار کی کہانی میں؟؟؟۔بس فرق اگر کچھ ہے تو یہی کہ ایک کو ہم ظالم کہتے ہیں اور دوسرے کو مسیحا بالکل اسی طرح جیسے شیر کو سب بہادر کہتے ہیں اور منہ بھر بھر تعریفیں کرتے ہیں جبکہ بھیڑئے کو سب ظالم تصور کرتے ہیں اور صلواتیں سناتے ہیں حالانکہ کام دونوں کا ایک ہی ہے وہ بھی گوشت کھاتا اور خون پیتا ہے اور یہ بھی خون پیتا اور گوشت کھا تا ہے۔

پھر بھی کتنا عجیب رنگ ہے دنیا کا، سوچو تو دماغ پاگل ہوجائے، کتنے گلچیں ہیں اس دنیا میں اور کتنے خریدار بھی ،کتنی ساری قبائیں ہیں اور دستاریں بھی؟ پھر بھی کتنے سارے گل ہیں جو پیروں میں مسلے جاتے ہیں ، وہ کسی کے سر چڑھنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں کوئی سوچے تو سہی، کتنی لمبی قطار ہے بو الہوسوں کی ،ہر موڑ پر آٹھ دس ، ہر دہلیز پر دوچار، کتنے مسیحا ہیں اس دنیا میں؟ شاید ستا روں سے بھی زیادہ اور سنگ ریزوں سے بھی بڑھ کر، یہ سب فضا میں سونگھتے پھرتے ہیں اور گلیوں کی خاک چھانتے رہتے ہیں، کہ جوانی کس دہلیز پر قدم رنجا ہو رہی ہے، کتنی شدید ہیں ان کی خواہشیں اور کتنا طویل سلسلہ ہے ان کی جستجو کا پھر بھی خدا جانے کیوں ایسا ہو تا ہے کہ ہزاروں ہاتھ پیلے ہونے سے رہ جاتے ہی، سینکڑوں پیشانیاں ہیں جو سہروں کو تک رہی ہیں، کتنی آنکھیں ہیں جو بے خواب ہو گئی ہیں اور کتنے نازک بدن ہیں جو ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں، کتنی پگڑیاں ہیں جو سروں کی تاک میں ہیں اور کتنے سر ہیں جو پگڑیوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے ہیں ، کتنی کلائیاں ہیں جو چوڑیوں کے بغیر سونی سونی لگتی ہیں اور کتنی چوڑیاں ہیں جو کلائیوں کے بنا کھنک نہیں سکتیں؟

شاید یہ ا س لئے ہو کہ لوگ ان سے بھی پھولوں کا سا ہی برتاؤ کرنا چاہتے ہیں، کہ سونگھا اور پھینک دیا ، Use & Throw والا معاملہ ، کون سنبھال کر رکھتا پھرے ، آخر چمن میں پھولوں کی کچھ کمی تھوڑی ہے، اگر کسی کے ہاتھ پیلے کر کے لائیں گے تو ہمیشہ کے لے اپنے پلّے باندھنا پڑے گا، اس سے یہی بہتر ہے کہ راستہ چلتے چلتے کسی کے ساتھ ہو لئے ، لطف اندوز ہوئے اور آگے چلتے بنے، نہ کچھ خرچ اور نہ کچھ زحمت، اس سے اچھا کوئی مل گیا تو اس کا ہاتھ تھام لیا، آموں کی طرح راہ چلتے خرید لئے جو پسند نہ آیا پھینک دیا جو رسیلا تھا چوسنے لگے ، رس ختم ہو گیا اور گٹھلی باقی رہ گئی اسے نالی میں بہا دیا، کتنا اچھا ہے گرل فرینڈ کا تصور، داشتاؤں کا نعم البدل، کہ زن پرستی کا داغ بھی مٹ جاتا ہے اور ذوق بو الہوسی کی بھی تسکین ہوجاتی ہے، اور پھر کتنی وسعت ہے اس میں کہ امیر وغریب سب کو فراہم ہے یہ چیز، جبکہ داشتاؤں کا قدیم تصور تو محض محلوں کی فصیلوں تک ہی محدود تھا، یہی تصور جب گلی کوچوں اور جھونپڑ پٹیوں تک وسیع ہو گیا تو اسی کا نام گرل فرینڈ پڑگیا، آخر شہزادیوں سے رسمی طریقہ سے شادی رچانا ہر ایرے غیرے کے بس کا تو نہیں ہے ، ان کے لئے تو شہزادہ ہی درکار ہوتا ہے، اور جب شہنشاہیت نہ رہی تو شہزادے کہاں ،شہنشاہیت کو تو جمہوریت نے کبھی کا جہاں بدر کر دیا۔

