اس ساٹھ گز کے گھر کو بنوانے کے لیے انھیں کتنے پاپڑ
بیلنا پڑے تھے یہ ان دونوں میاں بیوی کا دل ہی جانتا تھا- یہ حقیقت تھی کہ
اس کی تعمیر کے دوران سلمان اور شکیلہ نے روپوں کو دانتوں سے پکڑ پکڑ کر
گھر چلایا تھا-
سلمان نے پیدل ہی آفس آنا جانا شروع کردیا تھا جو گھر سے تقریباً چھ کلو
میٹر کے فاصلے پر تھا اس سے اس کے تقریباً تیس روپے روزآنہ بچ جاتے تھے- وہ
محکمہ ڈاک میں کلرک تھا- پہلے دوپہر کا کھانا آفس کی کینٹین میں ہی کھالیتا
تھا، چالیس پینتالیس روپے اس میں لگ جاتے تھے- مگر گھر بنانے کے لیے اس نے
ان روپوں کو بھی بچا لیا اور کھانا شام کو گھر آکر کھانے لگا- اس کی بیوی
نے میکے آنا جانا چھوڑ دیا تھا، اس طرح وہ رکشے کے پیسے بچا لیتی تھی- اس
کی ماں بہنیں خود ہی اس سے ملنے اس کے گھر آجاتی تھیں-
موجودہ گھر جس میں وہ لوگ رہتے تھے کرائے کا تھا، اور ہر مہینے اس کا کرایہ
دیتے ہوۓ شکیلہ کا دل بہت دکھتا تھا- اس معاملے میں وہ کچھ کر ہی نہیں سکتی
تھی، ہاں فالتو بتیاں ضرور بند کر دیتی تھی، اور بجلی کی استری کی جگہ اس
نے لوہے کی استری منگوا لی تھی جسے وہ سوئی گیس کے چولہے پر رکھ کر سلمان
کے کپڑے استری کیا کرتی تھی- کپڑوں کی دھلائی کے لیے پاوڈروں کی جگہ صابنوں
نے لے لی- دانت صاف کرنے کے لیے اس نے کوئلہ پیس کر اس میں نمک ملا کر رکھ
لیا تھا- عید بقرعید پر دھلے ہوۓ کپڑے پہنے جانے لگے تھے- اس طرح کی اور
بہت سی باتیں تھیں جن کی وجہ سے اخراجات میں کمی آگئی تھی- دل کو یہ
اطمینان تھا کہ یہ تکلیفیں اٹھا کر گھر تو بن جائے گا-
جس پلاٹ پر یہ گھر بنا تھا اسے شکیلہ کی ماں نے اس کی شادی سے بھی بہت پہلے
خرید کر اس کے نام کردیا تھا- اس وقت اس علاقے میں الو بولتے تھے، دور دور
تک آبادی نہیں تھی، اس لیے پلاٹ کافی سستے داموں مل گیا تھا مگر وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں آبادی بھی ہوتی چلی گئی اور پلاٹ کی قیمت بھی
کہیں کی کہیں پہنچ گئی-
شکیلہ نے گھر میں سلائی بھی شروع کردی تھی- اس سے جو پیسے ملتے تھے وہ گھر
میں نہیں لگاتی تھی- ان پیسوں کی اس نے کمیٹی ڈال دی- جب یہ کمیٹی نکلی اور
اس کے پیسے ملے تو سلمان نے کئی روز کے صلاح مشورے سے مکان کی تعمیر شروع
کروادی- ایک معقول رقم ان کے پاس بھی موجود تھی، جو انہوں نے بچت کر کر
کےجمع کی تھی- سلمان کو پتہ تھا کہ مکان بنانے میں لگائے ہوۓ حساب کتاب سے
زیادہ خرچہ ہو جاتا ہے- پیش بندی کے طور پر اس نے کچھ قرض اپنے آفس سے بھی
لے لیا تھا-
سلمان کا خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا- اس کے ماں باپ، بیوی شکیلہ اور تین
سال کا بیٹا حمزہ- یہ کل پانچ افراد تھے- غریبوں کی خوشیاں ہوتی تو چھوٹی
چھوٹی ہیں مگر ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی بھی ان کی نظر میں بہت اہمیت ہوتی
ہے- جب سے گھر کی تعمیر شروع ہوئی تھی، سب اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر
ایک جگہ بیٹھتے تو صرف گھر کی ہی باتیں کرتے تھے- سلمان کے ماں باپ بہت
بوڑھے تھے- وہ اس بات سے بہت خوش تھے کہ اپنا گھر ہو جائے گا تو ان کی بہو
بیٹے کے وہ پیسے بچیں گے جو وہ موجودہ گھر کے کرائے کی مد میں دیتے ہیں-
سردیاں شروع ہو گئی تھیں- سلمان چاہتا تھا کہ سردیوں کی بارشوں سے پہلے ہی
وہ نئے گھر میں چلے جائیں-
آخر ایک روز گھر بن کر تیار ہوگیا بس رنگ روغن کا کام باقی تھا- اس کام میں
