گزشتہ دنوں اکیس مارچ کو شاعری کا عالمی دن منایا
گیا۔تاریخی روایات کے مطابق ۱۹۹۹ء سے یہ دن منانا شروع کیا گیا ہے اور اس
کا بنیادی مقصد نوجوان شاعروں کی شاعری کو فروغ دینا اور ان کو اپنی تصانیف
متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے اورر بعض ممالک میں اس دن ’’سال کا
بہترین شاعر‘‘چنا جاتا ہے۔یورپین لوگوں نے توہر چیز کے دن مقرر کردیے
ہیں‘جیسے ماں باپ کا دن‘عورتوں کادن‘محبت کا دن‘اور شاعری کو بھی انہوں نے
ایک دن میں مقید کردیا۔حالانکہ ہم جیسوں کے لیے تو ہر دن ہی شاعری کا دن ہے
اس لیے کہ شاعری ہماری رگوں میں خون بن کے دوڑتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم میں
ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو بچپن سے ہی شاعری پسند کرتے ہیں اوراپنے دل
کو بھا لینے والے شعروں اور غزلوں کو اپنی ڈائری میں قلم بند کرتے ہیں اور
پھر وقتاً فوقتاًان شعروں کو اپنے دوستوں کی محافل میں سناتے رہتے ہیں اور
خود بھی ٹوٹی پھوٹی شاعری کرلیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب میں الماری میں سے
کوئی کتاب ڈھونڈرہا تھا تو مجھے بھی اپنے بچپن اور لڑکپن کے دنوں کی ایسی
ہی چار پانچ ڈائریاں ملیں جو ایک طرف تو مختلف شعراء کے اشعار سے اور ساتھ
ہی ساتھ میرے اپنے لکھے ہوئے چند شعروں سے بھری ہوئی تھیں جن کو پڑھ کر میں
اپنے بچپن اور خاص طور پر لڑکپن کے حسین دنوں میں کھو گیا۔
پاکستان میں شاعری کی بات کریں تو ایک مضمون میں پاکستانی شعراء کی بڑی
خوبصورتی سے تقسیم کی گئی تھی کہ جب شاعری خواجہ فرید‘ بابا بلھے شاہ اور
سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی۔جب
شاعری نے اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو انسان کی بیداری اور خودی کی
سربلندی کا کام کیا۔ جب شاعری فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا
سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز اور پروین شاکرکو شاعری نے منتخب کیا تو
پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔بات پروین شاکرکی ہورہی ہے تو اس
دور کی ایک نوجوان شاعرہ ’’مہوش احسن ‘‘میں بھی مجھے ان کی جھلک نظر آتی ہے۔
ان کے چند اشعار اور غزلیں پڑھنے کا موقع ملا تو ان کی شاعری اور انداز
اتنا پسند آیا کہ میرے اندر کئی سالوں سے ’’کومہ میں پڑا شاعر‘‘ بھی ہلکی
ہلکی سانسیں لینے لگا ۔
بہرحال اُس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر
ایسوسی ایشن کی سالانہ ورکشاپ میں مہوش احسن نے اپنا شعری مجموعہ ’’تیرے
سنگ دلکش ہے زندگی‘‘دیتے ہوئے کہا کہ سر آپ اسے ضرورپڑھئے گا۔ فرصت کے
لمحات ملتے ہی ایک رات جب میں نے ورق در ورق یہ مجموعہ پڑھنا شروع کیا
توتھکاوٹ کے باوجود ایک ہی نشست میں مکمل پڑھ لیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہوش
احسن کی شاعری دلوں کو چھو لینے والی‘بلکہ روح میں اترجانے والی ہے اوربعض
اشعار کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہواکہ سکون کی بارش کے قطرے مسلسل مجھ
پر ٹپک رہے ہوں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے کلام میں جذبات اور احساسات
کا موجیں مارتا دریا رواں دواں نظر آتا ہے اور احساسات بھی ایسے کہ روح میں
اترتے جاتے ہیں۔مزید یہ کہ ان کی شاعری ایک طرف تو عشق‘محبت اور رومانویت
سے بھرپور ہے تو دوسری طرف ان کے بعض اشعار اپنے اندر دکھ‘درد اور کرب لیے
ہوئے ہیں‘مثلاً:
٭جو پوچھیں لوگ تم سے میری موت کی روداد
کہنا بیماری سے زیادہ اپنوں کی بے اعتنائی کھا گئی!
