وفاقی وزیر علی حید زیدی کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا
ہے جنہیں ذاتی طور پر میں پسند کرتا ہوں لیکن یہ میری بدقسمتی ہے کہ ان سے
تعلقات کبھی خوش گوار نہیں رہے جہاں بھی مڈ بھیڑ ہوتی ہے منہ ماری ضرور
ہوجاتی ہے آخری دفعہ ان سے آمنا سامنا اسلام آباد کے ایک اخبار کے سامنے
ملازمت سے برطرف کارکنان کے احتجاجی کیمپ میں ہوا جہاں ایک صحافی دوست نے
ان سے استفسار کیا کہ آپ کی حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا
تھا مگر یہاں تو حکومتی اقدامات ہرروز بے روزگاری کے آسیب کو جنم دے رہے
ہیں میں نے لقمہ دیا کہ شاید حکومتی وعدہ کروڑ نوکریاں چھیننے کا ہو اس
لقمہ پر علی زیدی برہم ہوگئے ہمارے درمیان کچھ سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا
مگر بعد ازاں ماحول ان کے برجستہ جملوں سے خوش گوار ہوگیا ۔
مجھے اب پوری طرح یقین ہوگیا ہے کہ کرپشن سے ملک تباہ ہوں یا نہ ہوں نا
اہلی سے ضرور ہوجاتے ہیں ۔ میں قلم قبیلے کے اس گروہ سے ہوں جنہوں نے عمران
خان کی تبدیلی کے خواب کو پلکوں پر سجایا تھا اور ہر لحاظ سے قلمی تعاون
فراہم کیا تھا لیکن اب امید وینٹی لیٹر پر منتقل ہوگئی ہے ہر روز حکومت
ایسے غیر ضروری اقدامات اُٹھاتی ہے جس سے ایک نیا بحران گلے پڑ جاتا ہے ۔
میڈیا انڈسٹری انعام اکبر پر مضحکہ خیز مقدمات اور ان کی طویل گرفتاری کی
وجہ سے بحران در بحران کی کیفیت سے گرز رہی ہے اور وفاقی وزیر اطلاعات کی
غیر سنجیدہ گفتگو اس انڈسٹری کی مشکلات کو مزید تڑکا لگاتی رہتی ہے ۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ملک بھر سے اسٹیٹ لائف کے ہزاروں لوگ
کئی دن سے جمع ہیں ۔ اسٹیٹ لائف منافع بخش ادارہ ہے اس کا فیلڈ ڈھانچہ 1972
ء سے موجود ہے اور بہترین کام کررہا ہے سیلز ریپ ، سیلز افیسر اور سیلز
منیجر تک کے عہدوں پر کام کرنے والے لوگ بغیر تنخواہ کے اپنی خدمات سر
انجام دیتے ہیں ان کی تعداد پورے ملک میں تین لاکھ سے زائد ہے موجودہ چیئر
مین یونس ڈھاگانے یکم فروری 2019 کو ایک حکم نامہ کے ذریعے اس نظام کو درہم
برہم کردیا اس حکم نامہ کے تحت سیلز افیسر کا کیڈر ہی ختم کردیا انہوں نے
ملک بھر میں کام کرنے والے سیلز افیسر پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے
اور 5 ارب روپے کی کرپشن ان کے گلے ڈال دی ۔ اسٹیٹ لائف کا طریقہ کار
سمجھنے والے جانتے ہیں سیلز ریپ ، سیلز افیسر اور سیلز منیجر وہ بنیادی
ڈھانچہ ہے جو ادارے کیلئے پالیسیاں اکٹھی کرتا ہے اور ایک مخصوص کمیشن کے
سوا انہیں کسی قسم کی ادائیگی نہیں ہوتی اس بنیادی ڈھانچے کو چھیڑنے کا
مطلب پوری عمارت کو زمین بوس کرنا ہے یونس ڈھاگا کے اس حکم نامہ کے بعد
ملازمین احتجاج پر ہیں اور گزشتہ دو ماہ سے ہونے والا یہ احتجاج اربوں روپے
کی پھکی قومی خزانے کو دے چکا ہے اس غیر ضروری اقدام کی وجہ سے اسٹیٹ لائف
کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے اور یقینا مستقبل میں اس کے کاروبار پر بھی
اثرات مرتب ہونگے ۔ میں حیران ہوں کہ ایک منافع بخش ادارہ جو ایک ہزار ارب
سے زائد اثاثوں کا مالک ہے کس کے اشارے پر تباہ کیا جارہا ہے ؟ اور کیا عجب
تماشہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس ادارے کو کامیاب کیا ، جو تنخواہ نہیں لیتے
اور خزانہ بھرنے کا سبب بنتے ہیں آج بے چین ہیں سڑکوں پر ہیں اور حکومتی نا
اہلی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں ۔
علی زیدی جیسے لوگ قابل قدر ہیں تحریک انصاف کے اکثر کلیدی لوگوں سے میری
اچھی جان پہچان اور احترام کا رشتہ ہے ان لوگوں کو تنقید پر برہم نہیں ہونا
چاہیے بلکہ اپنے قائد کو آگاہ کرنا چاہیے کہ تبدیلی کے بوجھ کے نیچے لوگ
کراہ رہے ہیں ان کی حالت زار پتلی ہے اور کچھ عناصر بلاوجہ حکومتی حزیمت کا
سبب بن رہے ہیں ان کے پوشیدہ مقاصد کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے جب وزیر
مواصلات مراد سعید سی پیک جیسے اہم منصوبے کو متنازعہ بنا رہے ہوتے ہیں تو
کون نہیں جانتا کہ یہ پروپیگنڈہ کن کی منشاء ہے اور کون سے دشمن ممالک سی
پیک کے آغاز سے ہی ایسے الزامات عائد کررہے ہیں ۔ کوئی عمران خان کو بتائے
اسٹیٹ لائف کے ان کارکنان کا دکھ ان تک پہنچائے اور ان کے خلاف ہونے والی
گھناؤنی سازشوں سے کپتان کو آگاہ کرے ورنہ بے چینی بہت بڑھ گئی تو نتائج
بھی انتہائی خوفناک ہونگے ۔
|