ہفتے مہینے تو لگنے نہیں تھے، اس لیے انہوں نے سوچ لیا تھا کہ آئندہ ماہ کی
پہلی تاریخ کو وہ کرائے کا گھر چھوڑ دیں گے-
شکیلہ کا ایک بھائی گھروں میں رنگ کرنے کے ٹھیکے لیتا تھا- جب مکان بن گیا
تو اس نے گھر کے اندر باہر رنگ کی ذمہ داری لے لی- بہن نے پیسوں کی بات کی
تو بولا "باجی- کوئی بہنوں سے بھی پیسے لیتا ہے- اماں نے سن لیا تو مجھے
چھوڑیں گی نہیں"- شکیلہ نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ وہ مزدوری کے نہیں تو
سامان کے پیسے ہی لے لے- وہ خاموش ہوگئی اور اس مد میں جو پیسے بچے تھے ان
کے دو لوہے کے پلنگ، فوم کے دو گدے، ایک چھوٹی لکڑی کی ریک اور کمرے میں
فرش پر بچھانے کے لیے پلاسٹک لے آئ اور ان چیزوں کو نئے گھر میں پہنچا دیا-
سلمان کو کمرے میں آف وائٹ رنگ اور اس پر چاکلیٹی بارڈر بہت پسند تھا- یہ
بات شکیلہ کو اس لیے پتہ تھی کی اس نے ایک دفعہ خود اس کا تذکرہ اس سے کیا
تھا- شکیلہ نے بھائی کو سختی سے اس بات کی تاکید کی تھی کہ کمرے میں ایسا
رنگ ہونا چاہئے-
اس نئے گھر میں ایک کمرہ تھا- کمرے کے دائیں ہاتھ پر باورچی خانہ، غسل خانہ
اور لیٹرین تھے- کمرے کے سامنے ایک برآمدہ تھا جس پر ٹین کی چادریں تھیں-
چونکہ بجٹ محدود تھا اس لیے اس برآمدے میں چھ چھ اینٹوں کے ردے رکھ کر
دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں اور چھت سے لے کر چھ چھ اینٹوں کی دیواروں تک
سلمان نے موٹی ترپال لا کر ڈال دی تھی - اس طرح برآمدہ بھی ایک چھوٹے سے
کمرے کی شکل اختیار کر گیا تھا- اس نے سوچ رکھا تھا کہ ترپال کی درزوں میں
سے سردی کی برفیلی ہواؤں کو روکنے کے لیے وہ ماسک ٹیپ بھی لگا دے گا-
برآمدے کے سامنے ایک چھوٹا سا صحن تھا- سلمان کا خیال تھا کہ وہ ایک ڈربہ
اور کچھ مرغیاں بھی لے آئے گا- بوڑھے لوگ ان چیزوں میں مگن رہتے ہیں- اماں
ابّا ان کے دانہ پانی کا خیال رکھیں گے اور انڈوں کے انتظار میں بیٹھے رہا
کریں گا، وقت اچھا گزر جایا کرے گا-
سلمان نے سوچ رکھا تھا کہ جیسے ہی کچھ پیسے آئیں گے برآمدے کی دیواریں
اونچی کر کے اس میں ایک دروازہ لگا دے گا- کرائے کے گھر میں دو کمرے تھے،
ایک کمرے میں یہ دونوں میاں بیوی اور ان کا بیٹا حمزہ اور دوسرے کمرے میں
اس کے ماں باپ رہتے تھے- اس گھر میں بس یہ ہی ایک خرابی تھی کہ اس میں صرف
ایک کمرہ تھا- سلمان نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ اماں ابّا کو اس برآمدے
والے کمرے میں تھوڑی سی تکلیف تو اٹھانا پڑے گی مگر وہ پہلی فرصت میں اس کو
پکا بنوانے کی کوشش کرے گا-
نئے گھر میں شفٹ ہونے سے ایک روز پہلے شام کو دونوں میاں بیوی گھر کا ایک
چکر لگانے آئے- گھر دیکھ کر سلمان کا دل خوشی سے کھل اٹھا- گھر کے گوشے
گوشے سے جیسے روشنیاں پھوٹ رہیں تھیں- اس نے شکیلہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور
بولا "یہ گھڑی صرف تمہاری کوششوں اور محنت سے دیکھنا نصیب ہوئی ہے- تم اگر
ایک سگھڑ بیوی نہ ہوتیں تو ہم کبھی بھی گھر کے مالک نہیں بن سکتے تھے"-
"میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ہے- اگر آپ ہی مجھے کما کر نہ لا کر دیتے تو
میں اکیلی کیا کرلیتی"- شکیلہ بولی اور کمرے کا تالا کھولنے لگی- کمرے میں
داخل ہو کر اس نے بٹن دبا کر لائٹ جلائی- سلمان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے
