اردو ادب نوسربازوں کے نرغے میں

”اردوادب برائے فروخت……“ اردوبازار کے ہر مہمان پبلشر کی دکان پر اس بات کااہتمام وانتظام موجود ہے کہ بلند پایہ ادیب وشاعر اپنی تمام عمر کی پونجی سفارش اورخوشامد کے ذریعے کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرے۔پبلشر سلیقے سے ناقدری ِ عالم کاگلہ کرتے ہوئے اپنے منافع میں ادیبوں کا لہو،اُن کی احسان مندی کے جملہ لوازمات کے ساتھ شامل کرتا جائے۔محمد حسین آزاد اگر یہ عالم دیکھتے تو شاید اس لمحے ان کا ہارٹ فیل ہوجاتا اوریہ شعر ”آبِ حیات“ کے ذریعے ہم تک نہ پہنچتا کہ ؎
یوں پھریں اہلِ کمال آشفتہ حال افسوس ہے
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے

صاحبانِ کمال کی بے توقیری اورناقدری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اوراب تو یہ عالم ہے کہ منی پاکستان،کراچی کورول ماڈل کے طورپر لیا جائے اوردیکھا جائے کہ ان صاحبانِ کمال میں شعراء کی تعداد کتنی ہے؟افسانہ نگار اورناول نگار کتنے ہیں؟ نقاد کتنے ہیں؟ اوردرس گاہوں میں واقعی استادکتنے ہیں؟تواندازہ ہوگا کہ اس عہدِ ناپُرسا ں میں مضمون آفرینی اورقافیے کی داد تو دُور کی بات ہے فقرہ سمجھنے والے بھی کم یاب ہوگئے ہیں۔ اس احوال پر کہنا پڑے گا کہ ستائشی فقرے اورتالیوں کی گونج ادیبوں کوادب میلوں کی طرف لے آئی ہے۔”فقرہ سازی“ ہنر مندی اور تنقیدنگاری کا جوہر قرارپائی ہے۔لیکن اب وہ قحط الرجال ہے کہ فقرہ سمجھنے والے بھی موجود نہیں،یعنی ادب اورادیب شوبز کی چمک دمک سے آراستہ ہیں۔ہائے میر کی دلّی،غالب کا عرش سے پرے خرام،اقبال کی خودی سے بہرہ ور حقیقی ادیب عقل کی پاسبانی میں،عالمی مشاعروں اورآرٹس کونسل کے بے ادبوں،متشاعروں اورغیر ادیبوں کی یلغار سے نبرد آزما ہے۔
’’ادب برائے تفنّنِ طبع“ اور ”ادب برائے زندگی“ کی رمزیت نعرے سے زیادہ نظرنہیں آتی۔یقینا نعرہ بازی اورچال بازی سیاست کے مؤثر ترین ہتھیار ہیں یعنی ادب میں کبھی سیاست چوردروازے سے درآتی تھی مگرآج ادب میں دھڑلے سے سیاست کی حکمرانی ہے۔ ادب برائے زندگی کی معنویت پورے سماج کو،بلکہ سماج کے ہر شعبے کے لیے مسرّت کے ساتھ ساتھ زندگی کی حرارت اوراقدار کی پاسداری کی طرف لاناتھا،اس بات کا جواب یوں بھی ہوسکتا ہے کہ موجودہ صورت حال ویسی ہی ہے،جیسا معاشرہ یا سماج۔یہ بات کہہ کر اپنی جان بآسانی چھٹرائی جاسکتی ہے۔

ان تمام باتوں کی بابت یہ سوال ذہن میں ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آیا ادب کی موجودہ فضا کے اسباب کیا ہیں۔معمولی غوروفکر سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ماضی کے وہ سارے ادیب اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں،جو عہد ے،منصب،دولت اورسفارش کے بل پر اپنے بے حقیقت اورمعمولی کام کو عظیم سطح پر منوانا چاہتے تھے اوراسی خواہش نے انہیں میڈیا یا ایسے اداروں کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کردیا کہ وہ بڑے ادیب اورعظیم دانشور قراردے دیے جائیں،لہٰذا معیارکی بگڑتی ہوئی صورتِ حال ہے کہ آپ کے کیسہ ئ علم میں علم وادب کا کتنا فقدان کیوں نہ ہو،آپ فعال کتنے ہیں؟ آپ کے رابطے کس سے ہیں؟یقینا آپ ایک روز بڑے ادیب قراردے دیے جائیں گے۔
”بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں“

ادب کے پارکھ رزق ِ خاک ہوتے جارہے ہیں اورکچھ لوگ گوشہ نشینی ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اورکچھ لوگ اپنی آوازیں فضا میں محفوظ کرادیتے ہیں۔

ایک زمانے ہی سے ادب میں ابتری کے آثارنمایاں تھے۔خدا خدا کرکے خودساختہ اُستادی شاگردی کی روایت سے نجات ملی،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئی نسل جوق درجوق اس طرف رجوع کرتی لیکن ہُوا اس کے برعکس۔مطالعے کے فقدان،دونمبر کے مال کی سپلائی اوراس پر مستزاد، میڈیا نے ادب کے نوسربازوں کوکھل کر کھیلنے کاراستہ دکھایااوراب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ادب اپنی اقدار سے خاصی حد تک محروم ہوچکا ہے۔

عالمی مشاعروں کی تگ ودو اورکسی بھی طرح اپنے آپ کو منوانے کے مسائل نے اردو ادب کونوسربازوں کے جال میں پھنسا دیا ہے۔

یہ نوسرباز معاملہ فہمی اورذاتی معاملات کے تحفّظات کے لیے اپنی اپنی گِرہ میں ادیبوں کو مصاحبوں کی طرح رکھنا قابلِ فخر سمجھتے ہیں۔ ادب اورادیب کے نام پر کیے جانے والے ڈرامے ان کی شہرت اوران کی دولت میں روزبروز اضافے کا سبب ہیں اوراس کی آڑ میں انہیں پبلک ریلیشنگ کے مواقع بھی میّسر رہتے ہیں۔اصل تخلیق کار،فن کاران کے آگے پیچھے اپنے بہتر مستقبل کی امید لیے ”گُمنامی“ کی موت مرجاتا ہے اورنوسربازکاراج،ادب کوتاراج کرتا ہے۔بقولِ شاعر ؎

کائی کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر سبزہ
 

Prof.Dr.Shadab Ehsani
About the Author: Prof.Dr.Shadab Ehsani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.