شاید اسکی وجہ یہ بھی ہو کہ ہماری خود ساختہ رسم ورواج نے خود ہماری گردنوں پر حلقہ حیات تنگ کر دیا ہے، بعض اوقات دونوں طرف چاہتیں بھی ہوتی ہیں اور حالات بھی قابل قبول، سب کچھ درست اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے، بس ناک نیچی ہوجانے کا ڈر اور رسوائی کا جانا انجانا سا خوف، دونوں طرف سے دلوں میں اندیشہائے دور دراز نے قلب و جگر کے دئے کو بجھا کر رکھ دیا ہے، اب بھلا روشنی ہو بھی تو کہاں سے،بڑا خراب زمانہ ہے اگر چلن کے مطابق رسم نکاح ادا نہ کی گئی تو لوگ کیا کہیں گے،عورتوں کی زبانیں بالشت بھر لمبی ہو جائیں گی ، کہ یہ نہیں دیا اور وہ نہیں کیا، مردوں کے تیور دیکھے نہ جاسکیں گے،زبانیں آگ برسانا شروع کردیں گی، ایک ہی بیٹی اور بے نام سی شادی، بھلا یہ بھی کوئی تک ہے، اکلوتا بیٹا اس کے نکاح میں بھی کسی کو نہ پوچھا، یہ سب کیا ہیں ؟ ہم اور آپ کے پاؤں کی زنجیریں اور گلوں کا طوق جی ہاں وہی طوق جن کو اللہ کے نبی ﷺ نے انسانیت کی گردنوں سے اتارا تھا ، ”ویضع عنہم اصرارہم والاغلا ل التی کانت علیہم“(القرآن)اور نبی ﷺ کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کی گردنوں میں بندوں کی غلامی اور رسم ورواج کے پڑے ہوئے طوق اتار تے ہیں، مگر آج پھر ہم نے دوبارہ انہیں کو پہن لیا ہے،نہیں معلوم ! راضی خوشی پہن لیا ہے یا پہن کر خوش ہو گئے ہیں، آخر کوئی ذوق اسیری تو دیکھے !!
”خودبخود زنجیر کی جانب کھنچے جاتے ہیں پاؤں “

اور پھر شاید یہ اس لئے بھی ہوتا ہو کہ دلوں کے درمیان بڑی پختہ اور اونچی اونچی دیواریں حائل ہیں ، کس قدر مضبوط اور پائدار ہے قومیت کی یہ دیوار، آدمی برسوں سر مارے مگر ذراسا شگاف نہ پیدا کرسکے، یہ ذات پات کی دیوارِ چین اور وہ مسلک ومشرب کی سدِّ سکندری ، ع۔” کون ہوتا ہے حریف مرد مئے افگن عشق“ شاید کوئی بھی نہیں،وہ بوریہ نشیںجو دوائے دل بیچا کرتے تھے ،وہ عرصہ ہوا اپنی دکان بڑھا کر اس جہاں سے رخصت ہوئے، اب قیس و فرہاد کا دور کہاں؟یہاں ہر کوئی تو جلتی پہ تیل چھڑکنے والا ہے، اس سے زیادہ اگر کسی کی کوئی حیثیت ہے تو محض ایک تماشائی کی ۔
ہوں میں بھی تماشائیِ نیرنگ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آئے

آگ اگر تھمے تو کیوں کر، یہ عداوتوں کے مہیب سائے، خواہشات ومطالبات کی منڈلاتی ہوئی کالی بدلیاں، یہ کبر و غرور کے سینہ تا ن کر کھڑے ہوئے ہمالیہ سے اونچے کہسار، یہ ایوریسٹ کی چوٹی کی طرح بلندناک ، کس میں دم ہے جو اسے سر کرنے کی سوچے ، اب تیشہ فرہاد میں وہ دم خم کہاں کہ جوئے شیر بہانے کو نکلے، اور پھر جب یہ سب مہیب سائے اور کالے دائرے ہمارے خود اپنے ہی پیدا کردہ ہیں تو کسی فرہاد کے خود پر تیشہ چلانے کا غم کیوں ؟ پھر اگر کوئی شیریں محل کی برج سے چھلانگ لگا بیٹھے تو ا س پر افسوس کے کیا معنیٰ؟ کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جائے ،یا شاخ سے ٹوٹ کر گر جائے تو خود کو ہی کوسنا چاہئے یا اپنے ظالم معاشرے کو، اگر آپ بھی بے درد ہیں تو اپنے آپ میں مگن رہئے، اور موجودہ صورت حال سے نظریں چراتے رہئے، لیکن کب تک ؟ شتر مرغ کا یہ کردار آخر ایک دن سب کو رسوا کردے گا ،اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا ، پھر جب کوئی آنکھیں ملتا ہوا اٹھے گا تو آسمان والے کہیں گے ”جب جل چکا سب کچھ “ ؟اور اگر دل درد مند رکھتے ہیں تو دل پر ہاتھ رکھ کر گنگناتے پھرئیے،ع” ابن مریم ہوا کرے کوئی “۔ اور اس سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں،ابن مریم اب کیوں ہونے لگے ہیں ہم خود کیوں ابن مریم نہیں بن جاتے ،کہ اس بے دردی کو دردمندی سے بدل دیا جائے۔
mohammad ilyas Rampuri
About the Author: mohammad ilyas Rampuri Read More Articles by mohammad ilyas Rampuri: 22 Articles with 22506 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.