لگیں- دیواروں پر شکیلہ نے اس کی پسند کا وہ ہی رنگ کروایا تھا جس کے بارے
میں اس نے ایک دفعہ تذکرہ کیا تھا- کمرے میں سامنے دو پلنگ بچھے ہوۓ تھے،
ان پر نئے فوم کے گدے اور تکیے تھے- پورے کمرے میں خوش رنگ پھولوں کی فرشی
پلاسٹک بچھی ہوئی تھی- دونوں پلنگوں کے درمیان لکڑی کی چھوٹی سی ریک تھی-
سامنے کھلی کھڑکی سے باہر دور تک کا نظارہ دکھائی دے رہا تھا اور چلتے
پھرتے لوگ نظر آرہے تھے-
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ شکیلہ کا بھائی اپنے دوست کے منی ٹرک میں ان کا
وہ سامان لے آیا جو کرائے والے گھر میں تھا- شکیلہ باہر نکل کر سامان کو
اپنی نگرانی میں اتروانے لگی- وہ بتاتی رہی کہ کونسی چیز کہاں رکھنی ہے-
اپنی ساس اور سسر کے پرانے بستر اور پلنگ اس نے برآمدے کے باہر رکھوادئیے-
برتن وغیرہ اس نے باورچی خانے میں رکھوائے- اس کا بھائی گیس کا چولہہ فٹ
کرنے لگا- میاں بیوی کے پلنگ اچھی حالت میں تھے اور وہ ان پر روئی کے گدے
بچھا کر سوتے تھے- ان اچھی حالت کے پلنگوں کو اس نے برآمدے کے اندر رکھ کر
ان پر گدے بچھائے اور ان پر تکیے رکھ دیے- لوہے کے صندوق اور اسی طرح کا
دوسرا سامان بھی اس نے برآمدے والے کمرے میں ہی رکھ دیا تھا- رات ہونے لگی
تھی اور سردی بڑھتی جا رہی تھی- ٹھنڈک محسوس کر کے سلمان نے سوچا وہ اماں
ابّا کو گیس کا چھوٹا سا روم ہیٹر بھی لا کر دے گا، برآمدہ حالانکہ ترپال
سے بند تھا مگر یہاں کمرے سے زیادہ سردی تھی-
اس کے بھائی نے چولہا لگا دیا تھا- شکیلہ نے جلدی جلدی چائے بنائی- سلمان
سے بولی "چائے پی کر آپ بھیا کے ساتھ جا کر اماں، ابّا اور حمزہ کو لے آئیے
گا"-
وہ لوگ چلے گئے تو شکیلہ کاموں میں مصروف ہوگئی- وہ کوشش کر رہی تھی کہ
چیزوں کو اس قرینے سے رکھے کہ وہ پھیلی ہوئی نظر نہ آئیں-
تھوڑی دیر بعد اس کے ساس سسر بھی آگئے- حمزہ کو جب بتایا گیا کہ یہ اس کا
نیا گھر ہے تو وہ بھاگ بھاگ کر چاروں طرف سے اس جائزہ لینے لگا- شکیلہ کے
ساس سسر ٹرک سے اتر کر سیدھے گھر میں ہی آگئے تھے، مگر پھر فوراً ہی مڑ کر
باہر نکلے اور دیر تک گھر کو باہر سے دیکھتے رہے- بہو بیٹے کا گھر دیکھ کر
ان کا خوشی سے برا حال ہو رہا تھا- سلمان نے کہا "ابّا اب اندر آ بھی جاؤ،
اندر سے تو گھر دیکھ لو"-
شکیلہ باہر نکلی، اس نے ایک ہاتھ ساس کا پکڑا، دوسرا سسر کا اور دونوں کو
سجے سجائے کمرے میں لائی- سلمان بھی ان کے ساتھ تھا- کمرے میں لا کر اس نے
کہا "اماں یہ ہے آپ کا اور ابّا کا کمرہ- اسے میں نے خود اپنے ہاتھوں سے
سجایا ہے- میں اس ریک میں آپ دونوں کی دوسری چیزوں کے ساتھ ابّا کی دوائیاں
بھی رکھوں گی- میں ایک چھوٹا ریڈیو بھی لائی ہوں، ابّا اس پر خبریں سنا
کریں گے ادر وہ ریڈیو بھی میں اسی ریک پر رکھوں گی"-
شکیلہ نے محسوس کیا کہ سلمان باہر نکل گیا ہے- ساس سسر کو کمرے میں ہی چھوڑ
کر وہ باہر نکلی، سلمان صحن میں دیوار سے سر ٹکائے کھڑا تھا اور رو رہا
تھا- "کیا ہوا؟" وہ گھبرا کر اس کے پاس گئی-
سلمان نے کہا "شکیلہ تمہاری بعض باتوں کا صلہ میں مر کر بھی نہیں دے سکتا-
تم اس سے بھی کہیں زیادہ اچھی ہو جتنا کہ میں تمہیں سمجھتا ہوں"-
شکیلہ نے دوپٹے سے اس کی آنکھیں پونچھیں، خود اس کی آنکھوں میں بھی آنسو
آگئے تھے- شوہر اگر دل کی گہرائیوں سے بیوی کی تعریف کرے تو بیوی جذباتی ہو
ہی جاتی ہے-
.............
|