تحریر:فاطمہ خان
آج چائے تمام مشروبات کی سردار کہلائی جاتی ہے۔ پاکستان کا قومی مشروب گنے
کا رس ہے لیکن شاذونادر ہی تمام گھروں میں میسر آتا ہے جبکہ چائے گھر گھر
کی کہانی ہے۔ مہمان آئے تو چائے، مینہ برسے تو چائے، خوشی ہو تو چائے، رنج
والم کا موقع ہو تو چائے، دوست یار جب ملیں تو چائے، صبح ہو تو چائے، شام
ہو تو چائے، تھکن ہو تو چائے، میزبان بنوں تو چائے، مہمان بنوں تو چائے، اف
چائے نہ ہوئے آکسیجن ہوگئی جہاں بھی گئی ہمنوائی پائی۔
آئیے تاریخ پہ اگر نظر دوڑائیں تو چائے سے متعلق دلچسپ معلومات سامنے آئیں
گی۔ چائے کو مختلف زبانوں میں جن ناموں سے پکارا جاتا ہے وہ یہ ہیں۔ عربی:
الشائی، فارسی: چائے خطائی، سندھی: چانھ، انگریزی: Tea، اردو: چائے۔ چائے
دو قسم کی ہوا کرتی تھی سبز اور سیاہ۔ لیکن اب تو ہر رنگ میں ہر ذائقے میں
پائی جاتی ہے۔ جب چھوٹی پتیوں کو جمع کر کے بھونا جاتا ہے تو وہ سبز چائے
کہلاتی ہے۔ جب کہ سیاہ چائے بڑی پتیوں کو بھوننے سے حاصل ہوتی ہے۔سبز چائے
بہ نسبت سیاہ کہ زیادہ خوشبو دار ہوا کرتی ہے۔ چائے کا مزاج گرم ہوتا ہے
اور خوراک کی مقدار تین ماشہ ہوتی ہے۔
پاکستان دنیا میں چائے استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔پاکستان کینیا
سے چائے درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشروب
چائے ہے۔حکومتِ پاکستان چائے کی پیداوار کے سلسلے میں 1995 میں تجربہ کر
چکی ہے جس پہ کام ہو رہا ہے اور چائے کی اس پیداوارکا علاقہ chinkiyari
خیبر پختون خواہ ہے۔2003 کے اعداداو شمار کے مطابق پاکستان میں 109,000ٹن
چائے استعمال ہوئے۔ جس کی بعد پاکستان چائے استعمال کرنے والا ساتواں بڑا
ملک بن گیا۔
سبز چائے ہزاروں سال سے قدیم تہذیب کا حصہ تھی جبکہ سیاہ چائے انگریزوں کی
آمد کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہندمیں متعارف ہوئی۔ پھر چائے ناشتے کا
لازمی جزو بن گئی۔ دوپہر کے کھانے سے پہلے ’’ٹی بریک‘‘ Tea Break میں چائے
لازمی پی جانے لگی۔ شام کی چائے اور پھر رات دیر تک جاگنے کے لیے چائے
بنانے کا رواج عام ہو گیا۔ شام کی چائے قابلِ ذکر ہے وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ
مرد حضرات جب کام کاج سے تھک کر گھروں کا رخ کرتے ہیں تو خاتونِ خانہ چائے
کا خاص اہتمام کرتی ہیں۔ یہ چائے گرما گرم پکوڑوں، سموسوں، کیک، بسکٹ یا
پیسٹریز کے ساتھ سرو کرتی ہیں۔ کام کرنے والے مزدور ہوں یا چوکیدار سب ہی
تھکن کا احساس کم کرنے کے لیے چائے کا استعمال کرتے ہیں۔امرا ء چائے کے لیے
ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ خصوصاً بوفے اسٹائل کھانے اور اسنیکس کے ساتھ
سرو کی جاتی ہے۔
چائے بنانے کے بھی مختلف طریقے ہیں۔ عموماً پانی میں چینی اور پتی(چائے)
ڈال کر ابال آنے کا انتظار کیا جاتا ہے،جب ابال آجائے تو حسبِ خواہش دودھ
اور الائچی ڈال کرپکا لیا جاتا ہے۔ یوں آسان چائے تیار ہو جاتی ہے۔ دوسرے
طریقوں میں صرف قہوہ بغیر چینی کے تیار کیا جاتا ہے اور دودھ، چینی الگ سے
پیش کر دی جاتی ہے۔ تیسرے طریقے کو دیہات میں رہنے والے سادہ لوح افراد
تعویز والی چائے کہتے ہیں۔ اس میں صرف پانی ابال کر’’ ٹی بیگ‘‘ استعمال کیا
جاتا ہے دودھ اس کے ساتھ بھی الگ سے پیش کیا جاتا ہے۔
چائے پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز میں پسند کی جاتی ہے۔ کراچی
میں کالی چائے اور مسالے والی چائے پسند کی جاتی ہے۔ پنجاب میں زیادہ تر جو
چائے پسند کی جاتی ہے اسے ’’دودھ پتی‘‘ کہا جاتا ہے ۔شمالی اور جنوبی
علاقوں خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور کشمیر میں سبز چائے پسند کی جاتی ہے
جِسے ’’قہوہ‘‘ کہتے ہیں۔ کشمیر میں کشمیری چائے جِسے ’’نون چائے‘‘ بھی کہا
جاتا ہے پسند کی جاتی ہے۔ کشمیر میں خاص مواقع پر کشمیری چائے بنائی جاتی
ہے۔ کشمیری چائے پستہ،بادام اور الائچی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے یہ خاص قسم
کی چائے گلابی رنگ کی ہوتی ہے جو ہر عمر کے افراد کو پسند آتی ہے۔
امریکی کوہ پیما گریگ مونٹینسن نے اپنی کتاب "Three Cups of Tea" میں ایک
بلتی ضرب المثل کو بیان کیا ہے کہ،’’پہلی بار جب آپ نے ایک بلتی کے ساتھ
چائے پی تو آپ ایک اجنبی ہیں، دوسری بار جب آپ نے چائے ساتھ پی تو آپ ایک
معزز مہمان ہیں جب کہ تیسری بار جب آپ نے ساتھ چائے پی تو آپ گھر کے فرد
ہیں‘‘ یعنی چائے رشتے مضبوط بنانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ چائے کے نقصانات
اپنی جگہ لیکن چائے کی بڑھتی ہوئی مانگ اس کی افادیت کو ظاہر کرتی ہے۔
|