غذائی دل شکنی

‪‪دل شکنی کرنے کا کوئی ایک خاص طریقہ مرؤج نہیں بہتیرے ہیں اور غذائی دل شکنی بھی ان میں سے ایک ہے لیکن اگر دل شکنی ایک بڑا گناہ ہےتو مجھے معلوم نہیں کہ ایسےمیسنے لوگوں کی بخشش کیسے ہوگی کہ جو یہ کام اس ڈھنگ سے کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی سوائے اسکے کہ جسکی دل شکنی کی گئی ہو اور جسے کرپانا بھی کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ صرف انہی سے ہوسکتی ہے کہ جوکسی محفل طعام میں اس طرح آناً فاناً چپ چاپ دو نوالے منہ میں رکھ کے ہاتھ دھونے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ انکا یہ عمل سراسر اک سازش معلوم ہوتا ہے کیونکہ ابھی ڈھنگ سے دوسرے کھانا شروع بھی نہیں کرپائے ہوتے کہ ادھر وہ ٹشو یا نیپکن سے منہ پونچھ کے مصروف خلال ہوجاتے ہیں جبکہ عام کلیہ یہ ہے کہ جب تک کسی دعوت میں مہمان کی جھپٹی گئی غذا کی مالیت میزبان کو لفافے میں دیئے گئے مال کے برابر نہ ہوجائے اور کھانے والا کھاتے کھاتے نڈھال نہ ہوجائے وہ کھانا اس مہمان پہ حلال نہیں ہوتا اور ایسے حلال کی نوبت آنے سے قبل کوئی خلال بھی جائز نہیں ہوتا ۔۔۔ اور بالخصوص کسی ننھی منی سی غذائی جھڑپ پہ تو خلال کی حیثیت محض اک بھپتی یا تعلی سے زیادہ ہرگز نہیں ۔ مت پوچھیے کہ برابر میں بیٹھے کسی بھی غذائی تقوے میں مبتلاء کسی فرد کے خوراکی محتاط روی کے مظاہرے سے ان لوگوں کے دلوں پہ کیا گزرتی ہے کہ جو صرف کھانے ہی کے لیئے زندہ ہیں ۔۔

ہمارے ایک ایسے ہی واقف جو محض کھانے ہی کی خاطر نجانے کب سے بار زندگی اٹھائے پھرتے ہیں اور نہایت آزاد خیال بھی ہیں ایک دن ایسی مذہبی تنظیم کی بس میں سوار ہوتے دیکھے گئے کہ جسکے نام میں دعوت کا لفظ شامل تھا ۔ اس منظر کو دیکھ کے بہت سوں کو بہت حیرت بھی ہوئی تاہم تین چار دن ہی میں یکسر پلٹے ہوئے یعنی بہت لبرل لبرل معلوم ہوئے ۔ جس پہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ” اب یہ باتیں کیسی؟ آپ تو فلاں مذہبی تنظیم کا حصہ بن گئے تھے ؟؟ “ تو بڑی جھنجھلاہٹ سے اسکا جواب انہوں نے یوں دیا کہ ‘ میاں بس دعوت کے نام سے ذرا غلط فہمی سی ہوگئی تھی ، کسی کو ایسے مغالطے والے نام قطعاً نہیں رکھنے چاہئیں۔۔“ ہمارے یہ پرخور دوست اپنے جیسے اور بہت سے خوش خوراکوں کی طرح اپنے ہر کھانے کو آخری سمجھ کے کھاتے ہیں اور بوقت طعام انکا انگ انگ توانائی سے لبریز اور آخری نوالے تک سرفروشی سے سرشار ہوتا ہے ۔۔ لیکن وہ غافلین جن کا قصور محض یہ ہو کہ وہ ایسے کسی محتاط و تقویٰ شعار کے ساتھ ہی کھانے کی میز پہ بیٹھ گئے ہوں تو پھر کیوں اس سنگین ٍغفلت کی یہ کڑی سزا نہ بھگتیں کیونکہ کسی دعوت میں اس طرح کے غذائی تقوے کا عمل وافر طور پہ حاضرین میں اک گونہ ناقابل نظراندازی تقابل سا پیدا کرتا ہے جس سے بھرپور خدشہ رہتا ہے کہ آس پاس موجود غذائی مجاہدین میں عرصہء دراز سے شرمساری کے سلائے گئے امکانات جاگ سکتے ہیں اور یوں کم خؤری کا یہ مظاہرہ انہیں ہزیمت سے دوچار کرکے انکے ولولوں کو جس بری طرح پامال کرتا اور اور انکے بلند ارادوں کو انتہائی پست کرتا ہے وہ سراسر انکی دل شکنی کا موجب ہوتا ہے

ہماری دانست میں کسی تقریب طعام کی ساری رونق ہی بسیارخوروں کے دم سے ہے کیونکہ انہی کی وجہ سے ڈشوں کی آوت جاوت ہے اور انکی بدولت پلیٹیں خوب بجتی اور کھڑکتی ہیں اور دور دراز تک اس غذائی معرکے کی خبر جاتی ہے جن سے میزبان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے اور اسکی روح کو وافر سکون میسر آتا ہے اور یوں تقریب کا حقیقی مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے ۔۔ اسی لیئے بسیار خوروں کی تالیف قلب اور تسکین معدہ کے پہلو کو نظر انداز کرنے کی غلطی کبھی نہیں کی جانی چاہیئے اور انکی بددعاؤں سے بچنے اورانکی دل شکنی کے امکانات رفع کرنے کے لیئے ہونا یہ چاہیئے کہ ہر تقریب طعام میں ایسے کم خور تقویٰ شعار لوگوں کے لیئے بالکل اسی طرح سے مخصوص ٹیبل الگ تھلگ لگادی جایا کرے کہ جس طرح چند وی آئی پی مہمانوں کے لیئے بھی بہرحال لگائی ہی جاتی ہے کہ جن سے میزبان کے کئی کام پڑتے ہیں اور وہ بعد میں ان سے اس موقع پہ کی گئی انکی خصوصی عزت کرنے کی قیمت کسی نہ کسی موقع پہ وصول کرکے ہی دم لیتے ہیں ۔ جہاں تک ان کم خور لوگوں کا معاملہ ہے تو اپنی غذائی اور سماجی عاقبت برباد کرنے کے ذمہ دار ایسے لوگ خود ہی ہوتے ہیں کیونکہ کچھ اور ہو نہ ہو لیکن انکے ساتھ یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایسا کم خور فرد بہت تیزی سے اپنے دوست اور حامی کھوتا چلاجاتا ہے اور بالآخرایک دن کسی دعوت کی میز پہ یکہ و تنہا بیٹھا پایا جاتا ہے ۔۔۔ لیکن اسکا مطلب یہ بھی ہرگزنہیں کہ وہ اکیلا ہوکے اداس اور مجہول سا بیٹھا ہوتا ہے ، بلکہ وہ اس موقع پہ بھی حسب معمول بڑے انہماک سے بغل میں دبی کوئی کتاب یا جیب میں موجود کوئی کتابچہ نکال کے پڑھتا دیکھا جاتا ہے جس کا موضوع عموماً کم ‘خوراکی کے فوائد’یا ‘بادی غذاؤں کے نقصانات’ وغیرہ وغیرہ ہی ہوا کرتا ہے

Syed Arif Mustafa
About the Author: Syed Arif Mustafa Read More Articles by Syed Arif Mustafa: 19 Articles with 15495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.