٭لمحہ لمحہ سسک رہی ہے شیشے کے محلوں میں
مٹی کے گھروندوں کی لڑکی دن اور رات!
مہوش احسن کا شعری مجموعہ’’تیرے سنگ دلکش ہے زندگی‘‘نہ صرف پڑھے جانے‘بلکہ
سراہے جانے کے قابل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہوچکاہے
اور کتاب کامعیار بتا رہا ہے کہ نئے کلام کے ساتھ اس کے بہت سے ایڈیشن شائع
ہوں گے۔ کتاب میں موجود محترمہ فاطمہ شیروانی کی اس بات سے مجھے اختلاف ہے
کہ ’’وہ دن دور نہیں جب مہوش کے لفظ ٹوٹے ہوئے دلوں کے لیے مرہم کا کام
کریں گے‘‘۔اس لیے کہ ان کے اشعار میں اتنی چاشنی اس وقت بھی موجود ہے جو
ٹوٹے دلوں کے لیے مرہم نہ سہی‘کم از کم سکون اور اطمینان کی کیفیات مہیا
کررہے ہیں۔
کتاب کے آخر میں شاعری سے ہٹ کر دو چیزیں شامل کی گئی ہیں۔(۱) ’’چاچو کے
نام خط‘‘جو اپنوں سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور زبان ایسی کہ ہر خاص و
عام کو سمجھ میں آجائے۔(۲)’’سنو‘دلکش‘‘ مہوش کے آنے والے ناول کے چند
پیراگراف بھی کتاب میں موجود ہیں جو اس بات کا اعلان ہے کہ مہوش کا یہ ناول
بھی جلد اشاعت پذیر ہوکر ہمارے ہاتھوں میں ہوگا۔شاعری اور ناول کے علاوہ
مہوش احسن افسانہ نگار بھی ہیں اور ان کے افسانوں کی کتاب بھی تقریباً مکمل
ہوچکی ہے اور ان کے کالم بھی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ان تمام چیزوں
نے مجھے مشکل میں ڈال دیا کہ میں مہوش کو شاعرہ لکھوں‘ ناول نگار
لکھوں‘افسانہ نگار لکھوں یا کالم نگار ۔ آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مہوش
ایک ’’آزاد لکھاری‘‘ ہے جس کا قلم تحریر کی ہر صنف میں بہت روانی سے مسلسل
چل رہا ہے اور اس نے اپنے قلم کو ہی اپنے درد کا درماں بنایا ہوا ہے۔
مہوش کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کی طبیعت میں سادگی اور اخلاق میں شائستگی
ہے۔ وہ اپنی کامیابیوں کا سہرا اپنی محنت اور لگن کے بجائے اپنے سینئرز کے
سر باندھتی ہیں اور یہی خوبی ان کو ان کے ہم عصروں سے بہت آگے لے جانے کا
باعث بنے گی۔مہوش کی کامیابیوں میں دوشخصیات ( احسن خان اورآفتاب لاشاری)
کا بہت بڑاہاتھ ہے‘بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر یہ دونوں مہوش احسن
کو سپورٹ نہ کرتے تو معاشرہ ایک بہت اچھی شاعرہ اور لکھاری سے محروم رہ
جاتا۔ دعاگو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ مہوش احسن کو لکھنے میں استقامت عطا فرمائے
اور وہ اس میدان میں فلک کو چھو لیں! |